لنگوٹ پوش گینگ۔۔عزیز خان

یہ 1987 کی بات ہے میرا تبادلہ بہاولپور سے رحیم یار خان ڈسٹرکٹ میں ہوچکا تھا دس دن جوائننگ ٹائم گھر گزارنے کے بعد میں نے پولیس لائن رحیم یار خان میں اپنی حاضری کروائی ان دنوں مرزا یاسین SSPہوا کرتے تھے۔میری کوشش تھی کہ میرا تبادلہ تھانہ لیاقت پور ہو جائے۔لیا قت پور احمد پور شرقیہ سے تقریباََ 45کلومیٹر دورہے مگر اس محکمہ میں ضروری نہیں کہ آپکی ہر خواہش پوری ہو۔۔پھروہی ہوا میرا تبادلہ تھانہ رکن پور کردیا گیا۔

ان دنوں میرے پاس سوزوکی Fxکارہوا کرتی تھی جس میں میری یونیفارم و دیگر ساز سامان ہوا کرتا تھا یہ کار میرا گھر بھی تھی۔ شام 6بجے مجھے بتایا گیا کہ میرا تبادلہ تھانہ رکن پور ہو گیا ہے اورمیں نے آج ہی تھانہ پر اپنی حاضری کرنی ہے۔میں نے پولیس لائن میں تعینات ملازمین سے تھانہ رکن پور کے بارے میں معلوم کیا کہ  وہ کدھر ہے مجھے بتایا گیاکہ رکن پور رحیم یار خان سے تقریباََ 60کلومیٹردورہے۔ KLPروڈ پرپہلے سردار گڑھ آئے گااس کے بعد وہاں سے تقریباََ 10کلومیٹر اند ر ذیلی سڑک پہ تھانہ رکن پور ہے۔میں نے اللہ کا نام لیا اور روانہ ہو گیا۔

ان دنوں KLPروڈ پر دو طرفہ ٹریفک ہوتی تھی سڑک کا بھی بہت برا حال ہوتا تھا۔دو گھنٹے کی مسافت کے بعد میں سردار گڑھ پہنچا اور وہاں سے رکن پور تھانہ کی طرف روانہ ہو گیا۔تقریباََ45منٹ بعد ایک نہر کاپل آیاجس پر میں رک گیا رات کا وقت تھا ہر طرف گپ اندھیرا تھا پل پر ایک آدمی سے ملاقات ہوئی جس نے پوچھنے پر بتایا کہ آپ تھانہ دوکلومیٹر پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔۔۔ واپس جائیں۔۔۔ میں نے اپنی کار واپس موڑ لی اب میں دونوں جانب دیکھے جا رہا تھاکہ تھانہ کب آئے گا آخر کار مجھے ایک کچی سی دیوار کیساتھ بورڈ لگا دیکھائی دیا جس پرتھانہ کی بجائے دارلامان لکھا ہوا تھااور اس کے نیچے ملک خدا بخش SHOکا نام بھی لکھا ہوا تھا۔

تھانہ کی بلڈنگ کافی پرانی لگ رہی تھی۔بلڈنگ کے اردگرد اونچے اونچے درخت تھے۔عجیب ویرانی سی تھی محرر تھانہ کے کمرے میں لا لٹین جل رہی تھی محرر نے بتایا یہاں بجلی کبھی کبھی آتی ہے۔ میں نے تھانہ کے رجسٹر نمبر 16میں اپنا نام لکھا۔ اس طرح کے ماحو ل میں رہنا میرے لیے بالکل ناممکن تھا۔ابھی میں وہاں موجود ہی تھا کہ وائرلس آپریٹر نے بتایا کہ آپکا تبادلہ تھانہ ظاہر پیر ہو گیا ہے۔میں نے خدا کا شکر ادا کیا تھانے کے روزنامچے میں روانگی کی اور واپس رحیم یار خان روانہ ہوگیا۔رحیم یار خان پہنچ کر مجھے پھر بتایا گیا کہ میرا تبادلہ تھانہ لیاقت پور ہوگیا ہے۔شایدکمشنر بہاولپور کی سفارش کام آگئی تھی۔

تھانہ لیاقت پورمیں محمد طفیل وٹو انسپکٹرSHOتعینات تھے۔ جو انتہائی سمجھ دار پولیس آفیسر تھے میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا کہ کس طرح اپنا کام کیا جاتا ہے اورکس طرح اپنے ماتحتوں سے کام لیا جاتا ہے۔وہ پورے مہینے کے اعداد وشماربلمقابل اپنی میز کے شیشے کے نیچے رکھ لیا کرتے تھے اور ہر جمعہ میٹنگ میں تمام تفتیشی افسران سے ان کی کارگردگی کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور اس طرح تھانے کی کارگردگی بہتر ہوتی تھی۔

قاضی خالد لطیف لیاقت پور کے DSP/SDPOتھے۔طفیل وٹواور ان کی آپس میں نہیں بنتی تھی ایک دن مجھے قاضی خالد لطیفDSP نے بلوایااور کہنے لگے آپکا SHOمجھے سے بے ایمانی کرتاہے تھانہ میں جو شخص بھی آئے اور SHOسے ملے آپ نے مجھے بتانا ہے۔ان کی بات سن کر میں پریشان ہو گیاکہ محکمہ پولیس میں اس طرح بھی ہوتا ہے کہ جونیئر سنیئر سے یا سنیئر جونیئر سے منافقت کرے۔لیکن باقی سروس میں مجھے اس بات کا بخوبی اندازہ ہو گیا کہ” کتا کتے کا گوشت نہیں کھاتا مگر پولیس والااپنے پیٹی بھائی کو اپنی پوسٹینگ یا لالچ کی خاطر نقصان پہنچا سکتا ہے “۔میں نے DSPصاحب کے سامنے حامی تو بھر لی مگر ساری بات جا کر SHOطفیل وٹو کا بتادی یہ بات بھی میں نے انھی سے سیکھی کہ اپنے Immediate Bossسے کبھی نہیں بگاڑنی چاہیے اگراپنے immediate Bossسے تعلق اچھا ہو توملازمت میں کم نقصان ہوتا ہے اوراس طرح میں DSPکا مخبرنہ بنا۔
لیاقت پور بڑا پرامن شہر تھا وارداتیں بھی بہت کم ہوتی تھیں۔لیکن اچانک ہی شہر میں گھر لوٹنے کی مسلسل دو وارداتیں ہو گئیں۔رات کو پانچ، چھ لنگوٹ پوش افراد گھر میں گھس جاتے اور اسلحہ کے زور پر خواتین سے زیورات و گھریلو سامان لوٹ کر لے جاتے تھے۔طفیل وٹو صاحب خاصے پریشان تھے باوجود گشت و ناکہ بندی بڑھانے کے ایک رات میں دو وارداتیں اور ہو گئیں۔سردیوں کے دن تھے دوپہر کو گشت پر معمور دو کانسٹیبل ایک مشتبہ آدمی کو پکڑ کر تھانہ لے آئے۔جس سے کاربین (پستول)برآمد ہوئی تھی۔ SHOصاحب تھانہ پر موجود نہ تھے میں تھانہ کے صحن میں دھوپ میں باہر بیٹھا ہوا تھا۔مشتبہ شخص کو لاکر میرے سامنے کھڑا کردیا۔میں نے اسکا نام پوچھا تو اس نے اپنانام چراغ دین بتایا۔میں نے اسکی رہائش پوچھی تو بولا بہاولپور سندھ میں رہتا ہوں میں نے پوچھا بہاولپور کس جگہ، بولا مجھے نہیں پتہ بہاولپور کہیں بھی رہ جاتا ہوں اکثر دوکانوں کے باہر پھٹوں پہ سو جاتا ہوں۔ایک گھنٹہ تک میں اسکے ساتھ مغزماری کرتا رہا لیکن چراغ دین اپنے بیان پر بدستور قائم رہا۔

ابھی میں چراغ دین سے تفتیش کر ہی رہا تھا کہ SHOطفیل وٹو تھانہ کے گیٹ سے اند رداخل ہوئے وہ صبح کے رحیم یار خان گئے ہوئے تھے انھیں SSP نے انہیں وارداتوں کے سلسلہ میں بلوایا تھا ان کی شکل سے لگ رہا تھا کہ SSP نے ان کی خوب عزت افزائی کی ہے۔کیونکہ ہم سب باہر ہی بیٹھے ہوئے تھے وہ سیدھا میری طرف ہی آگئے میں نے انھیں چراغ دین کے بارے میں بتایا جسکی شکل دیکھنے کے بعد بولے یہ تو مجھے اوڈبھٹی قوم کا فردمعلوم ہوتا ہے اوراوڈبھٹی ہی اس طرح کی وارداتیں کرتے ہیں جو آج کل لیاقت پور میں ہو رہی ہیں۔ وٹو صاحب نے چراغ دین سے پوچھنا شروع کیا مگر چراغ دین تھا کہ اپنے بیان سے تھوڑا سا بھی ادھر ادھر نہیں ہو رہا تھا۔اس کا بیان وہی تھا کہ بہاولپور (سند ھ) میں رہتا ہوں جبکہ بہاولپور سند ھ میں واقع نہ تھا۔آخر کار پولیس کی وہی روایتی تھرڈ ڈگری کا استعمال کرنا پڑا مختلف حربے استعمال کیے گئے مگر چراغ دین پر اسکا کوئی اثر نہ ہورہاتھا اوروہ اپنے سابقہ بیان پہ قائم تھا۔

پایسےحالات میں اکثر یہ دیکھاجاتا ہے کہ پولیس افسران غصہ میں کوئی ایسی حرکت کر جاتے ہیں جس سے مشتبہ پر غیر ضروری تشددہو جاتا ہے اور لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔مگر وٹو صاحب بڑے آرام و تحمل سے اس سے تفتیش کرتے آدھا گھنٹہ کے لیے چھوڑ دیتے پھر بلا کے تفتیش کرنا شروع کر دیتے۔

آخر ہم سب کی کوششیں رنگ لائیں رات تقریباََ10بجے چراغ دین بول پڑا اس نے اپنا اصل نا م عارف بتایاوہ اوکاڑہ کا رہنے والا تھا اسکی قوم واقعی اوڈ بھٹی تھی وٹو صاحب کا شک صحیح تھا۔ اسکے سسرال چک نمبر 142علاقہ تھانہ لیاقت پور میں رہائش پذیر تھے۔اس کی بیوی بھی اپنے میکے آئی ہوئی تھی۔ عارف نے ساری وارداتیں تسلیم کیں۔اپنے ساتھیوں کے نام بھی بتائے یہ بھی بتایا کہ باقی ملزمان اسکے قریبی رشتہ دار ہیں جن میں اسکا ایک سالہ بھی ہے۔اسکے حصہ کے زیورات و نقدی بھی اسکی بیوی کے پاس موجود ہیں۔وٹو صاحب فوری طور پر تیار ہوگئے

ہم سب چک نمبر 142کی طرف روانہ ہوگئے۔سوائے سنتری اور محرر کے پورا تھانہ ہی ساتھ تھا۔تقریباََ ایک گھنٹہ کی مسافت کے بعد چک 142پہنچے چک کے بالکل آخر میں اوڈبھٹیوں کے گھر تھے کیونکہ ہرطرف اندھیرا تھا اور یہ لوگ اپنے کمروں میں سوئے ہوئے تھے۔ہم نے باہر سے کمروں کے دروازوں کو کنڈیاں لگا دئیں اور پھر ایک ایک کمرہ کی تلاشی لینا شروع کی گھر میں کوئی مرد نہ تھاصرف دوجوان عورتیں اور ایک بوڑھی عورت موجود تھی۔عارف نے بتایا کہ یہ اسکی بیوی اور ساس ہیں جبکہ تیسری عورت کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتا رہا۔گھر کی تلاشی سے کچھ زیورات بھی مل گئے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ عارف کے پکڑے جانے کا باقی لوگوں کو علم ہو گیا اور وہ ہمارے آنے سے پہلے ہی فرار ہوگئے تھے۔

وٹو صاحب نے عورتوں کو بھی ہمراہ لے لیا اور ہم واپس تھانہ پر آگئے صبح ہو چکی تھی۔ ہم سب کافی تھک چکے تھے مگر تھکن کے باوجود بھی ملزم عارف اور ان عورتوں سے تفتیش کرنی ضروری تھی ہم نے ان کو علیحدہ علیحدہ کرکے پوچھنا شروع کیا تو انکشاف ہوا کہ تیسری عورت عارف کی بہن ہے مگر عارف کسی صور ت میں یہ ماننے کو تیار نہ تھا۔تفتیش کے دوران یہ بھی انکشاف ہوا کے عارف کا سالہ اسکا بہنوئی بھی ہے۔ مگر کمال ہے عارف اوڈ کے حوصلے کی کہ اتنی مار کے باوجود وہ جھوٹ بولے جارہا تھا۔بقیہ ملزمان کے گھروں پرریڈکیے گئے مگر یہ اوڈ قوم اتنی ہوشیار ہوتی ہے کہ نا تو ان کی کوئی مستقل رہائش ہوتی ہے اور نہ ہی مستقل نام۔ان کے کئی کئی نام ہوتے ہیں ان کی برادری پورے پاکستان میں موجود ہے ان کو پکڑنا بڑا مشکل ہوتا ہے اور اگر یہ پکڑے بھی جائیں تو ان سے چوری کے مال کی برآمدگی بہت مشکل ہوتی ہے۔محمد عارف کو چالان کردیا گیا جبکہ باقی ملزمان میری پوسٹنگ تک گرفتار نہ ہو سکے اور انکے خلاف چلان زیر دفعہ 512ض ف بنا کر اشتہاری کردیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

میری پوسٹنگ میں پھر اس طرح کی کوئی سنگین واردات نہ ہوئی اور میں نے اپنے سنیئر سے یہ بات سیکھی کہ تفتیش میں تحمل کتنا ضروری ہے۔ اسی طرح سنگین مقدمات کے ملزمان پر اگر تھرڈ ڈگری کا استعمال بھی کیا جائے تو SHOیا سنیئر  پولیس آفیسر اپنی زیر نگرانی کریں۔نئے اور ناتجربہ کار پولیس افسران اکثر ملزمان پر بے تحاشہ تشدد کر کے خود کو مصیبت میں ڈال لیتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply