پاکستان میں بے روزگاری۔۔اسماعیل گُل خلجی

بے روزگار اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کوئی کام کرنا چاہتا ہو اور اس کام کی اہلیت بھی رکھتا ہو لیکن اسے کام نہ ملے ۔ بے روزگاری پاکستان کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے ۔ معاشرے  کے بگاڑ   میں  بے روزگاری نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ بے روزگاری کے باعث نوجوان یا تو گھر والوں پر بوجھ ہیں یا پھر معاشرے کے لیے نا سور ثابت ہو رہے ہیں ۔

جب دہشت گردی اور  سٹریٹ کرائمز  کی بات کی جاتی ہے تو ان کی وجوہات میں بے روزگاری کو اہم وجہ سمجھا جاتا ہے ۔ بے روزگار نوجوانوں سے دہشت گرد تنظیموں کے نمائندے رابطہ کرتے ہیں ان سے دوستانہ تعلقات قائم کرتے ہیں، اور ان کے والدین یا بال بچوں کی مالی ذمہ داریاں پوری کرنے کی یقین دہانی کرواتے ہیں اور پھر اپنے نظریات اور سوچ کے مطابق ان کی  برین واشنگ  کر کے انہیں دہشت گردی کی تربیت دیتے ہیں ۔

اسی طرح بے روزگار نوجوان مالی مشکلات کا شکار ہو کر چھوٹے موٹے چوری چکاری کے معاملات میں بھی ملوث ہو جاتے ہیں ، اور بعض اوقات نوجوان بے روزگاری کی  کشمکش کی وجہ سے خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ افسوس کہ  یہی وہ نوجوان ہیں جنہوں نے معاشرے کے لیے تعمیری کردار ادا کرنا ہوتا ہے مگر بے روزگاری کے عفریت کا شکار ہو کر سماج کے لیے زہر قاتل بن جاتے ہیں ۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے کی  ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کُل آبادی کا 64 فیصد اس وقت 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے، جبکہ 29 فیصد آبادی کی عمریں 15 سے 29 سال کے درمیان ہیں ۔

جاپان کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کیا جاتا ہے، 2014 کی  ایک رپورٹ کے مطابق اس کی کُل آبادی میں 33 فیصد افراد کی عمریں 65 سال سے اوپر ہیں ، 25 فیصد افراد کی عمریں 65 سال ہیں ،اور تقریباً 13 فیصد افراد کی عمریں 75 سال ہیں ۔  ۔ نوجوانوں کی کمی کے باعث وہ بہت سارے کام روبوٹ سے کرواتے ہیں جبکہ پاکستان کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے،اس کا مطلب ٹیلنٹ کی کوئی  کمی نہیں لیکن افسوس کہ اس ٹیلنٹ سے  کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ۔

پاکستان میں بے روزگاری کی ایک اہم وجہ ہمارا تعلیمی نظام بھی ہے۔ نظامِ  تعلیم میں سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ یہ کتابی تعلیم دے کر گریجویٹ بنانے پر زور دیتا ہے جبکہ ہنر مند افراد پیدا کرنے کی طرف کوئی  توجہ نہیں دی جاتی ۔ بی اے یا ایم اے کروانے والے 100 کالجوں کے مقابلے میں ایک ٹیکنیکل ادارہ بھی نظر نہیں آتا ۔

بے روزگاری کی ایک اور قسم بھی ہمارے ہاں دیکھنے میں آتی ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کام کرنا ہی نہیں چاہتے ۔ ان میں امراء  کے بچے بھی شامل ہیں ۔ جو اپنے دوستوں سے کہتے ہیں کہ میرے باپ کے پاس بہت پیسہ  ہے، مجھے کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اور یہ مناسب تعلیم حاصل نہیں کر پاتے ،یوں باپ کے بعد کاروبار کی تباہی کا باعث بن جاتے ہیں ۔ اور اکثر اوقات یہی نوجوان اپنے باپ کے پیسوں سے منشیات کے عادی بن کر اپنی زندگی برباد کرتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان میں 70 فیصد نوجوان روزگار کی کی خاطر تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پاکستان نا خواندگی کی فہرست میں دیگر ترقی پذیر ممالک میں سب سے اوپر آتا ہے ۔ خدا را! ہمارے نوجوانوں کو روزگار فراہم کریں، اور ان کی  صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر سماج کو ترقی کی جانب موڑ یے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply