ینگ وکلا یا بھکاری۔۔۔ حیدر سید

وکلاء بھکاریوں کا گروہ نہیں، علامتاً ہی سہی اسے پروفیشن آف لارڈز کہا جاتا ہے۔ ہماری جیبیں خالی بھی ہوں تب بھی ہم کوٹ ٹائی پتلون پہن کر باوقار طریقے سے بار روم میں کروڑوں اربوں روپے رکھنے والے وکلاء کے ساتھ برابری کی سطح پر بیٹھتے ہیں۔ دو ویگنیں بدل کر کچہری آنے والا وکیل اور مرسڈیز پر روز آنے والا وکیل دونوں ایک ہی جیسے وقار کے ساتھ عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔ ہمارا پروفیشن وہ واحد پروفیشن ہے جس میں آج بھی سماجی رتبے کی بنیاد پر باہمی تعامل نہیں ہوتا ،نہ تعلقات اس بنیاد پر بنتے ہیں۔ خواجہ حارث، حامد خان اور اعتزاز احسن بھی بار روم کے انہی صوفوں پر بیٹھ کر چائے پیتے ہیں جہاں ایک بالکل نیا وکیل بھی بیٹھا ہوتا ہے۔ اور آج بھی یہ صرف ہمارے پروفیشن کی روایت ہے کہ ایک سینئر وکیل بار میں اپنے آس پاس موجود ہر وکیل کی چائے یا کھانے کے پیسے اپنی ذمہ داری سمجھ کر دیتا ہے۔

ایک یہ عزت نفس ہی تو ہمارا مان ہے جسے کچھ لوگ جانے انجانے میں پامال کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کسی نے مستحق وکلاء کی ایک شرلی چھوڑی اور باقی سب اسی کے پیچھے لگ گئے۔ کہاں ہے بار کونسل؟ کہاں ہیں امیدواران؟ وغیرہ۔

اور عموماً اس کام کے لئے ینگ وکلاء کا نام استعمال کیا جارہا ہے۔ حالانکہ اگر ان کی دلیل کو پرکھا جائے تو ایک مڈل کیرئیر وکیل جس کے بچے ابھی سکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ جس نے ایک دفتر بھی کرائے پر لے رکھا ہے اور گھر بھی۔ وہ ینگ لائرز کی نسبت زیادہ مسائل میں ہوگا۔ پھر ینگ لائرز کی گردان کیوں ؟ اس لئے کہ ینگ لائرز جذباتی ہو کر اس آواز میں شامل ہو جائیں گے۔ پوسٹس کو لائکس کمنٹس اور شئیر مل جائیں گے۔

اس وقت بار میں تین چار ہزار کے قریب وکلاء پریکٹس کر رہے ہیں۔ جن کا ستر فیصد، تقریباً اکیس سو وکلاء بنتے ہیں۔ نوے فیصد وکیل ہر کچہری میں ہینڈ ٹو ماؤتھ ہی ہوتے ہیں۔ چلیں ہم ستر فیصد ہی فرض کر لیتے ہیں۔

اسلام آباد بار کونسل، ڈسٹرکٹ اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا سارا فنڈ بھی لے لیں آپ دو ہزار بائیس سو وکیلوں کو دس ہزار روپیہ فی وکیل بھی نہیں دے سکتے۔

اچھا دوسری آپشن یہ دی جاتی ہے کہ صرف مستحق وکلاء کو دے دیں۔ اور ان کے نام ظاہر نہ کریں۔

یہ کون طے کرے گا کہ مستحق وکیل کون ہے ؟ سب اپنا اپنا سی وی جمع کروائیں گے۔ پھر ایک کمیٹی ان کے حالات کا موازنہ کر کے طے کرے گی کہ مستحق کون ہے اور کون نہیں ؟
اور پرائیویٹ طور پر تو یہ ممکن ہے کہ نام کہیں نہ لکھے جائیں مگر ایک ادارے کی سطح پر جہاں ہر سال خرچے کا آڈٹ بھی ہوتا ہے، یہ نام لکھے بھی جائیں گے اور بہت سوں کے علم میں بھی آئیں گے۔ کم ازکم کیبنٹ کے علم میں تو لازماً۔
اس لئے کوئی بھی سفید پوش وکیل بار کو بطور مستحق وکیل اپنا نام نہیں لکھوائے گا۔

اب اس کا حل کیا ہے ؟
اس کا حل یہ ہے کہ پہلے تو یہ مستحق وکلاء والی گردان بند کی جائے۔ ہم ایک بہت کلوز ریلیشن رکھنے والی کمیونٹی ہیں۔ ہم میں سے ہر وکیل کم ازکم دس بارہ وکلاء کے حالات سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے۔ اگر کوئی وکیل خود سے کسی کی مدد نہیں کر سکتا تو فنانشلی کسی تھوڑے سے بہتر وکیل دوست کو ذاتی طور پر کہہ کر ان کی مدد کر سکتا ہے۔ اور ایسا ہوتا رہتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں۔

ویسے بھی اپنے فنانشل حالات کوئی جینوئن وکیل سینئر ہو یا جونئیر، وہ بار کے عہدیداروں کو نہیں بلکہ اپنے ذاتی دوستوں کو ہی بتائے گا۔ اس لئے پوسٹیں لگا کر وکلاء کمیونٹی کا مذاق بنانا ضروری نہیں۔ ایسا کوئی فنڈ اگر بن بھی گیا تب بھی صرف بیس پچیس جینوئن وکلاء اور دو ڈھائی درجن نان پروفیشنل ایسے وکلاء جن کا سارا سال کام ہی یہی ہے صرف وہی اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔

اور ینگ وکلاء کا نام لے کر ان کی مدد کرنے کے نعرے روز کا معمول کیوں بن چکے ہیں ؟

Advertisements
julia rana solicitors

ینگ وکلاء بار میں امداد مانگنے نہیں وکیل بننے آئے ہیں۔ مگر ہمارے ہر الیکشن کا جیسے یہ بنیادی منشور بن چکا ہے۔ کبھی ینگ وکلاء کو کمیشن اپوائنٹ کروانے کی باتیں ہوتی ہیں کبھی ان کو وظیفہ دینے کی باتیں ہوتی ہیں۔ حضور وہ وکیل بننے آئے ہیں آپ انہیں وکیل بنا دیں۔ پیسے وہ خود کما لیں گے اور آپ سے زیادہ کما لیں گے۔ جس جونئیر کو آپ آج وظائف اور کمیشنوں کی آس میں رکھیں گے تو پھر بار کے کسی بھی سینئر سے پوچھ لیجیے گا، وہ وکیل پندرہ سال بعد بھی وکالت کرتا نہیں بلکہ کمیشن اور آکشن ہی ڈھونڈتا نظر آئے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply