• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جائیداد: تقسیم ہندوستان کا ایک دلچسپ ورق/مترجم -فرزانہ افضل

جائیداد: تقسیم ہندوستان کا ایک دلچسپ ورق/مترجم -فرزانہ افضل

‎ یہ مضمون سن سنتالیس میں لائف میگزین میں چھپا تھا۔جسے مصنف  روبرٹ نیویلی(Rober Neville)نے تقسیم املاک(Houses Devivded) کے عنوان کے تحت  لکھا، ۔اب اس مضمون کو  معروف صحافی مبشر زیدی نے دریافت کیا   ہے۔ تقسیم کے 75برس  مکمل ہونے پہ اسکا ترجمہ قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ (ایڈیٹر)

تقسیم املاک
1947 ‎ مسلمانوں اور ہندوؤں کی مکانوں اور کاروباروں کی دیوانہ وار منتقلی،
تقسیم ہند کا دن قریب آنے کو ہے ‎ ایک ہندوستانی نژاد عیسائی جوزف اسیر وادم نے نیو دہلی میں کناٹ کے مقام پر حال ہی میں ایک خوب پھلتا پھولتا کاروبار کھولا ہے۔ اسیر وادم نے ایک میز اور دو کرسیاں کرائے پر لے کر اس چھوٹے سے ڈربہ نما کمرے میں ڈالیں جو اسے اس کے دوست نے ، دوستی نبھاتے ہوئے استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔ یہ ادھار کا کمرہ کسی وکیل کے 8×10 کے کیبن سے بھی زیادہ بھر گیا تھا۔ دفتر سیٹ کرنے کے بعد اسیر وادوم کا اگلا قدم نیو دہلی اخبار میں ایک اشتہار دینا تھا ، جس کی عبارت کچھ یوں تھی،” مسٹر اسیر وادم ، پراپرٹی ڈیلر نے نئی دہلی میں ایک دفتر کی بنیاد رکھی ہے ، جس کے ذریعے ہندوستان اور پاکستان میں قانونی طور پر ایک کروڑ روپے تک کی جائیداد کی تبدیلی کی جاسکتی ہے۔” ‎ جونہی یہ اشتہار اخبار میں شائع ہوا، اسیر وادم کو فراغت کا ایک لمحہ بھی نہیں ملا۔ اس اشتہار کو صبح سویرے کے اخبار میں، ناشتے کے ساتھ لوگوں نے پڑھا، بس پھر کیا تھا دو گھنٹے کے اندر ہی گاہک جوق در جوق اسیروادم کے دفتر میں آنے لگے۔ رش اس قدر بڑھ گیا کہ کئی بار تو دفتر میں خود اس کے بیٹھنے کی جگہ نہیں بچی۔

‎ مسٹر اسیر وادم ان ابتدائی ڈیلرز میں سے ایک تھا جنہوں نے ماؤنٹ بیٹن کے تین جون کے تقسیم ہند کے اعلان کے فوراً بعد ہی اپنی دکان کھول لی تھی۔ ‎ وہ تاجروں اور ٹھیکیداروں کے ایک پورے گروہ کا پیش رُو تھا، جس کی طرف مجوزہ پاکستان کے پریشان ہندو و سکھ مالکان اور ہندوستان کے علاقے کے خوف زدہ مسلمان مشورے اور مدد کے لئے رجوع کر رہے ہیں۔ 15 اگست کو پاکستان کے ایک تسلیم شدہ وجود کی حقیقت کے سامنے آنے سے قبل یہ بروکرز جائیداد کے تبادلے کا ایک عظیم الشان کاروبار چلا رہے ہیں، جہاں ہر طرح کی سودے بازی، لین دین اور ہر قسم کے تخمینے حاصل کرنا ممکن ہے۔ مثال کے طور پر قیمت کا اندازہ لگانا کہ ” کہ بمبئی میں مسلمان کی ملکیت ایک جدید رقص گاہ کی قدر ایک سکھ ملکیت کے لاہور کے قریب واقع شکر کے کارخانے کے مطابق کیا ہوگی”۔  ” ایک مسلمان، برار میں اسکے 20 ایکڑ فروٹ فارم کے بدلے ، پنجاب میں آبپاشی کے حقوق کے ساتھ کتنے ایکڑ گیہوں بونے کے لائق زرعی زمین حاصل کر سکتا ہے؟” ۔ ” کیا پٹنہ میں ایک مسلمان مالک کی سٹیشنری اور کتابوں کی دکان، راولپنڈی میں ہندو کی ملکیت والی بیکری کے بدلے قابل قبول ہے؟” ۔

اس قسم کے اور بہت سے مزید سوالات دلالوں کی نئی کھیپ سے پوچھے جا رہے ہیں۔

تقسیم کے دن سرحد کی صحیح سمت میں ہونے کا رش ہر گھنٹے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے ہندوستان کی تقسیم کا سب سے زیادہ بلند آواز میں مطالبہ کرنے والے بہت سے لوگوں نے پاسپورٹ، ویزہ ، رقومات کا کنٹرول اور جائیداد کی منتقلی جیسے چیلنج اور پیچیدہ معاملات کے بارے میں پہلے سوچا ہی نہیں تھا۔ انہیں اب احساس ہوا ہے کہ اب کراچی سے بمبئی کے سفر کے لیے ہوائی جہاز یا ریلوے ٹکٹ کی سادہ قیمت کے علاوہ ویزا بھی درکار ہوگا۔ ایک جگہ پر رہائش رکھتے ہوئے دوسرے مقام سے اپنے آمدنی حاصل کرنا مستقبل میں اگر ناممکن نہیں تو شاید مشکل ضرور ہوگا۔

پاکستان اور ہندوستان کو متعلقہ کسٹم اور امیگریشن اور ایکسچینج کنٹرول سسٹم کو قائم کرنے میں وقت لگے گا۔ بہر کیف اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ سب ہوکر رہے گا۔ اس وقت ہندوستان میں بہترین ترقی کرتا ہوا شہر کراچی ہے جو مغربی ساحل پر بمبئی سے چند سو میل فاصلے پر بڑی بندرگاہ ہے۔ پاکستان کے نامزد گورنر جنرل محمد علی جناح نے کراچی کو اپنا دارالحکومت قرار دے دیاہے۔ کراچی شہر اعزاز اور رتبہ پانے پر ششدر رہ گیا ہے مگر مشکل یہ درپیش تھی کہ 70 ملین افراد کی آبادی پر مشتمل مملکت کی حکومت چلانے کے لیے دارالحکومت کے طور  پر کراچی میں نظام حکومت چلانے کے لیے ہر قسم کی سہولیات کا فقدان ہے۔ کراچی دارالحکومت جیسا دکھائی نہیں دیتا۔ یہاں ہوٹلوں ، گھروں ، دفاتر ، دکانوں ، تھیٹروں ، گاڑیوں اور بسوں کی کمی ہے۔ پاکستان کے قیام سے پہلے جو وقت بچا ہے اس میں ان واضح کمیوں کو دور کرنے کے امکانات نہایت قلیل ہیں ۔ 3 جون سے پہلے کی مدت کے مقابلے میں قیمتیں بڑھ کر آسمان کو چھونے لگی ہیں۔

مترجم/فرزانہ افضل

جائیداد کے تبادلے میں سب سے زیادہ تبادلے گھروں کے کیے جارہے ہیں، گھروں کی پیشکشوں کی عبارات کے درمیان واقعی دل کو چھو لینے والی کہانیاں بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔ ایک رئیل اسٹیٹ کے بلیٹن بورڈ پر لگے اس اشتہار پر غور کیجیے۔ ‎” ایک صاحب حیثیت مدراسی برہمن راولپنڈی کے وسیع و عریض گھر کو الہ آباد کے اسی مناسبت کے گھر کے ساتھ تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ راولپنڈی کی جائیداد ایک بڑے مسلمان گھرانے کے لئے موزوں ہے۔ “ ‎ ہندوستانی بخوبی جانتے ہیں کہ ان تمام ہندوستانی فرموں کا اسٹینوگرافک اور سیکریٹیرئیل اسٹاف مدراسی ہے۔ اس اشتہار کو پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ راولپنڈی ہاؤس کے مالک راما کرشن نے 25 سال تک ایک مسلم فرم کی خدمت کی، ان کی تنخواہ بہت زیادہ تھی اور مزید ترقی کے شاندار امکانات تھے۔ گزشتہ سال کے راولپنڈی کے فسادات اور “محب وطن” فرموں کے کم سے کم ہندوؤں کو ملازمت دینے کے رویّہ نے راما کرشن کو باور کرا دیا کہ ان کا مستقبل پاکستان میں نہیں ہے۔ مسٹر راما کرشن جو پانچ بیٹیوں کے باپ ہیں اور انہوں نے اگلے چند سالوں میں اپنی بیٹیوں کو بیاہنا ہے ،یقیناً شادیوں پر اخراجات اٹھیں گے۔ اگرچہ موجودہ حالات میں ان کو ہندوستان میں پہلے کے مطابق تنخواہ نہ مل سکے گی ۔ تاہم وہ اس پریشانی میں اکیلے مبتلا نہیں ہیں۔۔ ‎ چنانچہ گزشتہ ماہ ایک ہزار سے زائد مدراسی خاندان شمالی ہندوستان سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کر چکےہیں۔ جس کے نتیجے میں پاکستان میں شارٹ ہینڈ ماہرین کی بڑی قلت ہوگئی ہے ۔

درحقیقت سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر مدراسی یوں ہی پاکستان سے رخصت ہوتے رہے تو پاکستان کے پاس ایک بھی سٹینوگرافر نہیں رہے گا ۔ مسلمان سیکرٹریز تو یوں بھی بہت کم ہیں۔ ماضی میں کئی بار ہندوستانی فرموں نے اشتہارات کے ذریعے نیشنلسٹ یا برطانوی راج مخالف سرپرستی کو اپیل کی ہے کہ وہ غیر ملکی برطانوی فرموں کے مقابلے میں “سودیشی” یعنی مقامی ہیں۔ تاہم شاذ و نادر ہی انہوں نے اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی فرقہ وارانہ ساخت کا حوالہ دیا ہے۔ اب یہ ہچکچاہٹ ختم ہو گئی ہے اور متوقع سرحد کے دونوں جانب ہندوؤں یا مسلمانوں کی جانب سے حب الوطنی کی اپیل کے اشتہارات دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان میں خاص طور پر نئی نئی مسلم شپنگ فرمیں ، مسلم انشورنس کمپنیاں ، مسلم بینک سب اچھے اور سچے مسلمانوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ حصص خریدیں اور مسلم انٹرپرائز کا آغاز کریں۔ پاکستان کے حصوں کو ہوائی راستے سے جوڑنے کے لیے مسلم ایئر لائن قائم کی گئی ہے جو ہندوستان کی دو اہم ایئرلائنز جو اب ایک پارسی اور ایک ہندو کی ملکیت ہیں کے ساتھ مل کر یہ کام کرے گی ۔ ‎

مذہب کی بنیاد پر جائیداد کی ملکیت کے اس سارے زور نے مجوزہ ہندوستان اور پاکستان میں صاحب جائداد افراد کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ ایک مثال احمد شیروانی کی ہے جو 30 سال قبل برہنہ پا، جیب میں پیتل کے چند سکے لیے کانپور آیا تھا۔ اس نے اپنے دوسرے ہم وطنوں کی طرح محنت مزدوری کی اور محنت کے نتیجے میں آج وہ چمڑے کی صنعت کا تنہا مالک ہے۔ چمڑے کا کام ان کاروباروں میں سے ایک ہے جس میں مسلمانوں نے ہندوؤں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہندو مذہبی وجوہات کی بنا پر گائے کی کھال سے بنی مصنوعات کا سودا کرنا غیر مقدس سمجھتے ہیں۔ مگر احمد شیروانی کے ساتھ مصیبت یہ ہوئی اس نے سارا وقت خود کو مسلم لیگ کا حامی ظاہر کیا اور لیگ کو چندہ دیتا رہا۔ اب حال ہی میں حریفوں نے چہ مگوئیاں شروع کر دی  ہیں کہ وہ ہندو اکثریتی ہندوستان میں ایک وفادار شہری ثابت نہیں ہوسکے گا ۔ اور اس کے بائیکاٹ کی بات ہو رہی ہے۔ کیا اسے پاکستان چلے جانا چاہیے ؟ اور نئے سرے سے کاروبار کرنا چاہیے؟ یا پھر ہندوستان میں رہ کر دیوالیہ ہو جانا چاہیے؟

یہ ایک مشکل فیصلہ ہے جو احمد شیروانی ابھی تک نہیں کر پایا ہے۔

احمد شیروانی کے ساتھی مسلمانوں کے دیئے گئے اشتہارات سے اندازہ ہو رہا ہے کہ انہوں نے پاکستان میں منتقلی اور شراکت کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس طرح دو جدید محل نما مکانات جو حال ہی میں لکھنؤ اور نینی تال میں بنائے گئے ہیں کراچی میں اسی طرح کی جائیداد کے بدلے میں رکھے گئے ہیں۔ بہار کے دو وسیع کمپاؤنڈ سندھ کی اسی تخمینے کی جائیداد کے بدلے میں پیشکش پر لگائے گئے ہیں۔ مبادلہ کے لئے ایک لکڑی کے کام کی دکان جو جودھ پور میں ہے اور ہندوستان کے حصے میں آتے ہوئے بھی پاکستان کی سرحد پر ہوگی، مشرقی پنجاب میں قائم ایک پرانی وائن ایجنسی جس کی شاخیں پہاڑی مقامات پر ہیں ، بمبئی کے ہندو علاقے میں واقع ایک سلائی کڑھائی کے لوازمات کی دکان ، بیکانیر کی ایک سلیٹ اور فلور ٹائلز فیکٹری ، پونا کی ایسبیسٹوز فیکٹری، سب سیل پر ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

‎ دریں اثنا اس تیزی سے آگے بڑھتے اور بدلتے ہوئے حالات کی ہلچل میں چند ہندوستانیوں کو ایک اور مسئلہ کا احساس ہوتا ہے جس کا سامنا انہیں تب کرنا پڑے گا جب وہ سرحد کے پار اپنی صحیح سمت میں ہوں گے۔ پاکستان میں ، مثال کے طور پر پنجاب میں پنجابی بولنے والا شخص خود کو سندھی بولنے والے سندھی اور پشتو بولنے والے پٹھان کے درمیان پائے گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان تینوں میں سے کوئی بھی پاکستان کی سرکاری زبان نہیں بول سکے گا جس کا مسٹر جناح نے اعلان کیا ہے کہ یہ اردو ہوگی، اور جس پرانہوں نے خود بھی حال ہی میں عبور حاصل کیا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply