نواز شریف کیا سوچ رہے ہیں: انعام رانا

عاصم بٹ یار ہے، بچپن کا پیار ہے۔ ایف سی کالج لاہور کے نئے نئے دو طلبا کی دوستی پاکستان لا کالج اور پھر گلاسگو یونیورسٹی تک اکٹھے تعلیم پانے کی منزل کو پہنچی اور اب پچیس برس بعد سفید کنپٹیوں کے ساتھ بھی نوجوان ہے۔ یار کی اک تعریف یہ بھی ہے کہ اسے آپ کی ہاں کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ  کی پروا نہیں ہوتی۔ سو جب عاصم بٹ نے حالیہ دورہ لندن میں کہا کہ کل سویر ے گیارہ بجے میاں نواز شریف صاحب سے ملنے جانا ہے تو میری ہاں کی اسے ضرورت نہ  تھی اور نہ  کی میری جرات نہیں  تھی۔

مقصود بٹ صاحب، عاصم کے والد معروف صحافی ہیں اور کئی دہائیوں سے روزنامہ جنگ سے منسلک۔ وہ دور کہ جب سائے نے بھی شریف فیملی کا ساتھ چھوڑ دیا تھا، مقصود بٹ ہر طرح انکے ساتھ کھڑے رہے، بنا کسی صلے یا ستائش کی آرزو کے۔ شریف فیملی اقتدار میں واپس آئی اور پھر اقتدار سے نکل گئی مگر مقصود صاحب کی ان سے محبت ہر حال میں یکساں رہی اور یہی محبت جینیاتی طور پہ عاصم بٹ میں منتقل ہوئی۔ اب عاصم بٹ کا میاں صاحب سے ملنا تو سمجھ آتا ہے مگر مجھ جیسے برطانوی وکیل کا جس نے پچھلے الیکشن میں ن لیگ کی مخالفت کی ہو، ایسی ملاقات کو جانا سمجھ نہیں آتا مگر جیسا عرض کی کہ یار کو آپ کی نہ  کی پرواہ  ہی کب ہے۔

اس وقت ملک میں سیاسی تقسیم اور مخالفت ایسا رنگ لے چکی ہے کہ کسی ایک لیڈر کے متعلق لکھے پر دوسری جانب کے لوگ آسانی سے لفافے ٹوکری کی تہمت لگا دیتے ہیں۔ ہمارے دوست معروف سائیکالوجسٹ، ڈاکٹر اختر علی سید “ردِ عمل کی نفیسات” پہ کئی کالم لکھ چکے ہیں یہ بتانے کو کیسے ہم اپنے مقرر کردہ دائرے سے باہر ہر شے کو قابل ِملامت و تذلیل سمجھتے ہیں۔ سو یہ تحریر کئی دن کی سوچ بچار کے بعد فقط ملاقات کے دوران اپنے تاثرات پہ ہے۔ قارئین کو یاد رہے کہ نہ تو میں ن لیگ کا ووٹر سپورٹر ہوں اور نہ  ہی میاں صاحب سے بطور آن لائن اخبار مکالمہ کے چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے ملا۔ انکے اندازِ  سیاست سے اختلاف اپنی جگہ مگر میں تین بار کے وزیراعظم اور پاکستانی تاریخ کے مقبول ترین رہنماؤں میں سے ایک کو بطور فرد دیکھنا جانچنا چاہتا تھا۔ ان کو فقط میرے وکیل ہونے کا معلوم تھا اور وہ اپنی پارٹی کے ایک ورکر سے میری موجودگی میں مل رہے تھے۔ مکالمہ کا تعارف نہ  کروانے کی وجہ بھی یہی تھی کہ کسی تصنع سے پاک تاثر تک پہنچ پاؤں۔

میں اگرچہ برطانیہ میں موجود لاکھوں عام سے پاکستانیوں جیسا ایک فرد ہوں۔ لیکن اپنے پیشے کی وجہ سے مجھے کئی اہم سیاسی و غیر سیاسی شخصیات سے ملنے کے مواقع ملتے ہیں۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارا ذرا سا مرتبہ، دولت اور عروج ہم میں ایک نخوت یا کم سے کم اپنی اہمیت کا بے جا احساس پیدا کر دیتا ہے جسکی وجہ سے ہم دوسرے کو خود سے کم سمجھ کر برتاؤ کرتے ہیں۔ یہاں تو صاحبِ  سوشل میڈیا سلیبرٹی اپنے فالورز کو برابر نہیں سمجھتا۔ مجھے یہ ماننے میں عار نہیں کہ میاں صاحب اپنے مرتبے کے باوجود ایک انتہائی نفیس اور پاکستانی کی مہمان نوازی کی روایت کے امین ہیں۔ ان کو عزت افزائی آتی ہے۔ ہمارے لائے پھول انھوں نے فوراً ہی گلدان میں سجوائے اور بِنا ہمارے کہے اپنے سیکرٹری راشد نصراللہ صاحب کو تصاویر لینے کو کہا۔ ملاقات کے شروع میں تو میاں صاحب نے مجھے یوں اگنور کیا کہ مجھے لگا شاید مجھے فیس بک پہ فالو کرتے ہیں یا باہر موجود عدیل ہاشمی نے شکایت لگائی ہے۔ لیکن اندازہ ہوا کہ یہ انکا انداز ہے۔ وہ ایک وقت میں ایک شریک ِ محفل کو اپنی مکمل توجہ دیتے ہیں۔ ملاقات کے شروع میں انھوں نے مقصود بٹ صاحب کے متعلق عاصم سے گفتگو کی اور حیرانی کی بات کہ انھیں یہ بھی یاد تھا کہ عاصم کے دادا نے ہجرت کہاں سے کی تھی۔ ان کی صحت کے متعلق پوچھا اور عاصم سے کہا ان کو کہیں میاں صاحب نے کہا ہے واک لازمی کیا کریں۔ اتنے میں کشمیری چائے آئی اور میاں صاحب بتانے لگے کہ ہمارے گھر میں ہمیشہ کشمیری چائے پی جاتی تھی، میرے ابا جی اور امی جی آخر تک کشمیری چائے پیتے تھے اور اب میں بھی پیتا ہوں۔ یہ گفتگو کرتے ہوئے انکے چہرے پہ ویسا ہی رنگ اور لہجے میں جوش تھا جیسا ایک بچے کا اپنے والدین کے متعلق بات کرتے ہوتا ہے۔ دوسرا میاں صاحب سامع بہت اچھا ہیں۔ قریب پچیس منٹ کی ملاقات میں ایک تو وہ اپنی تعریف کی کسی بھی بات پہ موضوع بدل دیتے تھے اور کوئی سوال کر کے ہم سے موقف پوچھتے تھے۔ تین بار کے وزیراعظم کو یوں سامع بن کر عام ملاقاتیوں کو اہمیت دینا اچھا لگا۔

موجودہ سیاست میں سیاسی اختلاف کو ذاتی بنا لینے کی روایت کو بجا طور پہ عمران خان صاحب سے منسوب کیا جاتا ہے۔ مگر اسکا عروج خود بھٹو صاحب جیسے عبقری سیاست دان کا دور تھا جب مخالف کے متعلق بدزبانی خود ہائی کمان کا وطیرہ تھی۔ میرا خیال تھا کہ اس انتہائی نجی ملاقات میں شاید میاں صاحب بھی ایسے رویے  کا مظاہرہ کریں۔ لیکن کئی بار حکومت اور عمران خان صاحب کا ذکر آنے کے باوجود میاں صاحب  کی زبان سے ایسا کوئی کلمہ نہیں نکلا جو قابل ِ افسوس ہوتا۔ مجھے توقع ہے کہ اگر کبھی عمران خان صاحب سے ملاقات ہوئی تو بھی مجھے یہ ہی خوشگوار احساس ہو۔

اس وقت ایک تاثر شدید مضبوط کیا جا رہا ہے کہ جیسے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف میں کوئی اختلاف موجود ہے۔ ملاقات میں مجھے ایسا کوئی تاثر نہ  ملا۔ بلکہ میاں صاحب حکومتی کارکردگی اور حالیہ مری سانحہ پہ بات کرتے ہوئے بار بار میاں شہباز شریف کی محنت اور ایڈمنسٹریشن کا حوالہ دیتے ہوئے  موازنہ کرتے رہے۔ پارٹی میں اگر “مزاحمت یا مفاہمت” کا کوئی اختلاف ہے بھی تو وہ فکری حد تک تو ہو گا مگر دونوں بھائیوں کے درمیان ہرگز نظر نہیں آتا۔

گفتگو کئی نکات پہ رہی مگر میرا گہرا ترین تاثر ہے کہ پاکستانی عوام میاں صاحب کی توقعات پہ پورا نہیں اُتر سکی۔ وہ بات بہت محتاط انداز میں کرتے ہیں، بھلے آپ واپسی کا پوچھیے، انکی صحت کا یا کوئی سیاسی سوال کریں، جواب مختصر اور نپا تلا ہوتا ہے جس سے آپ بہت زیادہ اندازے قائم نہیں کر سکتے۔ البتہ یکدم انھوں نے پاکستان میں تمام تر بُرے حالات یا حکومت کی بُری کارکردگی کے باوجود عوام کے بڑا ری ایکشن نہ  دینے پہ کھل کر گفتگو کی۔ انھوں نے کہا اس سب کے باوجود پھر عوام باہر کیوں نہیں آتی؟ انھوں نے شیخ مجیب الرحمان کی مثال دیتے ہوے کہا کہ وہ جیل میں تھے اور بنگالی عوام نے خود جدوجہد کی۔ میں نے عرض کی کہ اسکے بعد خمینی کی مثال بھی موجود ہے۔ لیکن ہمارے خطے، جسے پاکستان کہتے ہیں، یہاں تاریخی طور پہ نجات دہندہ کا تصور زیادہ مضبوط رہا ہے جو آئے اور دکھوں سے نجات دلائے۔ جب وہ آ جائے تو عوام زندہ باد کا نعرہ لگا کر اسکے گیت گاتی ہے مگر خود کم ہی کچھ کرتی ہے۔ میاں صاحب کو یہ بات کچھ زیادہ پسند نہیں آئی۔ فرمایا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ تاریخی طور پہ ایسا رہا۔ کیا ہم کبھی بھی نہیں بدلیں گے؟ عوام کو خود بھی تو کچھ کرنا ہو گا۔ پھر انھوں نے محترمہ مریم نواز کا ذکر کیا کہ وہ بھرپور پولیٹیکل ایکٹیوٹی کرتی ہیں سو عوام کے پاس لیڈرشپ بھی موجود ہے مگر عوام کو بھی بھرپور ردعمل دینا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس سے مجھے یہ تاثر ملا کہ میاں صاحب اپنی اقتدار سے بے دخلی اور موجودہ سیاسی و معاشی حالات کی وجہ سے شاید یہ توقع کر رہے تھے کہ عوامی سطح پہ کوئی مضبوط تحریک اٹھے گی، ردِعمل پیدا ہو گا اور شاید اسی لہر پہ سوار وہ پاکستان واپسی بھی کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس وقت ہمیں ایسا مضبوط عوامی ردِعمل نظر نہیں آتا۔ میاں صاحب کے مداحین اور پارٹی کو سمجھنا چاہیے کہ میاں صاحب اس وقت انقلابی موڈ میں ہیں اور اپنے چاہنے والوں سے بھی اسی رویے کے لیے  پُرامید ہیں۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”نواز شریف کیا سوچ رہے ہیں: انعام رانا

  1. عمدہ۔۔۔ آپ نے انتہائی دیانتداری سے اپنے تاثرات کو قلم بند کیا۔ اور میرا خیال ہے میاں صاحب کی عوام سے ناراضی قابل فہم بھی ہے۔

Leave a Reply