• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پیارے ہم وطنو! اپنی آپ دیکھنا، کورونا سے جنگ میں حکومت پر نہ رہنا۔ (حصہ دوئم) ۔ ۔ غیور شاہ ترمذی

پیارے ہم وطنو! اپنی آپ دیکھنا، کورونا سے جنگ میں حکومت پر نہ رہنا۔ (حصہ دوئم) ۔ ۔ غیور شاہ ترمذی

کوشش یہی تھی کہ کورونا وائرس کی موذیت کے دوران حکومتی کارکردگی پر تنقید کرنے کی بجائے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے  خاتمے  اور اِس کے علاج کے لئے عامۃ الناس کی آگاہی کے لئے ہی لکھا جائے مگر ہماری حکومت نے اس نازک وقت میں بھی صحیح فیصلے نہ کرنے کی روش کو جاری رکھا ہوا ہے۔ اس لئے مجبوراً  اپنے کالم ’’پیارے ہم وطنو! اپنی آپ دیکھنا، کورونا سے جنگ میں حکومت پر نہ رہنا‘‘  کا دوسرا حصہ لکھنے پر مجبور ہوا ہوں  ۔ ہماری مرکزی حکومت اور ہمارے وزیراعظم صاحب ایک بات میں تو خاص مہارت رکھتے ہیں کہ کبھی بھی صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنے کی غلطی نہیں کرتے۔ پہلے کی بات اور تھی مگر کورونا وائرس نے پوری دنیا میں کہرام مچا رکھا ہے۔ یہ اتنا خطرناک وائرس ہے کہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک اور سب سے بڑی سپر پاور امریکہ میں آج تک 5 لاکھ 25 ہزار لوگ اس جان لیوا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں اور 20 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ریکارڈ ہو چکی ہیں۔اسی طرح اٹلی میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 19 ہزار سے زیادہ، اسپین میں 16 ہزار، فرانس میں 13 ہزار، برطانیہ میں 10 ہزار اور پوری دنیا میں 1 لاکھ 8 ہزار سے زیادہ ہے۔ ترقی یافتہ ترین ممالک میں اگر انسانی جانوں کے ضیاع کی حالت یہ ہے تو آئندہ آنے والے دنوں میں حکومتی حماقتوں کے نتیجہ میں ہماری کیا حالت ہو سکتی ہے، اسے سوچ کر ہی روح کانپ جاتی ہے۔ ہم غلطی کی گنجائش بالکل نجی نہ ہونے کے باوجود غلطی پر غلطی کرتے جا رہے ہیں جس کا ازالہ عوام کو جانوں کے نذرانوں سے کرنا پڑے گا۔

تحریک انصاف کی حکومت ہر صحیح فیصلہ کرنے میں اتنی دیر کر دیتی ہے کہ بے اختیار زبان سے نکل جاتا ہے کہ ’’ہمیشہ دیر کر دیتے ہو تم‘‘۔ پاکستان میں جب کرونا وائرس کے کیسز آنا شروع ہوئے تو تحریک انصاف حکومت نے لاک ڈاؤن کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر یکا یک سب سے پہلے بندرگاہیں اور گڈز ٹرانسپورٹ بند کرنے کا حکم جاری کر دیا جبکہ ملکی سرحدیں اور ائیر پورٹ نہ صرف کھلے رہے بلکہ اس معاملہ میں انتہائی غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ کورونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کو علیحدہ کرنے کی ذمہ داری ان اداروں کو دے دی گئی جو ایسے احکامات کو دیہاڑی لگانے کی خوش خبری سمجھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شکایات موصول ہونا شروع ہو گئیں کہ ائیر پورٹ پر تعینات اہلکار 6 ہزار روپے لے کر کسی بھی مسافر کو جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ ان دیہاڑوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر سے آنے والے پاکستانی پورے ملک میں پھیلتے چلے گئے جن میں کرونا وائرس کے مریضوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔ دوسری طرف بندرگاہوں کی بندش سے نقصان یہ پہنچا کہ جو عام ادویات بھی پاکستان میں تیار کی جاتی ہیں مگر ان کا خام مال (Active Pharmaceutical Ingredient) دوسرے ممالک سے درآمد کیا جاتا تھا، اُس کی سپلائی بند ہو گئی۔ ہمارے یہاں عام روزمرہ  زندگی میں ہینڈ سینی ٹائزر جو کہ عام حالات میں اتنا استعمال نہیں ہوتا تھا اس لئے طلب کے مطابق ہی اس کا خام مال درآمد کیا جاتا تھا۔ لیکن موجودہ حالات میں طلب اچانک سے زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کے خام مال کی ملک میں قلت پیدا ہوتی چلی گئی اور آج وہ بھی نایاب ہو چکا ہے۔ کلینیکل اور سرجیکل ماسک پاکستان میں تیار ہوتے تھے مگر اس کو تیار کرنے کے لئے جس کپڑے کی ضرورت پڑتی ہے وہ درآمد کیا جاتا تھا۔اس بندش سے سب کچھ ٹھپ ہوتا چلا گیا۔ اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ادویات بنانے والی کمپنیوں نے ریاست کو خبردار کر دیا ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کا معاملہ تو دور کی بات ہے، شاید اب ہمارے پاس پیناڈول کی بھی شدید قلت ہونے جا رہی ہے کیونکہ تمام ادویات کے خام مال کا سٹاک ختم ہو رہا ہے۔ اس وارننگ کے بعد وفاقی وزارت صحت کو احساس ہوا تو انہوں نے گڈز کی آمدورفت کی اجازت دے دی لیکن اس وقت آرڈر آنے میں کچھ وقت لگے گا اور تب تک کورونا وائرس سے لڑنے کے لئے ہماری مکمل تیاری نہیں ہو گی۔ ’’ہمیشہ دیر کر دیتے ہو تم‘‘۔

جب کورونا وائرس کے کیسز آنے شروع ہوئے تو جن ممالک نے فوراً ایکشن لیتے ہوئے پورے ملک میں لاک ڈاؤن کر دیا، وہ اِس موذی وباء سے بہت حد تک محفوظ ہو چکے لیکن جنہوں نے غفلت کا مظاہرہ کیا ، وہ آج روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں لاشیں اٹھا رہے ہیں۔ اٹلی،امریکہ،اسپین اور فرانس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ صرف آج کی تاریخ میں امریکہ نے کم از کم 1,300 اموات ہوئی ہیں۔ اسی طرح اٹلی میں 600 سے زیادہ، فرانس میں بھی 600 سے زیادہ اور برطانیہ میں 900 سے زیادہ اموات ہوئی ہیں اور یہ دن ابھی مکمل نہیں ہوا۔ اگرچہ پاکستان میں اب تک صرف 77 اموات ہی کورونا سے ریکارڈ کی گئی ہیں جن میں 11 صرف آج کے دن ہی ہوئیں۔ کورونا وائرس کی شروعات سے آج تک ایک ہی دن میں یہ سب سے زیادہ  اموات ہیں۔  بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں آج کے دن تک 50 مریضوں کی حالت بہت تشویش ناک ہے۔ اب تک کی بہتر صورتحال کے باوجود بھی کچھ غیر جانبدار طبی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صورتحال شدید تشویش ناک ہو سکتی ہے اور اگر امریکہ میں ہونے والی اموات ایک لاکھ سے زیادہ بڑھ چکی ہیں تو پاکستان میں یہ تعداد 10 لاکھ سے زیادہ اموات تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ ان حلقوں کے مطابق چونکہ کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین آنے میں ابھی بہت وقت لگے گا، اس لئے فی الحال اس بھیانک صورتحال سے بچنے کا واحد طریقہ مکمل اور مؤثر لاک ڈاؤن کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔

مگر اس کے باوجود بھی ہمارے یہاں بھی لاک ڈاؤن نہیں کیا گیا اور پاکستان میں بھی اُسی طرح غفلت کا مظاہرہ کیا گیا جس طرح امریکہ، اٹلی، سپین، فرانس اور برطانیہ میں ہوا۔ اوّل تو وفاقی حکومت بشمول وزیراعظم صاحب لاک ڈاؤن کے حق میں ہی نہیں تھے پھر نجانے کیا ہوا کہ صوبوں نے معاملے  کی نزاکت کو سمجھا اور انفرادی طور پر ہر صوبہ لاک ڈاؤن کا اعلان کرتا چلا گیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کہتے رہے کہ ہمیں کم از کم 15 دن پہلے لاک ڈاؤن کرنا چاہیے تھا مگر کہیں اس کا کریڈٹ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو نہ مل جائے، ہمارے وفاقی وزراء اور وزیر اعظم صاحب لاک ڈاؤن کی مسلسل مخالفت بھی کرتے رہے اور اسے لگاتے بھی رہے۔ دوسری طرف ہماری عوام کی جہالت اور ریاستی اداروں کی لاپرواہی کہ اتنے زیادہ دن گزر جانے کے باوجود بھی لاک ڈاؤن پر آج تک سنجیدگی سے عمل نہیں کیا گیا۔ اگرچہ کاروبار اور تعلیمی ادارے تو روز اول سے ہی بند ہو گئے تھے مگر مذہبی مقامات اور مساجد میں وہی پہلے کی طرح ہی اکٹھ ہوتے ہیں۔ مارکیٹوں میں لوگ ویسے ہی نظر آتے ہیں۔ باجماعت نمازیں بھی ادا ہو رہی ہیں اور جمعہ کے اجتماعات بھی ہو رہے ہیں۔ کراچی میں جب پولیس نے ایسے ہی نماز جمعہ کے ایک اجتماع کو روکنے کی کوشش کی تو نمازیوں نے پولیس پر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں خاتون پولیس آفیسر زخمی ہو گئیں۔ ہماری لاپرواہیوں اور کاہلی  کا یہ عالم تھا کہ ہمارے اداروں نے تبلیغی اجتماع کو بھی سنجیدگی سے لینے کی کوشش نہیں کی جہاں لاکھوں افراد نے شرکت کرنی تھی۔ یہ اجتماع قوم کے لئے بہت بڑا کورونا بم بن سکتا تھا، اسے روکا جانا چاہیے تھا مگر جس نے بھی اس کی مخالفت کی تو اس پر لادینیت اور فرقہ پرستی کے الزامات لگا دئیے گئے۔ حتیٰ کہ  سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی تو باقاعدہ کمر ٹھوک کر تبلیغی جماعت کی حمایت میں کھڑے ہو گئے۔ ہماری ایسی ہی بے اعتدالیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ کورونا وائرس ایک سے دوسرے فرد میں نہایت آسانی سے منتقل ہوتا رہا اور اب جا کر ان غفلتوں کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں کہ جہاں مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے وہیں ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ مریضوں میں بہت زیادہ اضافہ سے متعلق تو خود وفاقی حکومت کہہ چکی ہے کہ اگر لاک ڈاؤن پر سنجیدگی سے عمل نہ کہا گیا تو اپریل کے اختتام تک پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد 5 ہزار سے بڑھ کر 70 ہزار بھی کراس کر جائے گی جس کے بعد اس میں اتنی تیزی سے اضافہ ہو گا کہ ہم دیکھتے ہی رہ جائیں گے او ر ملک میں ایک کہرام برپا ہو جائے گا۔

حکومت کو یہ  بات کون سمجھائے کہ غریب طبقہ کا جو نقصان ہونا تھا وہ تو لاک ڈاؤن میں ہو چکا ہے۔ ہر قسم کے کاروبار بند ہیں، فیکٹریاں بند ہیں۔ جو حالات چل رہے ہیں اس سے نظر یہی آ رہا ہے کہ غریب طبقہ کی ہمت تو جواب دے ہی چکی ہے لیکن اگر یہی حالات مزید چند ہفتے رہے تو سفید پوش طبقہ بھی بھوک سے نڈھال ہو جائے گا کیونکہ پہلے بے فائدہ لاک ڈاؤن میں روزگار بند تھا اور اب یہ بھی نہیں معلوم کہ حالات کس نہج پر پہنچتے ہیں۔تعمیراتی کام بند ہیں تو غریب طبقہ کا روزگار تو اب بھی ٹھپ ہے پھر سخت لاک ڈاؤن یا ہلکا پھلکا کرفیو لگانے میں ہچکچاہٹ کس بات کی۔ ریاست کا جو رویہ نظر آ رہا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہلکے پھلکے لاک ڈاؤن سے حالات سدھرنے کے بجائے مزید بگڑ جائیں گے اور بالآخر آخری فیصلہ کرفیو ہی ہو گا لیکن اگر وزیراعظم صاحب وقت پر فیصلہ کرتے ہوئے پہلے دن ہی اپنے خطاب میں کرفیو کا اعلان کر دیتے تو اب تک ریاست کو حالات کی سمجھ آ چکی ہوتی کہ ملک میں کرونا وائرس کتنا پھیلا ہے اور اس سے کیسے نمٹنا ہے؟۔ اگر آج سے 15 دن پہلے اس طرح سنجیدگی دکھاتے تو ہم آج اس ہنگامی صورتحال سے باہر نکل رہے ہوتے۔ ’’ہمیشہ دیر کر دیتے ہو تم‘‘۔ امریکہ میں صدر ٹرمپ نے بھی یہی غلطی کی اور آج امریکہ میں مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور ابھی امریکی انتظامیہ نے آئندہ دو ہفتوں کو امریکہ کے لئے مشکل ترین وقت قرار دیا ہے۔

پاکستان میں ویسی ہی غفلت دکھائی جا رہی ہے کیونکہ ابھی تک ریاست کی طرف سے اس وباء سے نبٹنے کے لئے کوئی جامع پالیسی سامنے نہیں آئی سوائے اس کے کہ ہمیں چندہ دو یا ہم ٹائیگر فورس بنائیں گے۔ اس ٹائیگر فورس کو بنانے میں وقت لگے گا اور پھر ان کو ان کی ڈیوٹی سمجھانے کے لئے کم از کم ایک ہفتہ درکار ہو گا۔ یعنی کل مل ملا کے اس فورس کو عملی میدان میں آنے کے لئے ایک مہینہ چاہیے ہو گا لیکن تب تک کرونا وائرس کس حد تک پھیل چکا ہو گا اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ حکومت کے پاس اس قسم کی وباء سے نمٹنے کے لئے پہلے سے ہی پولیو ورکرز کی شکل میں ایک تربیت یافتہ ٹیم موجود ہے جنہیں اس مہم کے لئے کم وقت میں موثر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن تحریک انصاف کو تو اپنی یوتھی فورس کو کام پر لگانے کا شوق ہے اس لئے وہ بھلا کسی کی صحیح بات بھی کیوں مانیں گے؟۔ بالفرض اگر ٹائیگر فورس میں 10 لاکھ لوگ رجسٹرڈ ہو جائیں اور ان کو کام کرنے کے لئے پیٹرول اور کھانے کا خرچ 300 روپے روزانہ دیا جائے تو ایک دن میں تقریباً  30 کروڑ روپے خرچ کیے جائیں گے۔ اگر یہ لاک ڈاؤن 15 دن تک مزید رہے گا تو یہ خرچہ 4 ارب 50 کروڑ روپے تک چلا جائے گا۔ جبکہ اگر یہی 4 ارب 50 کروڑ روپے میں سے 3،000 روپے فی خاندان دیئے جائیں تو 15 لاکھ خاندانوں کو مہینے بھر کا راشن تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ہماری وفاقی حکومت مگر اپنی عقل نیچے رکھ کر اوپر بیٹھی ہوئی ہے اور اپنے نوجوان ووٹروں کو کوئی کام دینے کے لئے عوام او رملک کا بیڑا غرق کروا لیں گے۔ حضور عالی، کنفیوژن نہ پھیلائیے۔ آپ یہی کام لاکھوں سرکاری اساتذہ سے کیوں نہیں کراتے جو پہلے ہی تنخواہیں بھی لے رہے ہیں اور مردم شماری کے علاوہ مختلف سروے کر کر کے کافی تجربہ بھی حاصل کر چکے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ذرا چشم تصور سے اس ٹائیگر فورس کے بارے میں سوچیے کہ 30 کروڑ روپے روزانہ میں صرف پٹرول اور کھانے کی مد میں پڑنے والی اس فورس کے لئے کروڑوں روپے ٹی شرٹس پر بھی خرچ ہوں گے ۔ تاریخ یاد رکھے گی کہ عوامی چندے پر پارٹی کی پبلسٹی لینے کے لئے بنائی جانے والی اس ٹائیگر فورس کا جب وزیرا عظم اعلان کر رہے تھے تو اُس وقت تک جعفریہ ڈیزاسٹر سیل (جے ڈی سی)، سیلانی ٹرسٹ ، عالمگیر ٹرسٹ ، ایدھی ٹرسٹ، چھیپا ٹرسٹ ، الخدمت فاؤنڈیشن ، انصار والے اور دیگر ادارے اپنے وسائل سے کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے خرچ کرچکے تھے۔ جس وقت عوام کے چندہ سے بننے والے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال میں کورونا وائرس کا ٹیسٹ تقریباً  10 ہزار میں ہو رہا تھا، اُس وقت تک کئی ہسپتال فری ٹیسٹ کر رہے تھے ۔ پٹرول عالمی مارکیٹ میں سستا ترین ہوگیا تو بھی اسے سستا کرنے کی بجائے اسے تقریبا‘‘ 93 روپے فی لٹر تک رکھ کر تحریک انصاف حکومت عوام کی کھال اتارنے میں مصروف تھی۔ اس طرح کی حرکتوں کو چھوڑئیے اور یاد رکھیے گا جو ٹائیگر فورس آپ بنا رہے ہیں وہ تحریک انصاف کو شدید ترین نقصان سے دوچار کرے گی۔ اپنے نوجوان، جذباتی اور عقل سے ماورا کارکنوں کو فری ہینڈ دے کر آپ اسے بیوروکریسی کے سامنے کھڑا تو کر دیں گے مگر یہ لوگ ہر جگہ اعلیٰ و ادنیٰ افسران سے الجھتے رہیں گے ، اداروں کو تہس نہس کر دیں گے۔ آپ کے یہ جذباتی کارکن شتر بے مہار بن کر کمشنر ، ڈپٹی کمشنر، ڈی آئی جی ، ایس ایس پی کے دفاتر میں گھس جائیں گے اور ہر جائز ناجائز بات منوا کر ہی دم لیا کریں گے۔ اس کا نتیجہ صرف اور صرف بیوروکریسی میں بے چینی پیدا کرے گا اور معاشرہ میں افراتفری پیدا ہو گی۔ ٹائیگر فورس پی ٹی آئی کو بدنامی اور مسائل کے علاوہ کچھ ڈیلیور نہیں کرسکے گی۔ ٹائیگر فورس غیر سنجیدہ ، مفاد پرست لوگوں کا ٹولہ بن کر اقرباء پروری ، من پسند لوگوں کو نوازے گی۔ یاد رکھیے گا کہ مزدوروں ، غریبوں اور مستحق افراد تک راشن پہنچانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔اس مقصد کے لئے بلدیاتی اداروں میں یونین کونسل کی سطح پر مستحق لوگوں کو منتخب کیا جائے، پولیو ورکرز اور اساتذہ کو استعمال کریں تاکہ حکومت کی دی جانے والی امداد کا مقصد پورا ہوسکے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply