• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • وطن کی فکر کر نادان،مصیبت آنے والی ہے/پروفیسر رفعت مظہر

وطن کی فکر کر نادان،مصیبت آنے والی ہے/پروفیسر رفعت مظہر

علامہ اقبالؒ نے فرمایا

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

علامہ اقبالؒ کے نزدیک اقوام کا عروج افراد کے اتحاد میں مضمر ہے۔ جس طرح قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے اُسی طرح افراد کا اتحاد قوم کو جمعیت میں ڈھال دیتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب متحدہ ہندوستان کے گوشے گوشے سے ایک ہی آواز اُٹھی کہ لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان، تو دنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت نے جنم لیا جس کا نام پاکستان ہے۔ ہم جس میں بَس رہے ہیں وہ اسلامیانِ ہندوستان کے اتحاد کی علامت واعجاز ہے۔

سوال مگر یہ ہے کہ کیا وہ اتحاد برقرار رہا؟ کیا قوم جمعیت میں ڈھل سکی؟ اور کیا وہی جذبہئ حب الوطنی برقرار رہا جس کے بَل پر ہم نے یہ مملکتِ خُداداد حاصل کی؟ لاریب! جواب نفی میں کہ فرقوں، گروہوں، لسانی جھگڑوں اور ذات برادریوں میں بٹے ہوئے افراد کبھی قوم میں نہیں ڈھل سکے۔ ہر کسی کی “اپنی اپنی ڈفلی، اپنا اپنا راگ”۔ تاریخِ وطن گواہ کہ یہاں ہمیشہ اشرافیہ کے مخصوص گروہوں کی حکمرانی رہی اور مجبورومقہور آزاد ہو کر بھی غلام ا بنِ غلام ہی رہے۔ آئیے! نظمِ ریاستِ پاکستان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور میڈیا ریاست کے چار بنیادی ستون ہیں۔ اگر اِن میں سے کوئی ایک ستون بھی مضمحل ہو جائے تو ریاست کا مجموعی نظم لرزہ بَر اندام ہو جاتا ہے۔ اِس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ ریاست کے ستون اپنی اپنی حدود سے مکمل طور پرآگاہ ہوں۔ ہمارے ہاں معاملہ مگر یکسر مختلف۔ مقننہ یعنی پارلیمنٹ وہ قانون ساز ادارہ ہے جہاں عوامی اُمنگوں کے عین مطابق قوانین تشکیل پاتے ہیں۔ اِسی لیے پارلیمنٹ کو اداروں کی ماں کا درجہ حاصل ہے۔

ہمارے ہاں مگر ایسے قوانین سامنے آتے ہیں جو اقتدار کو دوام بخشیں اور اپوزیشن کو کونے میں دھکیلیں۔ دوتہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے تحریکِ انصاف کی حکومت آئین میں ترمیم تو کر نہیں سکتی تھی اِس لیے اُس نے لگ بھگ 69 صدارتی آرڈیننس جاری کیے جن میں سے کسی ایک میں بھی اپوزیشن کی مرضی ومنشا شامل نہیں تھی۔ ویسے بھی ہمارے آئین سازوں کا یہ حال ہے کہ اُن میں سے شائد ہی کسی نے آئین کی کتاب کھول کر بھی دیکھی ہو۔ اُن کا کام تو صرف ہاتھ کھڑے کرنا ہی ٹھہرا۔ ایسے میں بھلا کہاں ملک وقوم کا بھلا ہوگا۔

آئین کی بے بسی وبے کسی کا یہ عالم کہ جو زور آور بھی آیااُس نے آئین کو سو صفحے کی فضول سی کتاب کہہ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ آمر ایوب خاں سے لے کر آمر پرویز مشرف تک ہر ایک آمر نے آئین کو ایک طرف رکھ کر مَن مرضی کے فیصلے کیے۔ بدقسمتی یہ کہ اس معاملے میں عدلیہ بھی آمروں کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی رہی۔ آئین سے سنگین غداری کے آرٹیکل 6 کو بھلا عدلیہ سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ اگر آئینی حکومت کا تختہ اُلٹنا بھی سنگین غداری نہیں تو پھر یہ کس چڑیا کا نام ہے؟ صرف ایک آمر پرویز مشرف پر سنگین غداری کا مقدمہ چلا اور جسٹس سیٹھ وقار کی سربراہی میں قائم بنچ نے اُسے سزائے موت بھی سنائی لیکن خود عدلیہ نے ہی اُس بنچ کے خلاف فیصلہ دے دیا۔

جسٹس منیر نے 7 عشرے پہلے جو نظریئہ ضرورت گھڑا وہ آج بھی برقرار۔ موجودہ نظریہئ ضرورت صرف ایک شخص کا طواف کرتا نظر آتا ہے جس کا نام عمران خاں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی گود کے پالے عمران خاں کی محبت میں آج بھی کمی نظر نہیں آتی۔ پہلے اسٹیبلشمنٹ کی بندوق اُس کی محافظ تھی اور اب عدلیہ کا ہتھوڑا اُس کی راہوں کے کانٹے چُن کر اُسے ایک دفعہ پھر مسندِ اقتدار پر بٹھانا چاہتا ہے۔

حیرت ہے کہ عدالتوں میں لاکھوں مجبورومقہور عوام دھکے کھاتے پھرتے ہیں مگر کوئی شنوائی نہیں لیکن دوسری طرف اِدھر لاڈلے کے خلاف کوئی مقدمہ بنتا ہے تواُدھر اعلیٰ ترین عدالت تک سبھی مستعد ہو جاتے ہیں۔ اِدھر لاڈلے کی حفاظتی ضمانت کی استدعا پہنچتی ہے تو اُدھر اُسی روز عدالت بیٹھتی اور حفاظتی ضمانت منظور کرتی نظر آتی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ لاڈلا گھر بیٹھا ہوتا ہے اور عدالتیں دھڑا دھڑ اُس کی حفاظتی اور راہداری ضمانتیں منظور کر رہی ہوتی ہیں۔ تاریخِ پاکستان میں عدلیہ کا ایسا مشفقانہ سلوک دیکھا نہ سُنا۔

اگر بات صرف حفاظتی ضمانتوں تک ہی محدود رہتی تو پھر بھی کوئی جواز ڈھونڈا جا سکتا تھا لیکن یہاں تو لاڈلے کی خاطر آئین کو RE-WRITE تک کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ تازہ ترین مثال صدارتی ریفرنس کی ہے جس میں سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل A 63- کی تشریح طلب کی گئی تھی۔ اِس ریفرنس کی سماعت 5 رُکنی بنچ نے کی جس میں چیف جسٹس آف پاکستان عمرعطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خاں مندوخیل اور جسٹس مظہرعالم میاں خیل شامل تھے۔ A 63- ایسا آرٹیکل ہے جس میں مزید تشریح کی سرے سے گنجائش ہی نہیں۔ یوں تو انتہائی محترم چیف جسٹس صاحب متعدد بار کہہ چکے کہ عدلیہ آئین کی محافظ ہے اور وہ آئین کے دائرے سے باہر نہیں نکلتی لیکن معزز چیف جسٹس سمیت 3 ججز کی اکثریت سے A 63- پر جو فیصلہ دیا گیا کیا وہ آئین کے عین مطابق تھا؟

کیا اِس آرٹیکل میں یہ درج نہیں کہ کسی بھی منحرف رُکنِ اسمبلی کا ووٹ تو شمار ہوگا لیکن اُس کی رُکنیت ختم ہو جائے گی جبکہ اکثریتی فیصلے میں لکھ دیا گیا کہ نہ صرف منحرف رُکنِ اسمبلی کی رُکنیت ختم ہوگی بلکہ اُس کا ووٹ بھی شمار نہیں ہوگا۔ بنچ کے ارکان جسٹس مظہر خاں میاں خیل اور جسٹس جمال خاں مندوخیل نے بنچ کے 3 ارکان سے اختلاف کرتے ہوئے اقلیتی فیصلے میں لکھا کہ آئین کا آرٹیکل A 63- اپنے آپ میں ایک مکمل کوڈ ہے جو پارلیمان کے کسی رُکن کے انحراف اور اُس کے بعد کے اقدام کے بارے میں جامع طریقہئ کار بیان کرتا ہے۔

A 63- کی مزید تشریح آئین کو نئے سرے سے لکھنے کے مترادف ہوگی۔ آئین شناسوں کے نزدیک A 63- کی تشریح دراصل پنجاب میں نوازلیگ کے وزیرِاعلیٰ حمزہ شہباز کی حکومت کے خاتمے کے لیے کی گئی کیونکہ صوبائی اسمبلی کے تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے 25 منحرف ارکان نے حمزہ شہباز کو ووٹ دیا تھا۔ اُن منحرف ارکان کے ووٹ منہا کرنے کے بعد حمزہ شہباز کی وزارتِ اعلیٰ کا خاتمہ ہوا۔ 22 جون 2022ء کو اِس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرِثانی کی درخواست دائر کی گئی۔ وہ درخواست فائلوں میں گُم آج بھی کارروائی کی منتظر ہے۔

ریاست کا چوتھا ستون میڈیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صحافت سیادت ہے۔ اگر اُس میں ذاتی مفادات کی کثافت نہ ہو۔ ہمارے ہاں مگر میڈیا کی غالب اکثریت ذاتی مفادات میں اُلجھی ہوئی۔ اُسے ملک کی پروا نہ قوم کی، بس کھنکتے سکّوں کی جھنکارجدھر سے آئے اُدھر ہی مُنہ اُٹھا کر چل پڑے۔ ہمارا میڈیا بھی سیاسی گروہوں میں بٹا ہوا اور ہر کوئی اپنے اپنے ممدوح کی مدح سرائی میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتا ہوا۔ بے شمار نیوز چینلز اور کھمبیوں کی طرح اُگے ہوئے اینکر جن سے نیوز چینلز کے سیٹھوں کا ایک ہی مطالبہ، ریٹنگ بَس ریٹنگ۔

سیٹھوں کا مطمع نظر ملک نہ قوم بلکہ کاروبارجو ریٹنگ کی بدولت چمک اُٹھتا ہے۔ کچھ نیوز چینلز تو ایسے جو جھوٹ کی آڑھت سجائے ہوئے۔ اِسی لیے عوام تک درست خبر کا حصول تقریباََ ناممکن۔ نیوز چینلز کو تو رکھیں ایک طرف، جو گند سوشل میڈیا نے پھیلایا ہے اُس کا تدارک ناممکن کہ جس کا جی چاہتا ہے ٹویٹر پر بیٹھ کر بے پَر کی اُڑا دیتا ہے۔ ہم مایوس تو نہیں کہ مایوسی کفر ہے لیکن بہتری کی کوئی راہ دکھائی دیتی ہے نہ سجھائی۔ ایسے میں علامہ اقبالؒ کا یہ شعر بار بار زبان پر آجاتا ہے کہ

وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply