مودی گجرات کے وزیراعلی تھے، اس دوران وہاں مسلم کش فسادات ہوئے۔ ان فسادات میں دو ہزار بے گناہ مسلمان مارے گئے۔ اس قتل عام کا براہ راست ذمہ دار مودی کو ٹھہرایا گیا۔ مغربی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پر بہت آواز اٹھائی اور امریکہ نے مودی کو دیا گیا ویزہ منسوخ کرکے اس کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا دی۔ یہ 2005ء کا قصہ ہے، جب انسانی حقوق کی اتنی اہمیت تھی اور ہم سمجھ رہے تھے کہ مسلمانوں کے قتل عام پر ردعمل ہے۔ ابھی وہی مودی ہیں اور امریکہ کے دورہ پر ہیں، ان کا استقبال ایک آزادی پسند جمہوری رہنماء کے طور پر کیا جا رہا ہے۔ وہ امریکی کانگرس میں پہنچتے ہیں تو پوری کانگرس کھڑے ہو کر ان کا استقبال کر رہی ہے۔ یہ نہیں کہ مودی تبدیل ہوگئے بلکہ اب تو کشمیر سے لے کر پارلیمنٹ میں قانون سازی تک ان کی مسلم دشمنی کھل کر سامنے آچکی ہے، انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کی پامالیاں ہو رہی ہیں۔
اب معاملہ کچھ اور ہوگیا ہے، امریکہ خطے میں چین کو روکنا اور اس کے لیے انڈیا کا استعمال کرنا چاہتا ہے۔ امریکی صدر سے ملاقات کرتے مودی کو دیکھ کر مجھے وہ افغان مجاہدین یاد آگئے، جن کا وائٹ ہاوس میں ہیرو کے طور پر استقبال ہو رہا تھا اور امریکی میڈیا انہیں آزادی کے پروانے بنا کر پیش کر رہا تھا۔ پھر وقت گزرا اور یہی پروانے ہی دنیا کے سب سے بڑے دہشتگرد قرار پائے اور پھر اقوام متحدہ ہاتھ باندھ کر ان کا قلع قمع کرنے کے لیے کھڑی نظر آئی۔ بحرالکاہل اور بحر ہند میں امریکی پالیسی تبدیل ہوئی ہے۔ اب امریکہ ہر صورت میں اس خطے سے میں چینی اثرات کو کم کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ مختلف اقدامات کر رہا ہے۔ جاپان آسٹریلیا اور انڈیا کا گروپ بنایا، جو اسی مقصد کے لیے کام کرے گا، جسے “کواڈ” اور انڈو پیسیفک کا نام دیا گیا۔
امریکہ چین اور انڈیا کے درمیان موجود سرحدی تنازعات کو ایک موقع کے طور پر دیکھتا ہے، ویسے بھی چین نے لائین آف ایکچول کنٹرول پر انڈیا کی ٹھیک ٹھاک دھلائی کی ہے اور انڈیا کو کافی پیچھے دھکیل دیا ہے۔ انڈیا کی موجودہ قوم پرست حکومت بھی چین کا طاقت سے مقابلہ کرنا چاہتی ہے۔ انڈیا امریکی مجبوری کو سمجھتا ہے اور وہ بھی اسے ایک موقع کے طور پر دیکھ رہا ہے کہ کیسے امریکہ سے اپنے مفادات کو حاصل کرنا ہے۔ اب یہ مفادات کے حصول کا مقابلہ ہے، جس میں ہر کوئی دوسرے کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی دورہ میں ڈرون اور الیکٹرک انجنز کی انڈیا میں تیاری کا معاہدہ ہوا، اسے انڈیا کے لیے گیم چینجر سمجھا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے اور دفاعی معاہدات بھی ہوئے ہیں، جس سے انڈیا کو بہت سے جدید ہتھیار مسیر ہوں گے۔
ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا ہے، جس میں سرحد پار دہشت گردی کا الزام لگا کر پاکستان کو ضرور لتاڑا گیا ہے، ہاں مگر چین و روس کا اس اعلامیے میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غریب کی کہیں بھی کوئی عزت نہیں ہے۔ اسے خواہ مخواہ میں بدنام کیا جا سکتا ہے۔ چین اور روس کے خلاف یہ محاذ بنانے کی کوشش ہے اور خوف اتنا ہے کہ روس اور چین کا نام نہیں لیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف ایک لائن انڈیا کی سیاست میں مودی کی سیاست کے لیے اہم ہوسکتی ہے، مگر امریکہ کی طرف سے ایسے اعلامیے پر دستخط انڈیا کو خوش کرنے کے لیے اپنے چھوٹے پن کا اظہار ہے، ورنہ وسائل کی شدید کمی کے باوجود پاکستان نے دہشتگردی کو روکنے کے لیے دلیرانہ اقدامات کیے ہیں۔
کیا امریکہ کی انڈیا کو دی جانے والی تجارتی رشوت کے نتیجے میں انڈیا امریکی شرائط پر چین کے خلاف اقدامات کرے گا، ہندوستانی صحافی برکھا دت واشنگٹن پوسٹ کے لیے لکھے گئے اپنے مضمون میں کہتی ہیں کہ “معذرت، امریکا۔ بھارت کبھی بھی آپ کا اتحادی نہیں بنے گا۔” وہ دلیل دیتی ہیں کہ “ایک کثیر القطبی دنیا میں بھارت خود ایک قوت نظر آنا چاہے گا، نہ کہ ایک خصوصی شراکت دار۔” ان کی یہ بات بالکل درست ہے اور یہاں بھی امریکہ کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ انڈیا اپنی طاقت کا اظہار کرے گا اور اس صورت میں تو ضرور کرے گا، جب اسے یہ معلوم ہوگا کہ امریکہ کے پاس اس کی حمایت کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔ امریکہ یک طرفہ ٹریفک نہیں چلاتا، اس لیے انڈیا کے لیے دو ترو تازہ خبریں بھی ہیں، جو وہاں انسانی حقوق کا نعرہ لگانے والوں کے لیے خوش کن بھی ہوسکتی ہیں۔
سابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے کہا کہ اگر انڈیا نے انسانی حقوق کی صورتحال بہتر نہ کی اور اقلیتوں کا خیال نہ رکھا تو انڈیا تقسیم ہو جائے گا۔ مشہور امریکی چینل پر اپنے بیان میں انہوں نے انڈیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر انڈیا کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ اسی طرح امریکہ نے انڈیا کو 2022ء میں انسانی حقوق بالخصوص اقلیتوں کی صورتحال کے حوالے سے رپورٹ میں مذہبی اقلیتوں، اختلاف کرنے والے افراد اور صحافیوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کو شامل کیا ہے۔ یہ رپورٹ ایک بڑے عمل کا حصہ ہوتی ہے، جس کے بعد ایسے ممالک پر پابندیاں بھی لگائی جا سکتی ہیں تو انڈیا والو مودی صاحب کے امریکہ پابندی سے لے کر سینٹ میں خظاب تک اور اسی طرح ڈرون اور دیگر جنگی ساز و سامان تک آپ کی گود میں ہوں گے، اگر آپ چائینہ کے خلاف رہیں گے اور اگر آپ نے چائینہ کے قریب جانے کی کوشش کی تو انسانی حقوق اور انڈیا ٹوٹنے کا پیغام یاد رکھیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں