شہزادی کا نوحہ…روبینہ فیصل

(لیڈی ڈیانا کی برسی پر لکھا گیا ایک مضمون )
ابھی صرف 9 1برس کی ہو ئی تھی کہ بیاہی گئی ۔ اسکی ماں اسکے بچپن سے ہی چل بسی تھی ، اور باپ، ماں کے مرنے کے بعد اپنے وجود کے حصار میں قید رہتا تھا اور وہ دروازے پر تنہا بیٹھی کسی توجہ ، کسی محبت کا انتظار کرتی رہتی تھی ۔ لڑکیوں کو بچپن میں الف لیلی کی ماورائے عقل کہانیاں سنانے والی بڑا ظلم کماتی ہیں ،ایسا ہی ظلم اس کی گورنس نے بھی کمایا ۔اور شہزادی بھی محبت کی ایسی ہی جھوٹی کہانیاں سن کر جوان ہو ئی تھی جنہیں سن کر محبت سے محروم عام لڑکیاں بھی خود کو شہز ادیاں سمجھنے لگتی ہیں اور لاشعوری طور پر اس شہزادے کے انتظار میں رہتی ہیں ،جو صرف ان کی خاطر دیو کے “سات” مشکل سوال حل کر ے گا ۔ اور جان پر کھیل جائے گا مگر شہزادی کو دیو کی قید سے ضرور آذاد کر وائے گا ۔ الف لیلی کے ایسے طلسم کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ، یہ بھانڈہ تب پھوٹتا ہے جب حقیقی زندگی کا شہزادہ ایک “عام مرد “بھی نہیں بلکہ “ہیجڑہ” نکلتا ہے جو اپنی جان کی خاطر ایسی کتنی ہی شہزادیوں کی زندگی سے کھیل جا تا ہے۔
یہ عجیب و غریب خواب صرف مشرقی لڑکیوں کی آنکھوں میں ہی آگ نہیں لگاتے بلکہ ،مغرب کی آزاد خیال لڑکیوں کی آنکھوں کو بھی جلا دیتے ہیں ۔ ویسے تو31 اگست 1997کو لیڈی ڈیانا کی موت کے بعد”شہزادے اور شہزادی کی محبت” کا صدیوں پرانا طلسم ٹوٹ جا نا چاہیئے تھا ۔ مگر ایسا ہوا نہیں لڑکیاں آج بھی” نامردوں “کو ایسے شہزادے سمجھ کر اپنی موت خود مر رہی ہیں ۔ لڑکیو !۱جاگنے کا وقت آگیا ہے ۔
بے وفائی کی سزا موت سے کم کیا ہو ۔ جسمانی قتل کر نے والے سے بڑا قتل یہ دغا باز کرتے ہیں ۔ مگر ہو تا اس کے بر عکس ہے ۔عام قاتل سزائے موت یا عمر قید کی سزا پاتے ہیں او ر بے وفائی کر کے سچی روحوں کو مسخ کر نے والے فریبی ، “قاتل” ہی نہیں کہلاتے اور نہ ہی کوئی سزا پاتے ہیں ،بلکہ دوسری شادی کر کے دندناتے پھرتے ہیں ۔اور ایسے کیسز میں جو مقتول ہو تا ہے ،پل پل مرنے کی سزا بھی وہی پاتا ہے۔
شہزادی کی آنکھوں میں مر نے کے بعد بھی ایک سوال ٹھہر گیا تھا ۔۔۔ میں بے وفائی پر مفاہمت کیوں کر تی ؟
شہزادی کی آنکھیں ،ا س کی موت سے بہت پہلے مر چکی تھیں ، جب اسے شادی کے کچھ ہی دنوں بعد یہ معلوم ہو گیا تھا کہ شہزادہ چارلس اُس سے نہیں بلکہ ،کمیلا پارکر سے محبت کر تا ہے ۔ شہزادی کا دکھ، ساکت اور متحرک تصویروں میں اس کی آنکھوں سے جھلکتا صاف دکھائی دیتا تھا ۔ جب اعتماد کو ٹھوکر لگتی ہے تو انسان کے پو رے وجود کی تذلیل ہو جاتی ہے ، یوں لگتا ہے جیسے کسی نے آپ کے وجود کو ننگا کر کے اس پر کوڑے برسائے ہوں ۔ جیسے کسی نے آپ کو چوک میں لا کر کھڑا کر کے عین آپ کے سینے کے وسط میں ٹھوکریں ماری ہوں ۔ شہزادی کو آسمان پر بٹھایا گیا تھا ۔ انگلینڈ کی شاہی فیملی نے لوگوں کے اندر ان کے خلاف پھوٹنے والی بغاوت سے دھیان ہٹانے کے لئے ، شہزادی کے معصوم اور محبت بھرے چہرے کو استعمال کیا ۔شاہی خاندان اپنے مقصد میں کامیاب ہوا ، سارا یورپ کیا ،پو ری دنیا ،اس حُسن اور معصومیت کی دیوی کی پجاری ہو گئی ۔ وہ سب کی شہزادی بن گئی۔ محبت کی ماری کو اتنی ساری محبتیں ملیں تو اس کی بھی آنکھیں چمک اٹھیں ۔ مگر اُس کے خوابوں کے شہزادے کا کیا ہوا ؟ وہ تو کہیں تھا ہی نہیں ۔۔۔اس کا تو وجود سرے سے تھا ہی نہیں ۔
خواب سے نکل کر سراب میں آگری ۔ وہ تو ایک” چیز” ثابت ہوئی ۔ خود غر ض مرد ، شائد مرد کے ساتھ خود غر ض کا لفظ ایک اضافی adjectiveہے۔کیونکہ ایسے مرد جنہیں شائد نامرد کہنا چاہیئے ، ان کے پاس دل نہیں ہو تا اور دماغ میں ایک کیلکولیٹر فکس ہو تا ہے ، جو خود بخو د ہر تعلق ، خاص کر کے عورت کے ساتھ تعلق کو جمع تفریق کر تا رہتا ہے ۔عام رتبے کے مالک کم ظرف مرد نہیں مان، یہ تو پھر ایک شہزادہ تھا ۔ جس کے پاس compareکر نے کے لئے عورتوں کی کمی نہیں تھی ۔ کس عورت سے ذہنی سکون مل سکتا ہے ، کس عورت سے کھانا اچھا مل سکتا ہے ، کون عورت کس کام کی ، یہ سب حساب کتاب کر کے ، شہزادے نے محبت کا قرعہ کمیلا اور بیوی کے نام کا قر عہ لیڈی ڈیانا کے نام نکالا ۔۔۔۔
شہزادی کو محل ، سٹیٹس اور عوام میں مقبولیت ، جیسے کھلونے دے کر بہلانے اور منہ بند کر کے چپ چاپ ، شاہی آداب کے ساتھ زندگی گذارنے کی تلقین کی گئی۔ محبت میں ایسی NRO’s،اس کارپوریٹ دنیا میں اب ایسی اچھنبے کی بات نہیں رہی ۔ ہزاروں عورتیں ، شہرت اعلی معیارِ زندگی اور دولت کے لئے محبت کا سودا کر دیتی ہیں ۔ اس لئے سارا الزام مردوں پر ڈالنے کی بجائے ایسی عورتوں کو بھی اس بزنس ڈیل کا کچھ سہرا باندھنا چاہیے ۔محبوب سے ،دولت ، عہدہ اور شہرت مل جائے تو بس محبت کی طلب کو ختم کر دیتی ہیں۔یہ بزنس ڈیل آجکل عام ہے ۔
مگر” تو جہ کی طالب شہزادی “نے “بے تو جہی” پر مفاہمت نہیں کی ۔ اس نے سب آسائشیں ٹھکرا دیں اور با آواز بلند پو چھا” محبت کہاں ہے” ؟ شہزادے!! تمھارا وقت کہاں ہے ؟ خالی ٹین کا شہزادہ بس کھڑ کھڑ بجتا رہا ۔۔۔۔۔۔اور شہزادی ٹوٹ کر بکھر گئی ۔
وہ جان گئی کہ کہانیوں کی کتاب کے شہزادے کا اس دنیا میں کوئی وجود سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہاں کے شہزادے تو خود سے ہی محبت میں گرفتار ہیں اور جو عورت ان سے محبت مانگے اسے باہر کر کے اس عورت کو قریب کر لیتے ہیں جو ان سے محبت کا ناٹک کرے یا دعوی کرے۔اور اپنے وجود کے سارے اختیارات اسی داسی کو سونپ دیتے ہیں ۔ اور جس دن وہ عورت بھی کسی جسمانی یا ذہنی بیماری کی وجہ سے انہیں خوش کر نے کے قابل نہیں رہتی ، اسے بھی ایک منٹ ضائع کئے بغیر دل سے نکال باہر کرتے ہیں ۔
ایسی کڑوی حقیقتیں جان کے شہزادی کی disneylandصحرا میں بدل گئی ۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر کھانے کا مرض ہو گیا ،محبت جب پیاسی رہ جائے تو پیٹ کی بھوک بن جاتی ہے ۔ سو وہ بھی BULIMIAکا شکار ہو گئی ۔۔۔
یہ کیفیت شائد ہر بے وفائی سہنے والے پر طاری ہوتی ہے ، اس پر بھی ہو گئی ۔
جسمانی قتل کی سزا موت ،تو رو ح کو مسخ کر نے والوں کی سزا بھی موت سے کم کیا ہو ؟
دھوکہ کھانے والا سب سے بڑی غلطی اُس وقت کرتا ہے جب وہ ایک دھوکے کو بھولنے کے لئے ، اس نازک وقت میں کسی اور کا سہارا لینے کی کوشش کر تا ہے ۔ مگر نہیں جانتا کہ “پہلا دھوکہ” ایک ایسی دلدل ہو تی ہے جس کے بعد انسان اس میں صرف دھنس ہی سکتا ہے ، باہر آکر دوبارہ سے تازہ ہوا میں سانس نہیں لے سکتا۔ ۔شہزادی بھی شائد “محبت کی تلاش” کی ایک نا ختم ہو نے والی دلدل میں دھنستی چلی گئی ۔
اسکی گورنس کے مطابق وہ کہانیاں جو محبت کے جھوٹے خواب دکھاتی ہیں ، سن سن کر شہزادی محبت کے ایک شہزادے کے انتظار میں ہی رہی ۔
شائد اس دنیا میں چارلس جیسے خود غرض مردوں کا تناسب 98% اور ڈیانا جیسی سچی اور مخلص عورتوں کا تناسب اب شائد 2%ہے ۔کیونکہ عورتوں نے بھی مردوں کی نفسیات ،اوقات اور فطرت کے ساتھ دنیاوی فائدوں کی خاطر compromiseکی ایسی ٹھانی ہے کہ مرد اب اپنی خود غرضی پر شرمندہ ہو نے کی بجائے اسے اپنا حق سمجھ کر سینہ پھلائے پھرتے ہیں ۔ اور کیوں نہ ہو جب کہ دنیا کا ہر مذہب ، ہر کلچر, مرد کو ہی” اپنا آپ “خوش کر نے کا درس دیتا ہے ۔ بات مشرق کی ہو یا مغرب کی، صدیوں کے بعد بھی ،گھما پھرا کر” عورت “کا مفہوم “صحت مندی کی دوائی” سے ذیادہ کچھ نہیں نکلا ۔
اور ہر قسم کا ڈاکٹر نسخے میں ڈٹ کے لکھ کے دیتا ہے کہ جو دوائی کام کی نہیں رہی ، اس کی expiry date سے پہلے بھی اسے کوڑے میں پھینکا جا سکتا ہے ۔اے مرد سب تیرے اختیار میں ۔

دستک
روبینہ فیصل
qrubina25@gmail.com

Advertisements
julia rana solicitors

www.rubyfaisal.com

 

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply