جب پٹھان آپ کو “پٹھان “بنا کر چلا جائے۔ ۔رابعہ الرّباء

اجی واقعہ کچھ یوں ہے کہ
یہ یونیورسٹی میں فلم کا سیکنڈ لاسٹ ڈے تھا ۔ہم نے سوچا ہفتہ ہے ،آج ٹکٹ مل جائے گا، دیکھنے والے مووی دیکھ چکے ہونگے۔ آن لائن چیک کیا،سب بکنگ ہو چکی تھی سوچا “یار کل جا کر کے لے لیں گے۔یا فلم دیکھ لیں گے یااپنی بن جائے گی”
دوست کو بتایا کہنے لگی “سوچ لو ابھی بھی وقت ہے”
یار اتنا نہیں سوچا کرتے فیصلہ کر لیا کرتے ہیں۔
اپنے  مطابق ہم نے اسے کہہ دیا تم آجانا آرام سے ہم جلدی جا کر ٹکٹ کا بندوبست کر لیں گے۔
لیجیے ہم صبح جتنی جلدی نکل سکتے تھے،گھر سے یونیورسٹی روانہ ہو گئے۔
یونیورسٹی پہنچے تو ابھی صفائی  والے بھی نہیں آئے تھے ۔خزاں کے پتے جابجا اپنے حسن پہ نازاں تھے،ہونا بنتا  بھی تھاِان کا دورِ  حکومت تھا ،اور ہم ان کے عاشق ہوئے جا رہے تھے ۔
مین گیٹ سے تو انٹرہو گئے، رستے میں ایک گارڈ نے روک لیا۔
ابھی تو بہت گھنٹے ہیں۔ ہم نےنقاب کشائی (ماسک اتارتے)التجا کی۔ سر اَب میں واپس تو اتنی دور نہیں جا سکتی۔
ماسک اترنے کی دیر تھی۔ساتھ والے گارڈ نے مسکرا کر کہا
“اولڈ راوین”
“جی”
انہیں جانے دو۔جائیں آپ کالج میں گھومیں جب تک فلم نہیں لگتی۔
اندر داخل ہوئے۔
اُ ف خزاں اپنے جوبن پہ تھی۔ ہوا کے جھونکے سے پتّے کبھی یہاں تو کبھی وہاں اِترائے اِترائے پھر رہے تھے۔
کسی  پتّے  پہ پاؤں آ جاتا تو اک سریلی سی دل ٹوٹنے کی آوازآتی۔
دور دور تک کوچہ خالی والی سی بات تھی۔ ۔
مگر اتنا ہی حسین ،جیسے یہ گیت ہے۔دل کے نہاں خانوں سے ہوتا روح تک اُتر جانے والا۔
فلم دیکھنے کی تمنا گرچہ اس سمے ماند پڑ گئی  تھی۔تنہائی  کا یہ حسن زندگی کی گہما گہمی سے بھی زیادہ حسین تھا۔سوچتے رہے آگے بڑھتے گئے۔ یار کتنی تمنا تھی،یہ جگہ ہو اور تنہائی  ہو،اب تو علم تھا، آنے والے سب لیٹ آئیں گے۔
ہم جیسے بے خبرے اس حسن دلفریب  منظر کے لئے منتخب ہو چکے ہیں تو اس کو انجوائے کرنا ہم پہ کم از کم واجب ہوگیا ہے۔
کہ
زندگ لمحے جی لینے کا نام ہے۔
بس یہ جو تنہائی  کے دو گھنٹے ہیں یہ اپنے ہیں
سارا کالج گھوم گھام کر ہم اولڈ ہال کے سامنے رکھی ایک تنہا میز پہ چڑھ کر بیٹھ گئے۔
اور موسم کا، نظاروں کا لطف لطیف لینے لگے۔
زندگی جی سی اٹھی تھی۔وقت تھم سا گیا تھا کیف چھا سا گیا تھا۔سحر طاری ہو گیا تھا۔خواب کو تعبیر مل گئی  تھی۔سانس چھن چھن کے آ رہی تھی۔خزاں زدہ بہار بھی مسکرا رہی تھی کہ موسم انسان کے اندر کی کی کیفیات ہیں۔باہر سے اس کا خاص لینا دینا نہیں۔
یونہی بیٹھے کوئی  آدھ گھنٹہ گزر گیا۔ایک لڑکا جو جاناپہچانا لگا اس طرف آ رہا تھا،وہ پہنچا دروازہ کھولنے لگا تو دروازہ بند تھا۔
ہم نے اسے پوچھ لیا “بیٹا ٹکٹ ؟”
مادام وہ تو کل ہی ختم ہوگئی  ہیں۔ آپ کو کل رات کی مل جائے گی ۔
“ارے نہیں نہیں کل رات کس نے دیکھی،(کہ ہمیں پتا تھا کل ہم شہر میں ہی نہیں ہونگے )
ہم تو آج ہی مووی دیکھ کر جائیں گے ۔چاہے تم ڈبل بلیک میں ٹکٹ دو۔
تو ہنسنے لگا
“رواین ہیں ؟”
اچھا آپ ڈیرھ گھنٹہ بعد بخاری آ جائیے گا۔ میں وہیں  ہوگا میں نہ ہوا تو ٹیم کا کوئی  ممبر ہو گا۔آپ کو ٹکٹ کا ارینج کر دیں گے ۔کوشش کریں گے نیچے ہی جگہ مل جائے۔ ورنہ گیلری میں جانا پڑے گا۔
ہم تو پہلے گیلری کی نیت خراب کئے بیٹھے تھے۔
“نہیں مجھے دو ٹکٹ چاہئیں”
وہ ہنستے ہوئے کہنے لگا۔ آپ بس وقت پہ بخاری پہنچ جائیے گا۔
اب وقت ہو نے میں وقت تھا۔ وہ تو اپنے کام دھندوں میں مصروف ہو گیا۔
ہم وہیں میز پہ بیٹھے رہے۔ابھی دور دور تک جی سی یو کی عمارت اور میدان موسم و فطرت کا مزہ  دے رہے تھے۔ ابھی زندگی کی گہما گہمی سو رہی تھی کہ اچانک ایک پٹھان زادہ ادھر کو آ نکلا
“میڈم آپ یہاں پڑھاتی ہو؟”
“نہیں ”
“وہ آپ یوں یہاں بیٹھی ہو تو ہم سمجھا پڑھاتی ہو ۔”
اب اس کا یوں بھی ہمیں کچھ سمجھ نہ آیا کہ ہم تو درخت کی شاخ پہ بھی ہوں تو یوں کسی نے نہیں بولا۔
“میڈم ٹکٹ کہاں سے مل رہا ہے ؟”
سنا تو ہے یہیں سے مل رہا تھا یابخاری سے۔لیکن اب سنا ہے ٹکٹ نہیں ہیں۔ ”
“مطلب ٹکٹ نہیں ہے؟”
“آپ بھی فلم دیکھنے آیا ہے؟”
“ہاں ناں اگر ٹکٹ مل گیا تو۔۔”
“اچھا بخاری کس طرف ہے ہم وہاں دیکھتا ہے”
ہم نے اسے بخاری کا رستہ بتا دیا۔ اور کہا
“سنواگر ٹکٹ مل رہا ہو تو مجھے بھی بتا دینا، میں بلیک میں لینے تو بھی تیار ہوں ”
تو بہت معصومیت سے کہنے لگا
“ہمارے پاس تو دو ٹکٹ ہے۔ہم یہاں پڑھتا ہے۔فرسٹ ائیر میں ۔”
یہ کہہ کر بخاری کا رستہ لے لیا۔
ایک لمحے کو تو ہم دیکھتے ہی رہ گئے۔
“اوئے ۔۔۔۔۔مطلب۔۔۔۔یار۔۔۔ حد ہے”
اتنے میں ایک حیرت ہنسی میں بدل گئی، کہ میری دوست سامنے سے آتی دکھائی دی۔اسے پہلے ہی بتا چکی تھی کہ فلاں جگہ بیٹھی ہوں۔وہیں آ جانا۔
دور سے ہی ہنستے ہو ئے موبائل سیٹ کر کے کہنے لگی “یونہی بیٹھی رہو۔”
اور
یہ یاد گار لمحہ اپنے موبائل میں قید کر کے پوچھنے لگی
“اب بتاؤ  کیا ہوا؟
اکیلی بیٹھی کیوں ہنس رہی ہو۔کوئی  لطیفہ ہو گیا ہو گا۔ ”
بیس سال پرانی سہیلی ہی جان سکتی ہے لطیفے نے ہونے کے لئے مجھے منتخب کر رکھا ہے۔
تب میں نے اسے بتایا پٹھان مجھے یوں “پٹھان”بنا کر چلا گیا ہے تو خوب ہنستے ہوئے بولی   😅
“آؤ چائے پیتے ہیں۔ “

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply