کشمال کاکا۔۔ابرار خٹک

کشمال کا کا جب بھی یاد آتے ہیں، دل میں کمی سی محسوس ہوتی ہے اور پھر پہروں ان کے متعلق سوچنے لگتا ہوں۔حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے ، انسان معاملاتِ زیست میں کسی سے خوش یا دل برداشتہ ہوتا ہے ، تو کچھ ایسے بھی یادآنے لگتے ہیں جن کو گزرے ہوئے عرصہ بیت چکا ہوتا ہے۔خلوص ومحبت کے جذبات ہوں یا دکھ درد کی کیفیات، لوگوں کی بد عنوانیاں،تاجرانہ و خودغرضانہ رویے ہوں یاعدم برداشت اور منافقت،بچھڑے ہوئے تمام تر سچائیوں کے ساتھ مجسم ہوکر سامنے آکھڑے ہوتے ہیں،یہی وجہ ہے ،میں’’ کشمال کاکا‘‘ کو کبھی نہ بھول سکا۔
پشتو زبان سے نا مانوس قارئین کے لیے لفظ ”کاکا”شاید عجیب لگے کہ دوسری زبانوں میں جدا معانی رکھتا ہو مگر پشتونوں کے  تہذیبی اورسماجی پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو دماغ کی نسوں سے پاؤ ں کی آخری پوروں تک ،خون کی گردش اور دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آتے ہیں کہ ا س کا احاطہ وہی کرسکتے ہیں جو ا س لفظ کا تہذیبی شعور رکھتے ہوں۔

میرے لیے وہ کشمال کاکا تھے۔ان کا اصل نام کشمال خان تھا مگر لوگ ” کشمالو” کے نام سے پکارتے تھے۔غربت اورپیشہ بھی عجیب چیز یں ہیں،دولت پاس ہوتو ”کشمال خان”عزت’شرافت اور رعب و دبدبے کی علامت ہوتا ہے ،غربت ہو اور دیہاڑی دار ی پیشہ بن جائے تو کم ظرف ’’ خان ‘‘کو پاؤں تلے روندھ کر”کشمالو”بنا دیتے ہیں۔ حیف ایسی ذہنیت اور دوغلے پن پر ۔

ایک ایسی مسکراہٹ جو خراج کی رسیا ہو، نہ نیا ز کی طالب ،گرچہ ذہن کو کشمکش سے دوچار کردیتی ہے ،مگر دل اسے فوراً اپنی بانہوں میں لے لیتا ہے کہ اس کا ادراک وہی کرسکتا ہے جو رئیس الفہم ہے۔کشمال کا کا کی مسکراہٹ بھی نیاز کی طالب تھی نہ خراج کی رسیا،وہ سراپا خلوص تھے۔دل بلا توقف ان کے خلوص کی کشش کو اپنی بانہوں میں لے لیتا ۔ ان کے چہرے پر کوئی اور کیفیت جچتی ہی نہ تھی کہ بقیہ قسم کے تاثرات کے لیے کورا تھا ، ہاں!مگر مسکراہٹ سے وہ کتاب کی طرح کھل جاتا ،جس کی ہرجھلک دیکھنے والے کو خلوص و محبت کی سر سبز وادیوں میں دھکیل دیتی ۔

مجھے ورثے میں ا ن سے دو چیزیں ملیں،ایک کرپہ اور دوسری یادیں۔ یہ فیصلہ آج تک نہ کرسکا کہ وہ ”کرپہ”تھا یا کشمال کا کا کی محنت و مشقت کا بے زبان گواہ ،ان کی اَن مٹ یادیں میری یادداشت کی گہرائیوں میں پیوست ہیں اورکرپہ ۔۔۔؟کہنے کو تو وہ کبھی 4×6انچ کا ایک چمکتا لوہا ہوا کرتاتھا جس کے ساتھ لکڑی کا ایک مضبوط دستہ پیوست تھا ،تاہم زمین کا سینہ چیرتے چیرتے وہ اپنا سینہ بھی گنوا بیٹھا تھا۔ دستے کا گٹھیلا جسم اور بانکپن کشما ل کاکا کی سخت ہتھیلی اور کھردری انگلیوں کی خوراک بن کرقالب کی شکل اختیار کرکے ایک ایساڈھانچہ بن چکا تھاجس میں ہتھیلی اور انگلیاں نظر آتی تھیں۔وہ دستہ کم اورقالب زیادہ تھا کہ ان کے ہاتھ کی مکمل تصویر اس میں ابھر آئی تھی۔آپ دستے پر ہاتھ رکھتے تو ہتھیلی اور انگلیاں جیسے اس میں ڈھل جاتیں اور یوں محسوس ہوتا جیسے پہلی بار ہتھیلی کو قالب میں ڈھالنے کا اتفاق ہورہاہے۔وہ دستہ نہ تھا بلکہ کشمال کا کا کی ہتھیلی اور انگلیوں کی تصویر تھا جیسے فریم کرکے عجائب گھر میں سجایا جانا ضروری تھا۔وہ دستہ چونکہ صرف کشمال کا کا کی ہتھیلی اور انگلیوں کو ہی اپنے سینے میں ڈھال چکا تھا اس لیے دوسرا ہاتھ زیادہ دیر برداشت نہ کرسکتا تھا،بلکہ اجنبی ہاتھ خود ہی اس سے الگ ہوجاتا کہ وہاں مناسب جگہ نہ ملتی اور تنگی کا سامنا کرنا پڑ تا۔حقیقت یہ ہے کہ کسی دوسرے ہاتھ اور انگلیوں کی وہاں گشت ہی ممکن نہ تھی۔نیچے چار انگلیوں کی پوریں اور اوپر بڑی انگلی کے لیے مضبوط گڑھا۔یہ گڑھا صر ف کشمال کاکا کی فرہادی انگلی ہی کھود سکتا تھا۔وہ کسی غیر پیشہ ور کا کام نہیں ہوسکتا تھا۔کسی بھی پیشے کو تمام تر جزئیات کے ساتھ قبول نہ کیا جائے تو وہ محض روزگار تو بن سکتا ہے پیشہ یا پہچان نہیں اور شاید یہی کہیں پروفیشنلزم کے رنگ بھی اپنی تمام تر ابعاد کے ساتھ مل جاتے ہیں۔

کرپے کا لوہا سخت زمیں کھودتے کھودتے خود نرم ہوگیا تھا اور اس میں مزید کھدائی کا یارا باقی نہ رہا تھا۔ شاید سختی کا انجام بھی بالآخر نرمی ہے۔ہاتھ کمزور پڑ جائے تو چیرنے والے اوزار بھی عمر کے تقاضوں کی نذر ہوجاتے ہیں۔اب اس کرپے کی بھی یہی کیفیت تھی۔اس کی طبعی یا ریٹائرمنٹ کی عمر کب کی پوری ہوچکی تھی، مگر کشمال کاکا ”گوڈی”چھوڑنے پر تیار نہ تھے اور کرپہ کشمال کاکا کو۔وہ ان کے ہاتھوں میں ایسے ڈھل چکا تھا جیسے بقول پریم چند” مشین کے کل پرزے گھس گھسا کر ایسے فٹ ہوجاتے ہیں جس میں دوسرا پرزہ نہ لگایا جاسکے اور اس کے لیے پوری مشین کو بدلنا پڑ جائے۔”بعینہ کشمال کاکا کے ہاتھ بھی کسی اور کرپے کے پکڑنے کی تاب لانے سے قاصر تھے ،یہی معاملہ کرپے کے ساتھ بھی تھا کہ کسی اور کے ہاتھ کا روادار نہ تھا۔
کشمال کاکا نہ رہے تو میں نے وہ کرپہ اخبار میں لپیٹا اور ایک دوست کی دکان پر امانتاً رکھ دیا۔کچھ عرصے بعد اسے اپنے گھر لے آیا اور صندوق میں رکھ دیا۔گھر والوں کو کرپے کی یہ عزت ایک آنکھ نہ بھائی۔جس سماج میں نقلی مخمل و کمخواب کا بسیرا ہواور صورت کو سیرت پر ترجیح دی جاتی ہو،وہاں ”کرپے ”کی کیا حیثیت ۔؟رخت پرستوں کی سلطنت میں ایسی بت پرستی کیسے؟۔یہ ایک ایسا جرم تھا جسے کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا تھا،لہٰذا وہی ہوا کرپے کو اس کے اصل کام پر لگا دیا گیا ،مگر وہ بھی وفادار نکلا ۔فوراً ہی کھیت میں اپنے آپ کو گم کردیا ۔بسیار تلاش کیا مگر اب وہ ہاتھوں میں کب آنے والا تھا؟وہ محض ایک کرپہ نہ تھا ،ایک ایسا نقش تھا جس پر کشمال کاکا کی ہتھیلی اور انگلیاں ہی نظر نہیں آرہی تھیں بلکہ اس پر ان کی محنت اور ایمانداری کی داستان بھی کندہ تھی۔جو کرپہ کسی اور کا ہاتھ برداشت نہ کرسکتا وہ مزید تماشا کیوں بنتا؟گم نامی قبول کرلی مگر کسی اور کے دستِ ستم کا روادار نہ ہوا،اب پتا چلا بعض لوگ حسرت سے کیوں کہتے ہیں کاش میں کوئی بے جان چیز ہوتا؟

گھر کی طرف ان کی واپسی عصر کے بعد ہوتی ۔میری اور ان کی ملاقات اکثر دریا کے کنارے شیشم کے گھنے درختوں کے سائے میں ہوتی ۔میں سائے میں بیٹھ کر امتحان کی تیاری کرتا اوروہ دوسرے مسافروں کی طرح کشتی کا انتظار ۔کشتی عموماً دریا کے اس پار ہوتی اور یوں ہماری ملاقات کا موقع نکل آتا۔وہ جونہی قریب پہنچتے اپنی مخصوص مگرنحیف آواز میں السلام علیکم کہتے،ساتھ ہی ان کے ہاتھ میں جو کچھ بھی ہوتا،میری طرف بڑھا کر کہتے ”بابو صیب!دا تاسو یوسی”(بابو صاحب یہ آپ لے جائیں)میں مسکراہٹ کے ساتھ ان کا شکریہ ادا کرتا۔گرمی ،سردی،بارش، بلاناغہ وہ دو تین کلومیٹر پیدل چل کر دریا پار کرتے اوران کھیتوں کی طرف آتے ۔ہر کوئی ان کو کام پہ رکھنے کے لیے تیار ہوتاکہ ان میں بے ایمانی تھی نہ غیبت و انکار،لڑائی کرتے نہ تکرار،جو کچھ ملتالے لیتے،کمی بیشی پر ناراض ہوتے نہ شاکی۔یہی وجہ ہے کہ بہت سارے موقع پرست ان کی حق تلفی بھی کرلیتے۔مگر کشمال کاکا بھی عجیب تھے، انھوں نے ساری سرمایہ کاری آخرت کے لیے کررکھی تھی،اورسب کچھ اسی کھاتے کی نذر کرتے رہے ،کہ ایسے لوگوں سے ٹکر لینا انھیں اپنی ذات کا خسارہ معلوم ہوتا تھا۔

طویل عرصہ انھیں کھیتوں میں ایمانداری اور جسمانی طاقت کے مطابق کا م کرتے دیکھتا رہا،کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا کاش! میرے پاس بڑی دولت ہوتی اور میں کشمال کاکا ‘کا دامن اس سے بھر لیتا!مگر آج سوچتا ہوں کہ شاید یہی غربت ان کی شان تھی کہ دولت مند ہوکر بہت سارے لوگ اپنے عیوب، ریا کاری یا چالاکی میں چھپانے کی کامیاب یا ناکام کوشش کرتے ہیں،مگر کشمال کا کا اس عیب ہی سے آزاد تھے۔

کاکا آپ مہینے میں کتنا کما لیتے ہیں؟میں نے ایک روزان سے پوچھا۔روزانہ مزدوری ملے تو تقریباً 3000اور اگر ناغے آجائیں تو پھر کم۔اس وقت میں بھی ایک تعلیمی ادارے میں پڑھا رہا تھا،میں نے اپنے ادارے کے پرنسپل عبداللہ صاحب سے کشمال کا کا کو مالی کی اسامی پررکھنے کی درخواست کی جو انھوں نے فوراً قبول کرلی اور یوں کشمال کا کا، کھیت سے چمن اور کیاریوں میں آئے، جہاں زیادہ سخت کام نہ کرنا پڑتا۔کام ہلکا تھا ،پودوں کی جھاڑ پونچھ اور پانی دینا ۔اس طرح مجھے بھی ان کے متعلق خوشی ہونے لگی، انھیں کالج میں دیکھ کر بڑی طمانیت کا احساس ہونے لگتا۔کرپہ ان کے ہاتھ میں ہوتا اور کیاریوں میں گوڈی کرتے یا پودوں کو پانی دیتے۔ہر ایک کوسلام ،دوسروں کے کاموں سے لاتعلق ، کسی نے آواز دی تو متوجہ ہوئے وگرنہ اپنے کام اوردنیا  میں مگن۔

منحنی جسم،سرخ و سپید چہرہ ،ہلکے آبرو،پلکوں اور ڈاڑھی کے بال پیدائشی سفید،سر کے بال کھیتوں میں کب کے جھڑ چکے تھے ۔کٹے دانت گویا کسی نے بلیڈ سے کاٹ کر سوان سے تیز کیے ہوں۔ کھردرے ہاتھ،جلد پھٹی،ہتھیلی لوہے کی مانند سخت،پاؤں میں پلاسٹک کے بوٹ،آہستہ چال،قدم یوں رکھتے گویا گیلی زمین میں جارہے ہیں۔ غربت میں سخاوت کی جھلک دیکھنی ہوتی تو کشمال کاکا سراپا سخاوت تھے۔ان کے اخلاق کے سامنے بڑے بڑے مغروروں کو زیر اور سخاوت کے سامنے ریاکاروں کو موم کی طرح پگھلتے دیکھا۔ان کی نوکری کو ابھی ٢٠ دن بھی نہ ہوئے تھے کہ ایک صبح پتا چلا بیماری کی وجہ سے ڈیوٹی پہ نہیں آرہے۔ ان پر فالج کا شدید حملہ ہوا تھا اور ہسپتا ل میں زیرِ علاج تھے۔ اسی دن ان کی موت بھی واقع ہوئی اور عصر کے بعد جنازے میں آخری بار ان کوسکون سے سوتے دیکھا ،مطمئن ،فرحاں و شاداں۔

وہ کرپہ یادگار بھی تھا اور گواہ بھی۔بے جان چیزیں کسی کی محنت ،دیانت کی گواہی دیتی ہیں تو اس سے بڑا صلہ اور اعتراف اور کیا ہوسکتا َہے؟اس کے سامنے نوبل، تمغۂ امتیاز ،حسنِ کارکردگی اوردیگرقومی وبین الاقوامی اعزازات بے معنی ہو کررہ جاتے ہیں مگر کیا کیجیے کہ دنیامیں معیار کے پیمانے یہی تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ اعترافات اکثر تعلق و مفادات ، کاسہ لیسی ، چاپلوسی،تقریر وتحریر و تصویر، اخبارات و رسائل اور میڈیا کے مرہونِ منت ہوتے ہیں اور کشمال کا کا کے پاس ان میں سے کوئی بھی ہتھیار یا سہارا نہ تھا۔کاش کوئی ایوارڈ کشمال کاکا اور ان جیسے بے شمار لوگوں کی شخصی و پیشہ ورانہ خوبیوں کا اعتراف بھی کرسکتا اوران کی کیفیات و احساسات کا ادراک و احاطہ بھی؟

سارا دن اپنی محنت اور ایمانداری کھیتوں کی نذر کرکے وہ خوش تھا کہ اس کا صلہ ان کو اللہ کے ہاں ملے گا۔گھر سے منہ اندھیرے نکلتا اور واپس آتا تو اندھیر ا ہر طرف چھا چکا ہوتا۔اندھیرے سے اندھیرے تک کا یہ سفر یونہی جاری رہتا۔دن رات کا چکر ان کے گردگھومتا اور کشمال کاکاان دائروں میں سفر کرتے۔وہ محنت اورایمانداری ہی کو اپنی قسمت سمجھتے رہے،شاید اکثر غریبوں کی قسمت بھی محنت وایمانداری سے شروع ہوتی اور اسی پر ختم ہوتی ہے ،کتنے مالدارہوتے ہیں یہ غریب بھی؟ قناعت کی دولت بھی اللہ کی بڑی دین جس کے لیے قدرت کم ہی لوگوں کا انتخاب کرتی ہے اور کشمال کا کا ان میں سے ایک تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بیس سال ہونے کو آرہے ہیں۔وہی رستے،وہی کھیت،دریا اور کشتی۔شیشم کے درخت بھی اسی طرح ایستادہ ا ور صبح و شام کی گردشیں بھی وہی ۔جن کھیتوں سے میرا بچپن،لڑکپن اورجوانی وابستہ رہے اور جس دریا کے کنارے بیٹھ کر کتاب اور میں، گہرے رشتوں میں پیوست ہوئے تھے،آج وہاں کھڑا ہوکر دیکھتااور سوچتا ہوں تو جگہ اور اشیا وہی ہیں بس لوگ گزرگئے ہیں۔وہ لوگ ، وہ بزرگ جن کی گود میں ہم پلے، بڑھے اور جوان ہوئے،جن کی صحبت میں تربیت ملی،جن کے رویوں نے ہمارے فکر وذہن کی آبیاری کی اور جن کے کرداروں نے ہمیں محبت ، مروت،عاجزی،ایثار و قربانی سکھائی ۔کتنے ہی چہرے ذہن کے پردے پر آئے،جن کو ہم ڈھونڈتے ہیں ،پکارتے ہیں مگر آواز دینے والا کوئی نہیں ؟ان چہروں میں سے ایک چہرہ ’’ کشمال کا کا ‘‘کا بھی ہے مگر ۔۔؟
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے؟a

Facebook Comments

ابرار خٹک
میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ۔ مری تمام سرگزشت کھوۓہوٶں کی جستجو۔۔۔(اقبال)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply