خدا کے منکر۔۔۔۔۔ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

ان دنوں سوشل میڈیا پر ملحد حضرات کا بہت چرچا ہے ۔ یعنی وہ لوگ جو “خدا” کو نہیں مانتے۔

خدا کا اولین تعارف اور تصور اس کے خالق کائنات ہونے کے حوالے سے ہے۔ کم از کم اس پیمانے پر دنیا میں شاید ہی کوئی ملحد ہو۔ کسی کا خدا “اتفاق” یا “حادثہ” ہے جس سے تخلیق کا تمام مرحلہ طے ہؤا۔ اور کوئی کسی ارتقائی پراسیس کو تخلیق کار مانتا یے۔ یہی نہیں ۔۔۔۔ وہ اپنے اس “خدا” کے متعلق اتنے ہی حساس ہیں جیسی حساسیت کا طعنہ وہ ان لوگوں کو دیتے ہیں جو ایک ان دیکھے خدا کو مانتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کے خدا ان کے بھی ان دیکھے ہی ہیں ۔ اپنے ان خداؤں کے ایک حقیقت ہونے کے لیے بھی ان کے پاس زبانی جمع خرچ اور چند تخمینوں اور اندازوں کے سوا کچھ نہیں۔ اس ضمن میں وہ اپنے مطلب کے علمی سلسلوں کو تو خوب ثقہ جانتے ہیں لیکن خدا سے متعلق انسانیت کی ابتدا سے آج تک پائے جانے والے سب سے بڑے اتفاق رائے کو پرِ کاہ جتنی وقعت نہیں دیتے۔

ہمارے یہ دوست حادثہ اور پراسیس کو تو اس قدر اہمیت دیتے ہیں لیکن ایک حادث اور منصوبہ ساز کے امکان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ییں۔ اس پر شروع سے لے کر آج تک کے یہ سب دوست فوراً خدا کو دیکھ کر Verify کرنے سے کم پر ٹھہرتے ہی نہیں۔ حالانکہ خدا نے یہ تو کہیں کہا ہی نہیں کہ میں دیکھنے میں ایسا ہوں تو مجھے خدا مانو۔ اس نے تو کہا کہ اپنی ذات میں اور اپنے ارد گرد دیکھو ۔۔۔۔ ان کی ساخت، ان کا لائف سائیکل، ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ تال میل دیکھو اور صرف یہ غور کرو کہ اس قدر علم، ذہانت اور قدرت کے کام جس نے بھی کیے وہ واقعی لائق تحسین ہے، اور وہ جو کوئی بھی ہے انسان سے بہت زیادہ ارفع اوصاف کا حامل ہے ۔ خدا نے ہر جگہ کہا کہ مجھے میری نشانیوں سے پہچانو ۔۔۔۔ یہ بھی انسان اور اس کی عقل کی تکریم کی ہے خدا نے کہ اسے لطیف پیرائے میں اپنے ہونے کا احساس دلایا۔ حیوانوں والا معاملہ نہیں کیا اس کے ساتھ کہ ڈنڈا بردار نظر آئے تو ہی مانیں کہ مالک سر پر ہے۔

ماضی کا انسان خدا کو دیکھنے پر اصرار کرتا تھا تو اس بیچارے کا تو علم بھی محدود اور پہنچ بھی۔ آج کے باعلم اور باوسائل دور میں تو آپ اس بات کو دیکھیے کہ خدا کہتا ہے کہ زمین و آسمان میں نظر دوڑاؤ کوئی شے درست جگہ نہیں یا درست کام نہیں کر رہی تو بتاؤ۔ تم تھک جاؤ گے لیکن خامی نہیں ڈھونڈ پاؤ گے۔ آپ خدا کا چیلنج اس فیلڈ میں تو پورا کیجیے جہاں وہ آپ کو کہہ رہا ہے ۔۔۔۔ اس کے بعد اپنے تحفظات رکھیے۔ یہاں جھٹ یہ بات کہی جاتی ہے کہ انسان کس قدر مشکل میں ہے تو خدا کہاں ہے۔ اس بات پر خدا نے بتا دیا کہ موجودات میں انسان ایک استثنائی صورتحال یے کیونکہ وہ ایک عرصہ امتحان سے گزر رہا ہے۔ انسان یہاں حالت سفر میں ہے۔ انسان کے علاوہ کسی سسٹم، کسی phenomenon میں کوئی مسئلہ ہے تو بتائیں۔ اسی بات کی وضاحت وہ یوں بھی کرتا ہے کہ زمین و آسمان (کائنات) کو بنانا اور sustain کرنا انسان کو بنانے اور sustain کرنے کی نسبت کہیں زیادہ مشکل کام ہے۔ جو وہ سب کر سکتا ہے کیا وہ یہ معمولی کام نہیں کر سکتا کہ انسانوں کے معاملات درست کر دے ۔۔۔ ؟ لیکن یہ بات by design ہے ۔۔۔ یہ کسی کمی یا کوتاہی کا شاخسانہ نہیں۔

مسئلہ صرف یہ ہے کہ جو خدا انسان خود بناتا ہے وہ اس کے تابع ہوتے ہیں اور اگر وہ حقیقی خدا کو مان لے تو پھر اس کے تابع ہونا پڑتا ہے، فطری بات ہے کہ جو برتر ہے اس کی برتری کو تسلیم کرنا ہو گا۔ برتری مانیں گے تو اس کے احکام پر بھی چلنا ہو گا۔ یہ بات انسان کے لیے سب سے مشکل ہے۔ انسان کی انا اتنی قوی ہے کہ اس کے لیے اپنی مرضی پر کسی اور کی مرضی کو فوقیت دینا محال ہو جاتا ہے۔ وہ اس ڈسپلن سے فرار حاصل کرنا چاہتا۔ پھر اس کی منہ زور جبلت اس انا کے ساتھ مل کر اسے ایک دوسرے ہی راستے پر لے نکلتی ہے جہاں اپنی ذات کے آگے سب ہیچ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسی لیے وہ خدا کا انکار کرتا ہے یا پھر خدا کو انکار کرتا ہے۔ مارا باندھا مان بھی لے کہ خدا ہے تب بھی ہر وقت اپنی من مرضی کے راستے نکالنے کے چکر میں رہتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہی انسان من مرضی کے لیے وہ ڈسپلن ، وہ جوکھم بھی خود پر لازم کرتا ہے جس کا عشر عشیر بھی خدا نے کبھی طلب نہیں کیا۔

خدا نے انسان کو بنایا، وہ اس کے پوٹینشل اور کمزوریوں دونوں سے واقف ہے۔ اسی لیے اسے وقفہ حیات دیا کہ خوب سوچ سمجھ لے، زور لگا لے ۔۔۔۔۔ سوال کر لے۔ ایک مشفق خیرخواہ کی طرح خدا نے ہر دور میں انسان کی ہدایت کا سامان کیا کہ وہ زندگی میں بھٹکنے سے بچ جائے ۔ لیکن اسے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ جو کوئی لمبا روٹ لینا چاہے وہ بصد شوق ایسا کر لے۔ اگر وہ اپنی تلاش میں سچا ہے تو گھوم پھر کر وہ وہیں پہنچ جائے گا جہاں اسے روز اول ہونا چاہیے تھا اگر اس نے ہدایت پر توجہ دی ہوتی ۔ لیکن ذاتی تجربوں کی بھٹی سے گزر کر جو خدا کی طرف پلٹتا ہے وہ اسے عزیز تر ہے کہ اس نے اپنی حد بھی جان لی اور خدا کا لامحدود ہونا بھی۔ اگر وہ نہیں پلٹتا تو یہ اس کا فیصلہ ہے اور اس کا جو بھی نتیجہ نکلے انسان اس کے لیے پوری طرح ذمہ دار۔

میری ناقص رائے میں الحاد وغیرہ سے متعلق زیادہ ٹینشن یا افراتفری کی ضرورت نہیں۔ خدا کی بات لوگوں تک اچھے پیرائے میں پہنچا دینا اور اس معاملے میں ہر لمحہ خندہ پیشانی سے کام لینا ہمارا فرض ہے اور بس۔ باقی اپنی اپنی قسمت ۔۔۔۔ پھر یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کا دروازہ ہر کسی کے لیے ہر وقت کھلا ہے۔ دیر سے پہنچنے والوں کو بھی یہاں کھلے دل سے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

 نوٹ:یہ تحریر ڈاکٹر عاصم اللہ بخش صاحب کی فیس بک وال سے لی گئی ہے!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply