’’داستان سرائے ‘‘کے درو دیوار پر عجیب سی اداسی چھائی ہوئی تھی۔
وہ’’ داستان سرائے‘‘ جہاں تصوف ،
داستان،محبت کی محفلیں جمتی تھی ،
وہاں اداسی بال کھولے رو رہی تھی ۔
میرے دعا کے لئے اٹھے ہوئے ہاتھوں کو یوں لگا ،
جیسے کسی نے گداز پوروں سے نرمی سے چھویا ہو،
آنکھوں میں پھیلی ہوئی نمی کو،
اپنی ہتھیلوں سے پونچھا ہو۔
اور کان کی لو کے پاس محبت بھری سر گوشی کی ہو ۔
’’داستان کا سفر رکنا نہیں چاہئے،
’’داستان سرائے ‘‘کے سورج نے،
غروب ہونے سے پہلے،
ہزاروں ذروں کو منور کیا ہے،
یہ ذرے چمکتے رہنے چاہئے‘‘۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں