• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مہنگائی،حکومت میں اتنے جھوٹ بولنے والے کیوں جمع ہوگئے۔اسد مفتی

مہنگائی،حکومت میں اتنے جھوٹ بولنے والے کیوں جمع ہوگئے۔اسد مفتی

ہالینڈ کے ایک اخبار نے پاکستان کے موجودہ معاشی،سیاسی،ور مذہبی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے پاکستان میں مقیم اپنے نمائندے کے حوالے سے لکھا ہے کہ غربت اور بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آئے ہوئے عوام میں خود کشی اور خود سوزی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔وہ لکھتا ہے کہ ملک میں مہنگائی جس شرح سے بڑ ح رہی ہے عوام اس کے بوجھ تلے پستے چلے جا رہے ہیں، ان کی ہمت اور کمر ٹوٹ چکی ہے۔ و ہ دن رات بیل بکریوں کی طرح روزی کمانے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ان کو اپنی ترقی،ملک کی ترقی یا مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں۔

آگے چل کر تجزیہ نگار لکھتا ہے “صرف روٹی،کپڑا،مکان”پاکستان کے عا م آدمی کو اب اس بات سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں رہی کہ پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت کیا ہے،شریعت نافذ کی جاتی ہے یا نہیں، نئی دہلی کے لیے بس چلائی جاتی ہے یا بیل گاڑی،شیخوپورہ،نارووال،گوجر خان،شکار پور،صوابی کے عام آدمی کو سستا آٹا،گھی اور چائے چاہیے۔اسے سستی ادویات چاہئیں،جو اس کی رہی سہی زندگی کو بچا سکیں، بچوں کے لیے تعلیم چاہیے،کہ کل کو وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں،اپنے بچوں کے لیے دو کمروں کی چھت چاہیے،جہاں اس کی عزت بھی محفوظ ہو،عام آدمی پچاس ہزار کی نوکری نہیں چاہتا،وہ صرف اتنے پیسوں کی نوکری چاہتا ہے جو اسے با عزت روٹی دے سکے۔

ہمارے ملک عزیز میں مہنگائی نے جس انداز میں پنجے گاڑے ہیں اس سے محض طلب و رسد میں عدم توازن یا کمی بیشی کا نتیجہ قرار نہیں دیا جا سکتا،اس کے ساتھ ساتھ یک بیک اشیائے ضرورت کا بازار سے غائب ہوجانا،اور پھر چند روز بعد نمودار ہونا تو تین گنا،چار گنا نرخوں پر ایسی اشیا ء کی قیمت میں یک بیک اضافہ ہوجانے کے منظر کو کس کھاتے میں ڈالا جائے۔؟جس کا نہ تو خام مال کا مسئلہ ہے اور نہ ہی عوامل پیداوار میں کسی کی اجرت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے کہ لاگت کے بڑھ جانے کا بہانہ بنایا بنایا جاسکے،اس بِنا پر یہ کہنا کہ مہنگائی محض معاشی مسئلہ ہے کہ معاشی عمل سے متعلق ہے اس لیے اس کا حل بھی صرف معاشہ ہونا چاہیے،درست نہیں۔یہ الگ بات ہے کہ وزرا اور ایکسپرٹ یہی کہتے ہیں۔

یہ کہنے والے بھول جاتے ہیں کہ آدم سمتھ کے زمانے کے اقتصادی اصول آج کی صورتحال پر لاگو نہیں ہوسکتے۔اجارہ دارانہ طبقے میں مہنگائی اجار ہ دارانہ طبقے کا بہت بڑا ہتھیار ہوتی ہے۔اس لیے مہنگائی کا جن موجودہ اجارہ دارانہ طبقے کے قبضے میں ہے۔ایسی حالت میں مہنگائی صرف معاشی مسئلہ نہیں بلکہ سیاسی مسئلہ بن جاتی ہے۔او رسیاسی مسئلے کا حل بھی سیاسی ہی ہوتا ہے یا ہونا چاہیے۔اب جبکہ یہ معاشی مسئلہ بلکہ ” “بد معاشی”مسئلہ سیاسی مسئلہ بن چکا ہے او راپنی اصل میں سیاسی ہے،تو اس سے سیاسی طریقے سے عہدہ بر آ ہونا چاہیے۔ اس معاملے میں کلی طور پر حکومتی مشینری پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔اس کے لیے عوام کو منظم کرنے کی ضرورت ہے، لیکن اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ معاشرے میں بنیادی تبدیلیاں ممکن نہیں، اور نہ ہی ہمارے ہاں کے صاحبِ اقتدار اور صاحبِ ثروت اکثریت ایسا چاہتی ہے۔ ان کے نزدیک اصلاحات اور سرکاری اقدام سے معاشرے کی اصلاح ہوسکتی ہے، اصلاح اور تبدیلی میں فرق ہے،لیکن ہمارے ہاں اصلاح کی طرف خصوصیت سے توجہ دی جاتی ہے۔

اصلاحات کے بارے ایک اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں مذہب کے اجارہ دار بھی “اصلاحی احوال” پر ہی توجہ دیتے ہیں،ان کے نزدیک ہر شخص اگر اپنی اصلاح کرے تو پھر معاشرے کی اصلاح ہوسکتی ہے۔ اور اس نظریے کا پروپیگنڈا مسجدوں،جلسوں،ریڈیو،ٹی وی اور اخبارات میں ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم گردو پیش کا بنطر غائر جائزہ لیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اصلاحی احوال کی متواتر تلقین و ہدایات کا اثر صفر ہوا ہے،لیکن اس کا ایک اثر یہ ضرور ہوا ہے کہ ہر شخص معاشرتی زندگی کو اپنی انفرادی زندگی کے حوالے سے دیکھتے ہوئے اس بات پر مصر ہے کہ اس کا زاویہ ء نگاہ درست ہے۔ زاویہء نگاہ کے زیرِ اثر تنقید و تبصرہ کا بے معنی سلسلہ جاری ہے، ہر طرف افراتفری پھیلی ہوئی ہے اور اس افراتفری کا احساس ہمہ گیر ہوچکا ہے۔

آج کل اس احساس کا محور مہنگائی ہے، ہر طبقے کا فرد مہنگائی پر اظہار خیال کررہا ہے۔ یہ درست ہے کہ نچلا اور درمیانہ طبقہ اس مہنگائی سے تنگ آچکا ہے،مگر مسئلہ یہ ہے کہ مہنگائی کو ختم بھی کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
اگرچہ ہم سمجھتے ہیں کہ مہنگائی کے بیسیوں سبب اپنی جگہ موجود ہیں،لیکن بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جب تک ذریعہ پیداوار پر نجی ملکیت کو ختم نہیں کیا جا تا اس وقت تک مہنگائی کو ختم کرنے کے لیے کوئی دیرپا حل دریافت نہیں ہو سکتا۔ مہنگائی کو ختم کرنے کے لیے پیداوار میں اضافے پر بہت زور دیا جاتاہے،لیکن نجی ملکیت کے تحت پیداوار میں منافع اندوزی روکنا ناممکن ہے اور یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر پیداوار بھی “طلب”سے زیادہ ہو جائے تو تب بھی مہنگائی میں اتنی کمی نہیں آپائے گی،جس کی عام شہری توقع رکھتے ہیں۔ مکمل طور پر نجی ملکیت کو ختم کردیجئے تو اس سے نہ صرف پیداوار میں اضافہ ہوسکتا ہے بلکہ معاشرے کے سینکڑوں مسائل خودبخود ختم ہوسکتے ہیں،اور اس کے لیے ہمیں اپنی سوچوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔یہ صرف سوچ کا فرق ہی ہے جو کبھی بھی معاشرے کو بگاڑ نے یا سنوارنے کا فریضہ اداکرسکتا ہے اور اس فرق کو محسوس کرنا اور اس کے سیاق و سباق کو احاطہ شعور میں رکھنا بے حد ضروری ہے، ان آئیے اسی سوچ کے فرق کے حوالے سے میں آپ کو دو تصویریں دکھاؤں۔۔

ایک غریب آدمی اپنے نو دس سالہ غریب بیٹے کے ساتھ کسی غریب کالونی سے گزر رہا تھا، کہ وہاں کسی غریب گھر میں کوئی غریب عورت اپنے غریب مگر پیارے کی موت پر بین کررہی تھی۔
“ہائے اوئے،یہ تمھیں وہاں لے جارہے ہیں جہاں روٹی ہے نہ پانی ہے،
ہائے اوئے تمھیں وہاں لے جا رہے ہیں جہاں دیوا ہے نہ بتی ہے
ہائے اوئے تمھیں وہاں لے جا رہے ہیں جہاں منجی ہے نہ پیڑھی ہے”

بچہ یہ سب سن کر باپ سے پوچھنے لگا،”ابا ہمارے گھر تو نہیں لے جارہے”؟

Advertisements
julia rana solicitors

اب تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیے!
ایک ماسٹر نے بچوں کو غربت پر مضمون لکھنے کے لیے کہا،ایک بچی نے لکھا ” ہم بہت غریب ہیں،ہمارے امی ابو بہت غریب ہیں،بیچارے دونوں نوکر بہت غریب ہیں، ہمارا خانساماں بہت غریب ہے،ہمارا شوفر بہت غریب ہے، ہمارا مالی بہت غریب ہے،ہم سب بہت غریب ہیں “۔

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply