بہار میں خزاں کی رُت۔۔ایم اے صبور ملک

ویراں  ہے میکدہ ،خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے روٹھ گئے دن بہار کے۔۔

فیض احمد فیض  نے اپنی مشہور زمانہ غزل کا یہ شعر غالباً آج کے د ن کے لئے ہی کہا تھا کہ جب ہر سُو ایک عجیب سی ویرانی چھائی ہوئی ہے ، پوری دنیا میں کاروبارزندگی بند ہے، ایک ننھے سے وائرس نے سائنس و ٹیکنالوجی کی نیّا ہی ڈبو دی، دسمبر 2019 میں چین کے علاقے ووہان سے شروع ہونے والی وبا دیکھتے دیکھتے پوری دنیا میں پھیل گئی، سائنس کے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے، ایک گولی سے لے کر ایٹم بم تک کے سارے جنگی ہتھیار اور سازوسامان دھرے کے  دھرے رہ گئے، سکیورٹی کے انتظامات بے کار ثابت ہوئے،بنی نو انسان قیدیوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگیا،کیا کبھی کسی نے سوچا تھا تھا کہ عالم انسانیت پر یہ دن بھی آئیں گے کہ جب سب کچھ ہوتے ہوئے بھی انسان اتنا بے بس ہو جائے گا نظام قدر ت اسی کو کہتے ہیں،۔

دنیا کے تمام مذاہب جواب دے گئے،د عائیں بے اثر گئیں، اور ماسوائے میڈیکل سائنس اور اللہ تعالی کے بنائے ہوئے قدرتی نظام کے کوئی بھی کام نہ اآیا، اسے کیا کہیے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی کہ جب ایک وائرس نے رنگ ونسل،زبان اور مذہب سے بالاتر ہوکر   ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جب چین میں یہ وباء پھوٹی تو اہل مذہب نے اسے خدا کا عذاب قرار دیا یا لیکن جب یہی وبا باقی دنیا میں پھیلی تو اسے اللہ کی آزمائش قراردے دیا گیا، اہل مذہب خواہ وہ کسی بھی مذہب سے ہو،اپنی روایتی ہٹ دھرمی،ضد اور انا کی وجہ سے کوئی بھی بات ماننے کوتیار ہی نہیں۔

اس وقت سب سے زیادہ تباہی کا سامنا اٹلی کو کرنا پڑرہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ اہل کلیسا کے وہ مذہبی پیشوا ہیں کہ جنہوں نے نے اٹلی کی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ لاک ڈاؤن کی مخالفت کرتے ہوئے کلیسا کو اس سے سے مستثنیٰ قرار دینے کی بات کی اور پھر جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے،وبا کو اللہ کا عذاب یا آزمائش کہنے سے کہیں بہتر تھا کہ عقل سے کام لیا جاتا، لیکن اس کے بعد  یہی وطیرہ سعودی عرب اور ایران نے اپنایا اوراپنے ملکوں میں آئے ہوئے عمرہ زائرین ور زیارتوں کے زائرین کو ان کے ملکوں میں واپس دھکیل دیا،اور اب بھی پاکستان میں مساجد بند کرنے اور جمعہ نیز باجماعت نماز ادا کرنے کی ضد پر قائم ہیں، وفاقی حکومت کی غلطی کی وجہ سے کہ جب تفتان میں زائرین آئے بجائے ان کو وہاں قرنطینہ کرنے کے، پورے ملک میں پھیلا دیاگیا اور اب سر پکڑے بیٹھے ہیں،بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے ہمارے تبلیغی بھائی بھی پیش پیش رہے،وہی غلطی جو کلیسا کے پیشواؤں نے کی،و ہی غلطی ہل حرم کے مولویوں نے بھی کردی۔

انتہا پسندوں  کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ ہر معاملے میں ٹانگ اٹکانا یہ اپنامذہبی فریضہ سمجھتے ہیں،بھلے ان کو کسی معاملے کی سمجھ بوجھ ہو یا نہ ہو، اور ان کے ڈھیٹ پن کی وجہ سے انسانیت کو  ہمیشہ ان کے ہاتھوں    خوارہونا پڑا، ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ اگر ہم نے ایک غلطی یہ کردی تھی کہ تفتان سے آنے والے زائرین کو پورے ملک میں پھیلا دیا، تو دوسری غلطی تو نہ کرتے،لاک ڈاؤن کے معاملے پر بھی کنفیوژن پیدا کر دی گئی، اسلام آباد کے سیانوں نے ہمیشہ فیصلہ کرنے میں دیر کی،ان کی نااہلی اور یوٹرن کی عادت کی وجہ سے نقصان پاکستان کے لوگوں کو اٹھانا پڑرہا ہے، کورونا وائرس کے معاملے پر پہلے مخالفت اور پھر سندھ حکومت کی پیروی ہی کرنی   تھی تو زیادہ بہتر تھا،کہ وزیر اعلیٰ  سندھ سے اس معاملے پر مشاورت کر لی جاتی، لیکن یہاں بھی اَنا آڑے آگئی ۔

اور جب لاک ڈاؤن ہوگیا تو پھر بھی جناب وزیر اعظم کو تین بار قوم سے خطاب کرکے پہلے کورونا وائرس کی تعریف کرنی پڑی بڑی دوسری بار لاک ڈاؤن کا مفہوم سمجھایا،اور حسب عادت نہ گھبرانے کے مشورے دئیے،اور تیسری بار کوئی مناسب ریلیف دینے کے اُلٹا جھولی پھیلا کر چل دئیے،ساری دُنیا میں لوگوں کے کاروبار بند ہیں،آمدن بند ہے،تارکین وطن کہاں سے لائیں ان کے لئے فنڈز؟وہ جو ان کے لئے اسمبلی اور سینٹ کے ممبرزخریدکیا کرتے تھے،وہ کہاں ہیں،ان سے مانگو، ابھی بھی اپنی ضدی طبیعت کی وجہ سے اپوزیشن سے ہاتھ ملانے سے گریزاں ہیں اور قیامت کیا ہوگی کہ آج جبکہ ہمارے پاس نہ تو ترقی یافتہ ممالک کی طرح صحت کی سہولیات  ہیں اور نہ ہی کور ونا وائرس کی تشخیص کرنے والی کٹس، کہ ہم یہ جان سکیں کہ ہمارے یہاں کوروناوائرس کے کتنے مریض موجود ہیں تو بہتر یہی تھا کہ پورا ملک ایک ہی بارلاک ڈاؤن کر دیا جاتا،اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہوگی کہ بہار کے دن ہیں اور دنیا میں خزاں   چل رہی ہے، پھول کھلنے کے موسم میں کلیاں مرجھا رہی ہیں،انسانیت بے بس ہے ،دنیا کی ویرانی اورقیامت کی خاموشی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے لیکن جناب ہمت کی داد دیں، اہل مذہب اور اہل سیاست کو جو ابھی بھی اپنی اپنی انا کے خول میں بند ہیں، انسانیت مر رہی ہے  انسان مر رہا ہے،کیا پتا کل کیا ہو، ہم رہیں نہ رہیں، لیکن آج جو کچھ ایک چھوٹے سے وائرس نے ہمیں بتا دیا ہے اس سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔

دنیا کو مل بیٹھ کر یہ سوچنا ہوگا کہ وبا تو آج نہیں تو کل ختم ہو جائے گی، انسان کو اس دنیا اس زمین پر رہنے کے لیے امن اور سلامتی کی ضرورت ہے،یا ٹینک اور توپ کی؟۔ آج ہمیں اچھے ہسپتالوں کی ضرورت ہے یا فوجی چھاؤنیوں کی،جو پیسہ دنیا بھر میں ہتھیار جمع کرنے پر لگایا جا رہا ہے اگر وہی پیسہ انسانی ترقی صحت اور خوشحالی پر لگایا جائے تو دنیا امن کا گہوارہ بھی بنے گی اور قرآن کے الفاظ میں جنت کا ٹکڑا بھی،کون جانے اگست 2019 سے لاک ڈاؤن کا شکار مظلوم کشمیریوں کی بددعاکام آگئی،یا شامی بچے نے اوپر جا کر سب کچھ بتا دیا ہو یا عراق میں میں دودھ نہ ہونے کی وجہ سے موت کا شکار ہونے والے معصوم بلکتے بچوں کی بددعا کام کر گئی ہو،یا اسرائیل سے اپنی آزادی کے لیے لڑنے والے بے گھر فلسطینیوں کی آہ وزاریوں نے کام کر دکھایا ہو ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ سوچنا ہوگا ،ہم سب کو کہ آج پوری دنیا میں جو ہورہا ہے،یہ ایک الارمنگ ہے ہم سب کے لئے کہ ہم جو جو قدرت کے اصولوں سے ہٹ کر زندگی گزارنے   کی طرف چل پڑے ہیں ، ہم جو ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کی  بجائے دشمنیاں پالے ہوئے ہیں د،نیا کے طاقتور ملک اور خاص طور پر اقوام متحدہ جو مظلوموں کی  آہ و بکا سننے سے قاصر ہے،یہ ان کے لیے بھی ایک تازیانہ ہے دنیا کو ایک نئے بیانئے کی ضرورت ہے اور وہ بیانیہ چودہ سو سال پہلے عالم انسان کو دے دیا گیا تھا ضرورت اس پیغام اور اس پیغام کو لانے والی ہستی ﷺکی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں ہے،وہ بیانیہ جو تاقیامت انسان کی راہنمائی کے لئے نازل کیا گیا،جو لاریب القرآن میں موجودہے،ہر قسم کی مذہبی،لسانی اورعلاقائی تفاخر اور تعصبات سے ہٹ کر سوچنا ہی کورونا سے شکست کا سبب بن سکتا ہے ورنہ بہار میں جو خزاں کی رُت آ چکی ہے،اللہ نہ کرے وہ پائیدار ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply