سینما پروجیکٹر کی کہانی۔۔انور اقبال

میری اس تحریر کے ساتھ اشتہار کی جو تصویر ہے یہ “روزنامہ جنگ” میں ستمبر 1966 میں شائع ہوا تھا۔ اُس وقت پاکستان فلم انڈسٹری بام ِعروج پر تھی اور پاکستان میں سنیما مشینری بھی مقامی طور پر تیار ہونے لگی تھی۔ جیسا کہ اس اشتہار سے عیاں ہے کہ پاکستان میں سینما پروجیکٹر تیار کرنے والی پہلی کمپنی کا نام “ویسٹرن الیکٹرک کمپنی (پاکستان) لمیٹڈ” تھا۔ دراصل یہ کمپنی امریکہ کی مشہورِ عالم “ویسٹرن الیکٹرک” کا ہی ایک ذیلی ادارہ تھی۔ امریکن ویسٹرن کمپنی کا طرہ امتیاز یہ تھا کہ سن 1929 میں ویسٹرن الیکٹرک نے ابتدائی سنیما ساؤنڈ سسٹم کے لیے مارکیٹ کے مدمقابل کے طور پر قدم رکھا۔ اس کمپنی نے ویسٹرن الیکٹرک یونیورسل بیس بنایا۔ یہ ایک ایسا آلہ تھا جس کے ذریعے ابتدائی خاموش سنیما پروجیکٹر کو اسکرین ساؤنڈ فلموں کے لیے ڈھالا جا سکتا تھا۔ ویسٹرن الیکٹرک نے سینما گھروں کے لیے ایک وسیع آڈیو رینج والے ہارن لاؤڈ اسپیکر کو بھی ڈیزائن کیا تھا۔ جس کی صلاحیت اُس وقت موجود لاؤڈ اسکپیکرز سے پچیس فیصد زیادہ تھی۔ اُس زمانے میں یہ ایک اہم پیش رفت تھی کیونکہ اُس وقت زیادہ طاقت والے آڈیو ٹیوب عام طور پر دستیاب نہیں تھے۔

دنیا کا پہلا مووی پروجیکٹر Zoopraxiscop تھا۔ اسے 1879 میں برطانوی فوٹوگرافر “ایڈویئرمیو برج” نے بنایا۔ یہ مووی پروجیکٹر تجرباتی بنیادوں پر بنایا گیا تھا۔ اس پروجیکٹر کی ٹیکنالوجی کو مزید بہتر کرنے کے بعد دو بھائیوں نے تجارتی بنیادوں پر استعمال ہونے والا اُس زمانے کے لحاظ سے ایک قدرے جدید پروجیکٹر بنایا جس کا نام سینماٹو گراف رکھا۔ یہ ایک مکمل سیٹ تھا جو تین آلات پر مشتمل تھا جس میں کیمرہ اور پروجیکٹر کے ساتھ پرنٹر بھی شامل تھا۔ یہ دونوں بھائی Lumiere Brothers کے نام سے تاریخ میں مشہور ہوئے۔ ان کی پہلی فلم کا نام Sortie De l’usine Lumiere De Lyon تھا۔ اس فلم کی شوٹنگ 1894 میں ہوئی تھی۔ یہ مختصر دورانیے کی ایک بلیک اینڈ وائٹ سائلینٹ دستاویزی فلم تھی جس میں ایک فیکٹری کے ملازمین اور مزدوروں کو فیکٹری کے مرکزی دروازے سے باہر نکلتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس کو دنیا کی پہلی حقیقی موشن پکچر کہا جاتا ہے۔ اس فلم کو عوامی طور پر 28 دسمبر سن 1895 میں پیرس کے گرینڈ کیفے کے تہہ خانے میں نمائش پذیر کیا گیا تھا۔

مضمون نگار:انور اقبال

دلچسپ امر یہ ہے کہ لومیری برادرز کا تخلیق کردہ یہ سینماٹوگراف سیٹ تقریباً چھ ماہ بعد گیارہ جون 1896 کو ہندوستان پہنچ گیا اور بمبئی شہر میں یہ سیٹ تیس جون 1896 کو پہنچا۔ اس سینماٹوگراف سیٹ کو ایک فرانسیسی کیمسٹ Marius Sestier لے کر آیا تھا اور یوں اس پروجیکٹر کی مدد سے مورخہ سات جولائی 1896 کو عوام کے ایک گروپ نے بمبئی کے واٹسن ہوٹل میں پہلی دفعہ متحرک فلم دیکھی۔ اس فلم شو کا اشتہار بمبے گزٹ اور ٹائمز آف انڈیا جیسے اخبار میں بھی شائع ہوا تھا۔

1947 میں ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا اور ہندوستان کے ہی بطن سے ایک نئی مملکت وجود میں آئی جس کا نام پاکستان تھا۔ پاکستان کے حصے میں جو علاقے آئے اس میں سب سے بڑا اور متحرک شہر لاہور تھا اور لاہور ہی اس نوزائیدہ مملکت کا پہلا ثقافتی مرکز بنا۔ سینما ہال اور سینما پروجیکٹر کے حوالے سے لاہور کی تاریخ ایک صدی سے بھی زیادہ پُرانی ہے۔

لاہور میں پہلی خاموش فلم اندرونِ ٹکسالی گیٹ پر واقع “عزیز تھیٹر” کے اسٹیج پر سن 1917 میں دکھائی گئی تھی۔ ظاہر ہے یہ لومیری برادرز کے سینماٹو گراف سیٹ کی مدد سے دکھائی گئی ہو گی۔ اس طرح عزیز تھیٹر کو لاہور کا پہلا سینما گھر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہی “عزیز تھیٹر” قیامِ پاکستان سے قبل ہی ایک مکمل سینما میں تبدیل ہو چکا تھا اور پاکستان بننے کے فوراً بعد اس سینما کا نام بدل کر “پاکستان ٹاکیز” رکھ دیا گیا۔ اُس زمانے میں سینماؤں کے ساتھ “ٹاکیز” کا لاحقہ لگانے کا فیشن بھی یوں شروع ہوا تھا کہ اس وقت خاموش فلمیں بنائی جاتی تھیں۔ جب بولتی فلمیں بننے لگیں تو سینما کے نام کے ساتھ “ٹاکیز” کے لفظ کا اضافہ کیا جانے لگا۔ اب یہ سینما بند ہو چکا ہے اور اس کی عمارت نہایت خستہ حالت میں ہے۔ پاکستان ٹاکیز کی ایک تاریخی اہمیت یہ بھی ہے کہ پاکستان کی ملکہ ترنم نورجہاں جب چھ برس کی تھیں اور ابھی پاکستان کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا اور یہ سینما “عزیز تھیٹر” کے نام سے ہی جانا جاتا تھا. انہوں نے اس تھیٹر کے اسٹیج پر ایک لائیو پرفارمنس بھی دی تھی۔
کراچی کا پہلا سینما بھی تقریباً سو سال پہلے ہی سن 1917 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ 1917 میں سینما پروجیکٹر کراچی بھی پہنچ گیا تھا۔ اس سینما کا نام “اسٹار سینما” تھا جس کی جگہ بعد میں “میجسٹک سینما” بنایا گیا۔ نہ اب “اسٹار سینما” رہا اور نہ ہی “میجسٹک سینما”۔ بلکہ اس مقام پر اب “اللہ والا مارکیٹ” کے نام سے ایک بازار قائم ہے۔

فلم سازی اور فلم بینی کی تاریخ ایک صدی سے بھی زیادہ پرانی ہے لیکن آج کل کی پاکستانی فلم انڈسٹری لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ شائقین کا دل جیتنے کی جدوجہد میں لگی ہوئی ہے۔ پاکستانی فلمی صنعت گزشتہ چار دہائیوں سے زوال کا شکار ہے۔ قیام پاکستان کے بعد دوسرے شعبوں کی طرح فلم انڈسٹری کا آغاز بھی انتہائی نامساعد حالات میں ہوا تھا۔ اس بے سروسامانی کے باوجود چند باہمت اور فن سے محبت کرنے والوں نے ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے دن رات ایک کر دیا۔ ویسے تو قیام پاکستان سے پہلے ہی لاہور میں فلم سازی ہو رہی تھی، اُس وقت پنچولی سٹوڈیو‘ پنجاب سٹوڈیو‘ سکرین اینڈ ساونڈ سٹوڈیو’ سٹی سٹوڈیو میکلوڈ روڈ‘ آر ایل شوری کا سٹوڈیو (شاہ نور) تھے۔ جہاں پر فلمیں بن رہی تھیں۔ پھر ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ایسا وقت بھی آیا کہ “پاکستان فلم انڈسٹری” نے “بھارتی فلموں” کو بھی مات دی۔ آج بھی “بالی وڈ” میں ہماری اُس زمانے کی فلموں کے گانے اور کہانیاں کاپی ہورہی ہیں بلکہ اکیڈمیوں میں بھی یہ فلمیں باقاعدگی سے دکھائی جاتی ہیں۔

وہ ایک ایسا دور تھا کہ جب پاکستان میں کوئی بڑی فلم ریلیز ہوتی تھی تو شہروں میں رونق ہو جایا کرتی تھی۔ تانگوں پر لاؤڈ اسپیکرز نصب کر کے فلم کی بھرپور تشہیر کی جاتی، شہر بھر میں بڑے بڑے فلمی پوسٹر اور ہورڈنگز کی بھرمار ہوتی تھی۔ جبکہ سنیما گھروں کے باہر میلے کا سماں ہوتا، جہاں دیگر اشیا کے ساتھ ٹکٹ بلیک میں بکا کرتے تھے اور سنیما کے ان در کی تو دنیا ہی الگ ہوتی تھی۔

تقریباً ساٹھ سال تک بلا شرکت غیرے سینما پروجیکٹر ہی عوام الناس کے لیے واحد “فلم بینی” کا ذریعہ بنا رہا۔ بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں فلم بینی کا ایک دوسرا ذریعہ تفریح بھی میدان میں آگیا جس کا نام “ٹیلی ویژن” تھا۔ دنیا کا پہلا ٹیلی ویژن اسکاٹ لینڈ کے ایک انجینئر John Logie Baird نے تو 1929 میں ایجاد کر لیا تھا لیکن بہت سی تیکنیکی اور اُس وقت کے سیاسی حالات کی وجہ سے عام عوام تک ٹیلی ویژن کی رسائی نہ ہو سکی تھی۔ لیکن 1950 کے آتے آتے دنیا کے بیشتر ممالک میں ٹیلی ویژن براڈ کاسٹنگ اسٹیشن قائم ہو گئے۔ یہ سینما انڈسٹری کے لیے بہت بڑا چیلنج بن گئے۔ “ٹیلی ویژن” فلم بینی کا ایک ایسا ذریعہ تھا جو شائقین اپنے گھر کے آرام دہ ماحول میں اینجوائے کر سکتے تھے۔ سینما انڈسٹری پر ٹیلی ویژن کی ایجاد سے یہ خوف طاری ہو گیا کہ یہ سینما بینی کے شوق کو تہہ و بالا کر دے گا۔ یہ خوف 1948 میں حقیقت بنتا نظر آیا جب 1948 میں سینما ٹکٹوں کی فروخت نوے ملین سے گھٹ کر چالیس ملین ڈالر رہ گئی۔

اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے عالمی فلم انڈسٹری “فلم بینوں” کو سینما کی طرف راغب کرنے کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈنے لگی۔ فلم/سینما پروجیکشن کی بہتری کے لیے ابتدائی چالیس سالوں میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں تو ہوتی رہی تھیں جیسے ابتدائی دنوں میں “خاموش فلمیں” بنتی تھیں، پھر بولتی فلمیں بننے لگیں۔ سیاہ و سفید فلموں کی جگہ رنگین فلموں نے لے لی۔ ابتدائی برسوں میں پردہ سیمیں کا سائز 35MM ہوتا تھا جو دُگنا ہو کر 70MM ہو گیا۔ پروجیکٹر کے ساتھ منسلک صوتی نظام میں بھی حیرت انگیز تبدیلیاں کی گئیں لیکن ٹیلی ویژن کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک بڑے Break Through کی ضرورت تھی۔ فلم پروجیکشن کی دنیا کے انجینئر برسوں سے ایک بڑے پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے جس کو انہوں نے3D کا نام دے رکھا تھا۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کردہ فلم کو دیکھنے کے لیے ایک مخصوص رنگ کی عینک لگانی پڑتی ہے جس کے ذریعے سے شائقین کو فلم دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسکرین پر متحرک اشکال اور Objects مثال کے طور پر ریل، کار، ہوائی جہاز، گھوڑے وغیرہ اسکرین سے نکل کر دیکھنے والوں کے اوپر چڑھ دوڑ رہے ہوں یا دیکھنے والوں کے ارد گرد گھوم پِھر رہے ہوں اور اس طرح فلم بین خود کو فلمی مناظر کا حصہ سمجھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ حقیقت سے قریب تر اور نہایت ہی سنسنی خیز تجربہ ہوتا ہے۔

1890 میں ایک برطانوی جس کا نام William Friese-Greene تھا پہلی تھری-ڈی موشن پکچر کے لیے Patient فائل کیا تھا لیکن بدقسمتی سے یہ سینما میں استعمال کے لیے ناقابلِ عمل ثابت ہوا۔ اس کے بعد مزید کئی کوششیں کی گئیں لیکن تھری-ڈی کے قابلِ عمل سنہری دور کو شروع ہوتے ہوتے بیسویں صدی کی پانچویں دہائی کا آغاز ہو گیا۔ وقتی طور پر تھری-ڈی فلموں نے سینما انڈسٹری کو سہارا تو دے دیا لیکن یہ فلمیں بھی مستقل بنیادوں پر قبولِ عام نہیں بن سکیں۔

1999 کا سال سینما پروجیکٹر انڈسٹری میں انقلابی تبدیلی کا سال ثابت ہوا جب ڈیجیٹل سینما پروجیکٹر عالمی مارکیٹ میں متعارف کرائے گئے۔ یعنی ایک صدی سے بھی زیادہ سینما پروجیکٹر کی ٹیکنالوجی کی بنیاد وہی رہی جو 1896 میں لومیری برادرز نے تشکیل دی تھی۔ لیکن اب فیچر فلموں کو محفوظ کرنے اور پردہ سیمیں پر دکھانے کے لیے کمپیوٹر کا سہارا لیا جانے لگا۔ اس جدید طریقہ کار نے جہاں فوٹو گرافی کی صنعت میں ایک انقلاب برپا کیا وہیں فلمیں تیار کرنے کا بھی پورا طریقہ کار بدل کر رکھ دیا۔ اس طرح فلم بنانے اور فلم دکھانے سے متعلق تمام آلات کمپیوٹر کے سہارے ڈیجیٹلائز ہو گئے۔

ہم جب اپنے بچپن اور جوانی میں سینما ہال میں فلم دیکھنے جاتے تھے تو وہاں عام طور پر دو پروجیکٹر مشینیں نصب ہوتی تھیں۔ جس میں سے ایک وقت میں ایک مشین ہی آپریٹ ہوتی تھی۔ پروجیکٹر میں فلم کی چرخی نصب کر دی جاتی تھی جس کا دورانیہ تقریباً ایک گھنٹے سے لے کر نوے منٹ تک محیط ہوتا تھا۔ اب ان فلموں کے لیے چرخیوں کی ضرورت ہی نہ رہی اور سیٹلائٹ کی مدد سے براہ راست فیچر فلم کو تقسیم کاروں کی جانب سے سینما کے پروجیکٹر کی میموری میں منتقل کر کے محفوظ کر لیا جاتا ہے اور پھر اس کو پردہِ سیمیں پر نمائش کے لیے پیش کر دیا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سینما انڈسٹری اور پروجیکشن کی سو سال سے زائد تاریخ کے تمام اتار چڑھاؤ کے باوجود اس وقت دنیا کی سینما انڈسٹری کا حجم تقریباً 45 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے جبکہ دنیا بھر میں سینما گھروں کی تعداد اندازاً دو لاکھ ہے جس میں سے تقریباً چالیس ہزار سینما گھر صرف امریکہ میں ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply