کے ایم خالد کی تحاریر
کے ایم خالد
کے ایم خالد کا شمار ملک کے معروف مزاح نگاروں اور فکاہیہ کالم نویسوں میں ہوتا ہے ،قومی اخبارارات ’’امن‘‘ ،’’جناح‘‘ ’’پاکستان ‘‘،خبریں،الشرق انٹرنیشنل ، ’’نئی بات ‘‘،’’’’ سرکار ‘‘ ’’ اوصاف ‘‘، ’’اساس ‘‘ سمیت روزنامہ ’’جنگ ‘‘ میں بھی ان کے کالم شائع ہو چکے ہیں روزنامہ ’’طاقت ‘‘ میں ہفتہ وار فکاہیہ کالم ’’مزاح مت ‘‘ شائع ہوتا ہے۔ایکسپریس نیوز ،اردو پوائنٹ کی ویب سائٹس سمیت بہت سی دیگر ویب سائٹ پران کے کالم باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔پی ٹی وی سمیت نجی چینلز پر ان کے کامیڈی ڈارمے آن ائیر ہو چکے ہیں ۔روزنامہ ’’جہان پاکستان ‘‘ میں ان کی سو لفظی کہانی روزانہ شائع ہو رہی ہے ۔

’’فادرز ڈے‘‘( سو لفظوں کی کہانی)

وہ اپنے ابا کو لئے شہر کے مشہور نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس بیٹھا تھا۔ ’’ ڈاکٹر صاحب یہ کونسی سی بیماری ہے، بچوں کی طرح ضد کرتے ہیں، آج کھوئے والی قلفی کی ضد کر رہے ہیں۔ اگر آپ کے←  مزید پڑھیے

“غرقی”

گاؤں میں ایک گھر کے باہر مزدور گڑھا کھودنے میں مصروف تھے۔ ’’ کیا ہورہاہے ۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔ باؤ خالد! ’’غرقی ‘‘بنا رہے ہیں ۔ ایک بزرگ نے بتایا۔ پتر! اس سے غلاظت نہیں پھیلتی ، کھیتوں کی رفع←  مزید پڑھیے

’’کیفے ٹیریا‘‘ (سو لفظوں کی کہانی )

چچا موچی کو اسلام آباد دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ کئی مرتبہ اسے مشکل سے روکا ۔ اس دفعہ عین روانگی کے وقت ، گاڑی میں آ بیٹھا میں بھی انکار نہیں کرسکا۔ اسلام آباد وہ دیر تک سویا رہا۔←  مزید پڑھیے

“سٹنٹ” (سو لفظی کہانی)

وہ ایک سرکاری ہسپتال میں دل کے شعبے کا انچارج تھا ۔ اسے رات اچانک ہی دل کی تکلیف محسوس ہوئی تھی گھر والے اسے بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال لے کر آئے تھے ۔ جونیئر ڈاکٹرز نے اسکی←  مزید پڑھیے

’’رے بین ‘‘ (سو لفظوں کی کہانی )

صاحب اٹلی سے آنے والے مہنگے تحفے رے بین عینک کا ذکر ہر میٹنگ میں کر رہے تھے۔ عینک کے آنے سے پہلے ہی اس نے چوری کا مکمل منصوبہ بنا لیا تھا ۔ آج صاحب ایک نئی عینک لگا←  مزید پڑھیے

’’لاگت ‘‘ (سو لفظوں کی کہانی )

صاحب پریس کانفرنس میں بڑے فخر سے بتا رہے تھے ’’ دیکھیں، ساڑھے چار ارب روپے کی لاگت سے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت عوام کے لئے پل بنایا گیا ہے‘‘۔ ایک بونگا چپڑاسی فائل لئے صاحب کی جانب←  مزید پڑھیے

’’صاحب حیثیت ‘‘ ( سو لفظوں کی کہانی )

شاید وہ صاحب حیثیت کے آخری درجہ پر تھا۔ اس کی بیوی کافی دنوں سے بچوں کے گرم کپڑوں کا کہہ رہی تھی۔ اسے دیوارِ مہربانی یاد آئی۔ رات دو بجے وہ دیوارِ مہربانی تک پہنچا۔ اسے بچوں کے کپڑوں←  مزید پڑھیے

’’شعاعیں ‘‘ ( سو لفظوں کی کہانی )

موجو مصلی کو پورے پانچ سال قلق رہا، چوہدری اس کو اسلام آباد پہچان کیوں نہیں پایا۔ اچھا ا ب میں بھی الیکشن میں نہیں پہچانو ں گا اس نے دل کو تسلی دی تھی۔ ’’ اوئے موجو ۔۔۔!دیکھ چوہدری←  مزید پڑھیے

دوا خانے کے اداکار

کوئی دور تھا کہ جب اداکار صرف تھیٹر، ٹی وی ڈرامہ یا فلموں میں ہی پائے جاتے تھے مگر فی زمانہ اداکاروں کی ہر شعبہ ہائے زندگی میں بہتات ہے۔ حتیٰ کہ میڈیا کا سب سے خُشک شعبہ نیوز اور←  مزید پڑھیے

’’آئی لو یو‘‘ (سو لفظوں کی کہانی )

بادشاہ سلامت مضطرب تھے ۔ شاہی جادوگر پی کے کو حاضر کیا ۔ ’’جب سے زنجیر عدل ہٹائی ہے، عوام کی کوئی خبر نہیں ، ایسا نہ ہو انہیں روٹی ہی میسر نہ ہو ‘‘۔ جادوگر نے طلسمی آئینے سے←  مزید پڑھیے

بوٹوکس

شوبز کی چکا چوند اسے سٹوڈیو تک لے آئی تھی۔ ا س کے میک اپ مین نے اسے خوبصورتی مزیدبڑھانے کے لئے، بوٹوکس سرجری سے لپ فلنگ کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن شائد ڈاکٹر ابھی تجربہ کار نہیں تھا ۔←  مزید پڑھیے

کورٹ میرج

وہ نوجوان کورٹ میرج کے لئے باپردہ لڑکی کے ساتھ چیمبر میں تھا۔ وکیل نے پوچھا۔ ’’کون لوگ ہیں۔۔۔؟‘‘ ’’بہت ہی باپردہ فیملی ہے ‘‘۔ ’’اورتمہاری فیملی۔۔۔؟‘‘ ’’ ہم بھی عزت دار لوگ ہیں‘‘۔ ’’میں اس کچہری کا پرانا وکیل←  مزید پڑھیے

’’داستان سرائے ‘‘

’’داستان سرائے ‘‘کے درو دیوار پر عجیب سی اداسی چھائی ہوئی تھی۔ وہ’’ داستان سرائے‘‘ جہاں تصوف ، داستان،محبت کی محفلیں جمتی تھی ، وہاں اداسی بال کھولے رو رہی تھی ۔ میرے دعا کے لئے اٹھے ہوئے ہاتھوں کو←  مزید پڑھیے

’’مفاہمت‘‘

مجھے افسوس ہے کہ آپ کے والداب غصے میں نہیں آ سکیں گے۔ ڈاکٹر نے معائنہ کرتے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔ مگر ڈاکٹر صاحب۔۔۔! یہ تو پاکستان کی چوٹی کی سیاست کا ایک کردار ہیں، اگر انہیں غصہ نہ آیا←  مزید پڑھیے

’’عظیم الشان شہنشاہ‘‘

تاج پوشی کے جشن ختم ہونے میں نہیں آ رہے تھے ۔وہ اپنی شاہی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے بے چین تھا۔ ’’شاہی جوتشی کو بلاؤ‘‘۔ سر پر تاج سجاتے بادشاہ نے تالی بجائی۔ جی دنیا کے بے تاج بادشاہ←  مزید پڑھیے

’’فطرت‘‘

نسوانی نقش و نگار اور سفید جلد کا مالک، مردہ مائیکل جیکسن تابوت کے شیشے سے یوں باہر جھانک رہا تھا ، جیسے اسے اپنے مرنے پر شدید حیرت ہو۔ ایک بوڑھی حبشی عورت اسے تاسف سے تکے، بڑ بڑائے←  مزید پڑھیے