• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان اور اچھائی پر مبنی مستقبل کی امید۔۔نذر حافی

پاکستان اور اچھائی پر مبنی مستقبل کی امید۔۔نذر حافی

جھگڑا چھوٹا سا ہے۔ بصارت اور بصیرت کی لڑائی ہے۔ پاکستان میں جب بھی کوئی سانحہ ہو جائے تو میرا ایک دوست مجھے تعزیتی پیغام ضرور بھیجتا ہے۔ اس کی کسی نہ کسی سطر میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ پاکستان بنا کر آپ لوگوں کو کیا ملا؟ ہمیں جو ملا ہے، وہ اُسے دکھائی نہیں دیتا اور اُسے جو دکھائی دیتا ہے، اسے ہم نے دل و جان سے قبول کرکے ہی پاکستان بنایا تھا۔ وہ کیا جانے پاکستان کیا ہے؟ ہمارے لئے پاکستان محض 22 کروڑ کی آبادی پر مشتمل مِٹّی کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ ایک آزاد وطن کا وژن ہے۔ ہم نے یہ وژن صرف کاغذوں اور کتابوں سے نہیں بلکہ قائداعظم اور علامہ اقبال کی عملی جدوجہد سے لیا ہے۔ میرا دوست یہ نہیں جانتا کہ علامہ اقبال کے وژن کے مطابق:
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں

اقبال نے یہ صرف کہا نہیں بلکہ اس کی بنیاد پر پاکستانیوں نے بطورِ قوم اپنا وطن حاصل بھی کیا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کے جغرافیے کی بنیاد خون کی لکیر پر قائم ہوئی ہے۔ لہذا اب پاکستان میں بہنے والا خون اس لکیر کو پھر سے دھو دے گا۔ اسی طرح اُس کا خیال ہے کہ پاکستان بے روزگاری، مہنگائی، افلاس اور معاشی مشکلات کی وجہ سے جلد یا بدیر پاش پاش ہو جائے گا۔ اُس کو بڑی امید ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں مردہ باد امریکہ کے نعرے اور امریکہ و یورپ کے ساتھ محاذ آرائی پاکستان کو مہنگی پڑے گی۔ یہ سب کہتے ہوئے وہ زمینی حقائق بھول جاتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ پاکستان کی بنیاد خون پر نہیں بلکہ رائے عامہ پر رکھی گئی تھی۔ پاکستان نے جمہوریت اور عوامی رائے کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ سرحدوں کے تعین کے وقت جن لوگوں نے رائے عامہ پر شب خون مارا، وہ عالمِ انسانیت اور جمہوری اقدار کے مجرم ہیں۔

پہلی بات تو میرے دوست کو یہ ماننا چاہیئے کہ رائے عامہ اور جمہوریت ہی اتنی بڑی طاقت ہے کہ جس سے پاکستان متولد ہوا۔ دوسری بات بھی میرے دوست کو ذہن نشین کرنی چاہیئے کہ پاکستان نے جنم ہی مالی و معاشی مشکلات میں لیا ہے اور اپنی ابتداء سے ہی اس بادِ مخالف کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ پاکستانیوں کیلئے اقتصادی مشکلات کوئی نئی مشکلات نہیں ہیں، ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے نئی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ تیسری بات جو میرے دوست کے ذہن سے نکلی ہوئی ہے، وہ پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی حقیقت ہے۔ زمینی حقائق کے مطابق پاکستانیوں کا نظریاتی خمیر دنیا کے دیگر ممالک سے انتہائی مختلف ہے۔ تہتر برس پہلے جن لوگوں نے نظریاتی طور پر پاکستان کو قبول کیا تھا، وہ خالی ہاتھ ہونے کے باوجود اپنے زمانے کے سب سے بڑے استعمار برطانیہ کے سامنے ڈٹ گئے تھے۔

پاکستانیوں کی نس نس میں استعمار کی دشمنی رچی بسی ہے۔ برطانیہ جیسے بوڑھے استعمار کے بعد امریکہ جیسے جوان استعمار کی بالا دستی کو بھی پاکستانی عوام نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کشمیر، فلسطین، عراق، افغانستان اور یمن کے مسئلے کو ہی لیجئے۔ عوامی سطح پر اگر کشمیر، فلسطین، عراق، افغانستان اور یمن کے حق میں کوئی موثر آواز بلند ہوتی ہے تو وہ پاکستان کے عوام ہی کرتے ہیں۔ آج یہ جو پاکستان کی اسمبلی میں مردہ باد امریکہ کی آواز گونج رہی ہے، یہ پاکستانیوں کیلئے کوئی نئی آواز نہیں ہے۔ یہ بھی ایک زمینی حقیقت ہے کہ یہ آواز پاکستانی عوام کی آواز ہے، جو پہلی مرتبہ پاکستان کے ایوانوں اور سیاستدانوں کی زبان پر آئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

1947ء میں استعمار سے آزادی حاصل کرنے کے بعد آج سرکاری سطح پر مردہ باد امریکہ کا نعرہ ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ گذشتہ تہتر سالوں میں ہم لوگ علامہ محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کے افکار سے منحرف نہیں ہوئے۔ رہی مشکلات کی بات تو قائداعظم اور علامہ اقبال نے جس راستے کا انتخاب کیا تھا، وہ مشکلات کا راستہ ہی تھا۔ ہم نے بطورِ قوم قائداعظم اور علامہ اقبال کے وژن کی تکمیل کیلئے مشکلات میں سے گزرنا ہے، مشکلات کو دیکھ کر وژن کو تبدیل نہیں کرنا۔ ہم نے قائداعظم، علامہ اقبال اور تحریکِ پاکستان کے شہداء سے یہی سیکھا ہے کہ بدترین حالات اور مشکلات میں قوم کو اچھائی پر مبنی مستقبل کی امید دلائی جانی چاہیئے۔ قنوطیت اور مایوسی یعنی pessimism کی تھیوری پر کسی الگ کالم میں بات کریں گے۔ موجودہ حالات میں اس پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قنوطیت کا doctrine کیا ہے اور اقوام کیسے قنوطیت کا شکار ہوتی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply