کیا ادیب سماج سے لاتعلق ہوتا ہے؟/آغرؔندیم سحر

اس وقت جب میں کالم لکھ رہا ہوں،ملک بھر میں بجلی کے خوفناک بلوں اور مہنگائی کے خلاف احتجاج جاری ہے،لوگ خودکشی کر رہے ہیں،بچوں کو فروخت کر رہے ہیں،خواتین اپنے زیورات بیچ رہی ہیں تاکہ بجلی کا بل جمع کرواسکیں،یہ خوفناک صورت حال خود بنی یا بنائی گئی،یہ عقدہ کھلنا چاہیے۔

 

 

 

سرکار بہادر کی عیاشیوں اور شہ خرچیوں کی قیمت مفلوک الحال شخص کیوں دے؟لاکھوں کی تنخواہیں ،مفت پیٹرول اور دو سے تین ہزار یونٹس تک فری بجلی استعمال کرنے والوں کے ٹیکس ایک عام آدمی کیوں دے؟آج عوام سڑکوں پر ہیں،احتجاج کر رہے ہیں،انصاف مانگ رہے ہیں،احتساب کرنا چاہتے ہیں،سوال کرنا چاہتے ہیں مگر کس کے در پہ جائیں،کون سی گھنٹی بجائیں کہ انصاف مل سکے،جن سے انصاف مانگنا ہے وہ مفت بجلی والے ہیں یا پھر دوہری شہریت والے،ایسی صورت میں میرے ملک کا غریب باسی کہاں جائے؟۔اس بے چارے کے پاس تو دوہری شہریت بھی نہیں کہ یورپ،دبئی،امریکہ یا اسٹریلیا کے جزیروں میں شفٹ ہو جائے۔یہ غریب جن کے سہارے بیٹھا ہے،وہ تو اس ملک میں حکومت کرنے یا نوکری کرنے آتے ہیں،ان کا اس ملک کے عوام اور حالات سے کیا تعلق؟۔

آپ ذرا سوچیں! ایک دن پی ڈی ایم حکومت ختم ہوتی ہے اور دوسرے ہی دن پوری کابینہ لندن شفٹ ہو جاتی ہے۔کیا پاکستان کی تاریخ میں اس درجہ ظلم دیکھا یا سنا گیا جیسا آج ہے؟جس طرح غیر اعلانیہ مارشل لاء نے ملک کو ‘‘کھڈے لائن’’لگا دیا،ایسے ہی بجلی کے بلوں اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔حیرانی تو اس بات کہ ہے کہ ملک جس تکلیف دہ صورت حال سے گزر رہا ہے’ایسے میں اس ملک کا قلم کار اور ادیب خاموش کیوں ہے؟کون سی مصلحت ہے جس کی وجہ سے آج کا ادیب،سماجی اور سیاسی صورت حال پہ یا تو لکھنا نہیں چاہتا یا پھر اس کو خاموش کروا دیا گیا ہے، یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ سرکاری اعزازات و عہدے ہتھیانے والے ادیب سرکار بہادر کے خلاف کیوں لکھیں گے؟یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ادیب سیاست و سماج سے لاتعلق کیوں ہے؟کیا کوئی بھی ادیب یا قلم کار اپنے سماج اور سیاسی اتار چڑھاؤ سے لاتعلق ہو کر اچھا یا بڑا ادب تخلیق کر سکتا ہے؟

ہمارا بڑا ادب اور ادیب ،ہمیشہ سماجی شکست و ریخت کا نمائندہ رہا ،معاشرتی تنزل اور سماجی توڑ پھوڑ کی کہانیوں سے ہمارا شعری و نثری ادب بھرا پڑا ہے لیکن یہ سب پہلے ہوتا تھا،اب نہیں۔آج کا ادیب و قلم کار،میڈیائی دانشوروں کی طرح پسند و ناپسند کی بنیاد پر فیصلہ کیوں کر رہا ہے؟جب ادیب سے کہا جاتا ہے کہ تم اس سماجی صورت حال پہ لکھتے کیوں نہیں یا تم ان سیاست دانو ں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیوں نہیں کرتے جنھوں نے پاکستان کو اس ناگفتہ بہ حالت تک پہنچایا توہمارا ادیب مسکرا کر جواب دیتا ہے کہ بھائی ایک قلم کار یا ادیب کا سیاست سے کیا تعلق؟اگر ایک دانش ور،شاعر یا ادیب اس سیاست سے لاتعلق ہو جائے گا تو پھر سیاست اور سیاسی حالات پر کون لکھے گا؟کیا صحافی ،جس نے ہمیشہ ہوا کا رخ دیکھ کر سچ اور جھوٹ کا تعین کیا؟کیا اشرافیہ کی لوٹ مار اور سرکار بہادر کی شہ خرچیوں اور عیاشیوں پر صرف عوام ہی احتجاج کریں گے؟۔

یہ بات درست ہے کہ ادیب کا سیاسی جماعتوں یا سیاست دانوں سے تعلق نہیں ہونا چاہیے مگر ادیب کا سیاسی نظریہ تو بہرحال ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔کیا ایک ادیب کی ذمہ داری نہیں کہ وہ سیاست اور سماج کے بارے اپنا ایک نقطہ نظر رکھتا ہو اور وہ نقطہ نظر غیر جانبدار بھی ہو اور عوام کے حق میں بھی۔آج کا ادیب یا تو سیاست دانوں کی قصیدہ گوئی کر رہا ہے یاپھر اسے محبوب کی زلفوں اور لب و رخسار سے فرصت ہی نہیں۔ہمارا قلم کاریہ جانتا ہے کہ ادب،سماج اور زندگی کا انتہائی گہرا تعلق ہے،اس تعلق سے ایک کڑی بھی الگ ہو جائے تو نہ بڑا ادب تخلیق ہو سکتا ہے اور نہ ہی سماج اور زندگی کا رشتہ برقرار رہ سکتاہے۔اس کے باوجود میرے ملک کا قلم کار سیاسی و ادبی مصلحت کے تحت خاموش ہے،کہیں سرکاری کانفرنسیں اور مشاعرے آڑے آ رہے ہیں تو کہیں سرکاری اعزازات و عہدے،ہر دور ِ حکومت میں سرکاری اداروں کی کانفرنسوں یا مشاعروں میں زیادہ تر وہی ادیب بلائے جاتے رہے جو سرکار بہادر کے پسندیدہ تھے یا پھر جنھوں نے قصیدہ گوئی میں جانبدار صحافیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج مہنگائی،لاقانونیت،غیر اعلانیہ مارشل لاء اور سیاسی شکست و ریخت نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے،ایسے میں اردو کے ادیب اور قلم کار کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر طرح کی مصلحت اور خوف سے باہر نکل کر صرف اور صرف سچ کی آواز بنے،ان کی بات کرے جن کی بات کرنے والا کوئی نہیں،ان کے لیے صدائے احتجاج بلند کرے،جو خودکشی کرنے اوراپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ادیب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے قاری کو بتائیں کہ کون سا راستہ حق کا راستہ ہے ،آج کے ادیب کو سیاست دان کا احتساب کرنا چاہیے،اس سے پوچھنا چاہیے کہ اس گنجلک کہانی کا سرا کہاں سے ملے گا؟۔ اگر آج کا ادیب یا قلم کار سیاسی مصلحتوں،ذاتی مفادات یا پھر خوف کی وجہ سے خاموش ہو جائے گا تو بات کون کرے گا،سوال کون کرے گا،احتساب کون کرے گا ۔جس حال میں جینا مشکل ہو،اس حال میں جینا لازم ہے،جس وقت بولنا مشکل ہو،اس وقت ہی بولنا کارآمد ہوتا ہے۔آج کا ادیب اس لیے بھی خوف زدہ ہے کہ ایک طرف سرکاری نوکری اور دوسری طرف سرکار سے دشمنی،کس کا انتخاب کیا جائے۔پھر غیر قانونی گرفتاریوں اور مقدمات نے خوف کی ایسی فضا قائم کر دی ہے کہ مظلوم سوال کرتے ہوئے بھی ڈرتا ہے کہ کہیں غائب نہ کر دیا جاؤں یاپھر کسی جھوٹے مقدمے میں اندر نہ ہو جاؤں۔موجودہ دردناک صورت حال میں ایک ادیب کو غیرجانبدار ہو کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،اسے اپنے قاری کو بتانا ہوگا کہ وہ ادارے ،لوگ اور جماعتیں ہی اہم ہیں جو ملک کے لیے سوچتی ہیں،پاکستان کے علاوہ کچھ بھی اہم نہیں۔جو پاکستان کا نہیں ،وہ ہمارا بھی نہیں۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply