خوف

مجھے یاد ہے اپنے بچپن کی بات کہ میں آسمان کو اللہ سمجھا کرتی تھی سوچتی تھی کہ اللہ اتنا بڑا ہے تبھی تو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں میرے ذہن میں ہمیشہ اللہ کا خوف رہتا تھا کہ اللہ جان بوجھ کر لوگوں کو بیمار کرتا ہے انکو زندگی میں بھی تکلیف دیتا ہے اور جب کوئی مر جاتا ہے تو قبر کے اندھیرے میں فرشتوں سے مار پڑواتا ہے ۔ میرا یہ ایک تصور تھا خیر سے اس برے نظرئیے کے پیچھے میرے بزرگوں کی باتیں کارفرما تھیں جن کا یہ قول ہوتا تھا کہ اللہ سے ڈرو اللہ جہنم میں ڈالے گا سخت عذاب دے گا۔ مجال ہے جو کوئی مثبت بات بھی تب سنی ہو۔۔ تو ظاہری بات ہے میں نے اللہ کو بس خوف کی علامت سمجھا ہوا تھا اور اسی خوف نے مجھے اللہ سے دور کر دیا ۔ زندگی رنگ بدلتی گئی میری عمر اور علم بھی بڑھتا گیا تو اللہ کو جاننے کا تجسّس پیدا ہوا میں یہ جان کر حیران ہوگئی کہ کوئی ذات اتنی مہربان بھی ہو سکتی ہے ؟ اور کچھ ایسے حالات پیش آئے کہ اللہ کی رحمت ہی رحمت ہونے لگی اور میں نے لفظ اللہ کا مطلب سمجھنا چاہا۔۔ جاننے کے بعد بچپن کے خدا کا بت ٹوٹ چکا تھا اور ایسے اللہ سے رشتہ جڑا جو رحمت کا خدا ہے محبت کا خدا ہے جو ماں سے ستر گنا زیادہ ہر بندے سے محبت کرتا ہے جو ہمارا خیال رکھتا ہے بارشیں برساتا ہے اتنی خوبصورت کائنات کا مالک ہے ۔ جس نے کہا ہے کہ انسان کتنا گنہگار کیوں نہ ہو پر میری رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے جس نے لوح محفوظ پر لکھ رکھا ہے میرے غضب پر میری رحمت حاوی ہے۔ سوچیں وہ اللہ کیسا ہے ؟ خوف سے اسکی عبادت کرنے کی بجائے اس کی رحمت سے اسکی مشیت سے متاثر ہو کر اسکی عبادت کریں گے تو سکون قلب حاصل ہوگا ۔ انسانی زندگی کے دو ہی پہلو ہیں ایک منفی ایک مثبت ۔ محبت مثبت جذبہ ہے اور ڈر خوف منفی۔ خوش وخرم ہمیشہ مثبت لوگ رہتے ہیں۔ لہٰذا خوف بہت بڑی رکاوٹ ہے دماغ کا خلل ہے ۔ ہمیں اس خلل کو مات دینا ہوگی۔ اللہ پاک ہمارے اندر کا خوف ختم کر کے دل میں اپنی محبت موجزن کردے جو لوگ اللہ سے محبت کرتے ہیں اسے ایک مانتے ہیں ایسے لوگ کسی چیز کا خوف نہیں رکھتے ۔ اگر خوف خدا ہونا بھی چاہیے تو وہ بھی مثبت طرز میں ہو اللہ کی ناراضگی کا خوف ہو۔ اس سے دوری کا، ہماری زندگی واقعات سے بھری پڑی ہے کچھ واقعات خوشگوار ہوتے ہیں جبکہ کچھ انتہائی تکلیف دہ ہوتے ہیں ۔ ہمارے برے حالات میں قدرت کا عمل اتنا نہیں ہوتا جتنا کہ ہمارے خودساختہ خوف کا کردار ہوتا ہے ۔ ہمارے بڑے اکثر بچوں کو جن بھوتوں، آسیب سے ڈراتے ہیں اور نتیجتاً انسان کے لا شعور میں وہ خوف محفوظ ہو جاتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں ہم بڑے ہوتے جاتے ہیں تو وہ خوف بھی ہمارے ساتھ بالغ ہوتا رہتا ہے حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جنات آسیب وغیرہ کو کسی نے نہیں دیکھا ہوتا۔ ہو سکتا ہے کہ اصل میں جنات یا چڑیل اتنے خوفناک نہ ہوں جتنا ہم انکو اپنے تصور میں بنا لیتے ہیں ۔ یہ سب ایک فرضی کہانیاں ہیں جو کہ ہم اپنے بچوں کو گھڑ گھڑ کر سناتے ہیں۔ بڑے بھی جانتے ہیں کہ کوئی آسیب نہیں نہ کسی جن کے پاس اتنا ٹائم ہوتا ہے کہ آکر بچوں کو ڈرائیں۔۔ہماری زندگی میں اتنے بے شمار خوف ہیں یقین مانیے جنکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بس وہ خودساختہ مفروضے ہوتے ہیں ۔ ویسے تو بہت سارے خوف ہیں مگر انسان جو خوف خود پر حاوی کرلیتے ہیں وہ درج ذیل ہیں ۔
1.موت کا خوف۔ ہم سب جانتے ہیں کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اور حقیقت کے بارے میں چھان بین نہیں کی جاتی بلکہ اسے تسلیم کیا جاتا ہے ۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو موت کے نام سے ہی ڈر جاتے ہیں انکو روح نکلنے کا ڈر ہوتا ہے عذابِ قبر کا تصور نفسیاتی طور پر اپاہج کر دیتا ہے اور وہ مرنا نہیں چاہتے۔ اسکی وجہ وہ خوف ہے جو کہ لاشعور میں بیٹھا ہوا ہوتا ہے اور خوف نہ زندہ رہنے دیتا ہے اور نہ مرنے دیتا ہے۔ اسکے برعکس اگر ہم یہ سوچیں کہ موت زندگی کے تمام تماشوں سے چھٹکارا ہے موت خالق سے ملاقات کی سیڑھی ھے ۔ موت تو مثبت لفظ ہے جس سے ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے مر جانا ہے لہٰذا نیک کام کریں خود سوچیں کہ اگر ہم نے مرنا نہ ہوتا تو جی جی کر تنگ نہ ہو جاتے ؟ بوڑھے ہوکر گندگی برپا کر دیتے چلو اچھا ہے مالک نے موت تو رکھ دی ۔ ہم اس دنیا میں خالقِ کائنات کو نہیں دیکھ سکتے یہ فانی جہاں ہے اسکے لئے مرنا لازمی ہے یقین جانیں موت سے محبت ہو جائے گی اور ہم اپنے اعمال درست کر لیں گے ۔
2۔ کچھ کھو جانے کا خوف۔ انسان کے ساتھ بڑا عجیب مسئلہ ہے وہ کسی بھی حال میں خوش نہیں رہتا آگے سے آگے بڑھنے کی خواہش ہوتی ہے اور جب کچھ بن جاتا ہے تو کچھ کھو جانے کا ڈر مسلط ہو جاتا ہے ۔ رشتوں کے کھونے کا خوف، رویے بدلنے کا خوف یوں انسان نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔حالانکہ جو چیز آئی ہے اس نے ایک دن جانا تو ہے ہی۔
3, ۔ لوگوں کا خوف۔معذرت کے ساتھ کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اسکی من گھڑت روایتیں ہیں جو ہم پر تھوپ دی جاتی ہیں انسان کو انجانا خوف رہتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے ؟؟ میری ناکامی پر سب مذاق اڑائیں گے یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا یعنی وہ سب سوچتے ہیں جو کہ ہوتا تک نہیں۔ ایک اچھا بھلا انسان خوف کی وجہ سے دب جاتا ہے۔یہ خؤف ہی ہے جو ہمیں آگے بڑھنے سے روکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں بسائیں اور دماغ میں امید کے چراغ روشن رکھیں تو کوئی بھی خوف امید اور محبت پر غالب نہیں آسکتا ۔

Facebook Comments

عظمی فانی
ہر انسان فانی ہے بس یہی سوچ لے کر کچھ اچھا کرنے کی امید سے قلم کو سہارا بنا کر سماج بدلنے کی ٹھانی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply