ادارتی صفحات میں قحط النساء

پاکستانی اخبارات کے ادارتی صفحات میں خواتین لکھاری بہت کم دکھائی دیتی ہیں جو کہ تشویش ناک امر ہے، تاہم یہی سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اس مسئلے پر خود خواتین بھی بہت کم لکھتی ہیں۔پاکستانی میڈیا میں 90 فیصد ادارتی مواد مرد لکھتے ہیں اور لامحالہ طور سے اس میں مردوں کا موقف ہی بار بار نمایاں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ دنوں پاکستان کے تین نمایاں اخبارات کے ادارتی صفحات کا جائزہ لیتے ہوئے میں نے یہ دیکھا کہ 99 فیصد ادارتی مواد مردوں کا لکھا تھا۔ میں ان حضرات کی رائے اور طریق کا مکمل احترام کرتی ہوں مگر مجھے ان صفحات پر مردوں کی اکثریت دیکھ کر خوشی نہیں ہوئی۔

میری نظر میں پاکستانی پرنٹ اور آن لائن میڈیا میں خواتین کے بیانیے کی کمی انتہائی افسوس ناک ہے۔ پاکستانی میڈیا خصوصاً اس کے ادارتی حصوں میں شائع ہونے والے خواتین کے بیانیے کی رفتار حقوق نسواں کے روشن خیال نظریے کے تناظر میں کسی طور تسلی بخش قرار نہیں دی جا سکتی۔ یہ رفتار ناصرف کم از کم قابل قبول درجے سے بھی نیچے ہے بلکہ بعض اوقات اخبارات میں خواتین کی تحریریں سرے سے ہی غائب ہوتی ہیں جبکہ ایڈیٹر حضرات بھی اس جانب کوئی توجہ نہیں دیتے۔صحافتی میدان میں خواتین کے بیانیے کی طاقت اور اثر ناگزیر حیثیت رکھتا ہے اور اس کا آغاز 19ویں صدی کی صحافت میں ہی ہو گیا تھا۔ خواتین لکھاریوں نے ناصرف رائے عامہ تشکیل دی بلکہ انتہائی مشکل اور غیریقینی حالات میں بھی حکومتوں پر اثرانداز ہوئیں۔ بعض اوقات انہوں نے میڈیا میں صنفی درجہ بندی کے خلاف آواز بھی اٹھائی اور اس میں تبدیلی کا باعث بنیں جیسا کہ 1980 کی دہائی میں فلپائن کی خواتین صحافیوں اور لکھاریوں نے کیا تھا۔

فلپائن میں 1972 کے مارشل لا کے بعد اخباروں کی خواتین لکھاریوں نے صدر فرڈیننڈ مارکوس کی حکومت اور پالیسیوں کے خلاف زوردار انداز میں قلم اٹھایا۔ اس وقت فلپائن کے میڈیا کے بارے میں فخریہ کہا جاتا تھا کہ یہ ایشیا کا آزاد ترین میڈیا ہے۔ مگر ان دنوں اس میڈیا نے وہ سختیاں دیکھیں جن کا اسے پہلے کبھی سامنا نہیں ہوا تھا۔اس موقع پر خواتین لکھاریوں نے اپنے مضامین کے ذریعے آمر کے سیاسی جبر کا اس قدر ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ ملک کے بڑے بڑے اخبارات نے اپنے ادارتی صفحات کے لیے زیادہ سے زیادہ خواتین لکھاریوں کی خدمات لینا شروع کر دیں۔ 1980 کی دہائی میں فلپائن کے میڈیا میں ایسی خواتین مدیر، لکھاری اور تحقیقی صحافی سامنے آئیں جنہوں نے میڈیا کی شکل اور مستقبل کے لوگوں کی سوچ ہی بدل کر رکھ دی۔

پاکستانی میڈیا کو بھی ایسی ہی کایاکلپ درکار ہے خصوصاً آج اس کی ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے کہ خواتین اور ان کے مسائل جس طرح حکومت، عوام اور میڈیا کی توجہ کا مرکز ہیں اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ادارتی صفحات اخبار کا سب سے پراثر حصہ ہوتے ہیں جنہیں پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کیا اور کون اہم ہے اور کس کی بات اہمیت رکھتی ہے۔ جو لوگ ان صفحات پر شائع ہونے والے مواد کے اثرات سے آگاہ ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ الفاظ حکومتوں کو کیسے ہلاتے ہیں، مباحث کو کیسے جنم دیتے ہیں اور جواباً متعلقہ لوگوں کو کیسے حرکت میں لاتے ہیں۔چنانچہ اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے ایڈیٹر حضرات خواتین کو اخبارات کے اس قدر بااثر صفحات سے دور اور یوں تاریخ و سماجی سیاسی ارتقائی عمل سے خارج رکھتے ہیں۔کم از کم ترقی پسند سوچ کے حامل میڈیا اداروں کو اس صنفی امتیاز اور تضاد کا ضرور خاتمہ کرنا چاہیے۔ خواتین کو بااختیار بنانے اور حقوق نسواں کے حامی اداروں کو خاص طور پر اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایکسپریس ٹریبیون میں شائع شدہ عائشہ حسن کے انگلش مضمون کاترجمہ( محمد فیصل)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply