عشق منجدھار :انیلا رزاق۔۔۔۔ تبصرہ/رمشا تبسّم

عشق منجدھار محترمہ انیلا رزاق کا پہلا ناول جو کہ کتابی شکل میں شائع ہوا ہے،اور شائع ہوتے ہی غیر پسندیدگی کی منجدھار میں پھسنے کی بجائے پسندیدگی کے سمندر میں غوطے لگانے لگا۔بے شمار لوگوں نے اس کو پڑھا اور اپنے خوبصورت الفاظ میں اس ناول پر بے شمار تبصرےبھی  کیے۔بہت مشکل لمحہ ہوتا ہے جب آپ اپنی زندگی کی پہلی کاوش کو عملی جامہ پہنا کر لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہوں۔دل کامیابی اور ناکامی کی منجدھار میں پھنس جاتا ہے ویسے ہی جیسے اکثر محبت بھی دنیاوی رسم و رواج کی منجدھار میں پھنس جاتی ہے۔اور پھر منجدھار میں پھنس کر صرف خوداعتمادی , اور خدا کی ذات پر بھروسہ ہی ہر منجدھار سے نکال کر سکون کی وادی میں پہنچا دیتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے انیلا رزاق کی رقم کی گئی عشق منجدھار کی داستان میں ہوا۔

ایک عرصے سے ہم محبت پر لکھی داستانیں پڑھتے آئے ہیں۔اور اب بھی یہی کچھ پڑھنے کو ملتا ہے۔محبت کا ذکر نہ ہو تو اکثر نوجوان کہانی کو دیکھنا تک پسند نہیں کرتے۔محبت کہیں نہ کہیں ہر شخص کے دل میں موجود ضرور ہوتی ہے۔محبت کے نام کا تمسخر اڑانے والے بھی در حقیقت محبت کے سمندر میں غوطے یا تو لگا چکے ہوتے ہیں یا لگانے والے ہوتے ہیں۔ اسی لئے عشق اور محبت کا جہاں ذکر آ جائے ہر کوئی سرسری طور پر ہی سہی  مگر دیکھنا یا پڑھنا ضرور چاہتا ہے۔یا یوں کہہ لیجیے کہ اُس داستان میں خود کو کہیں نہ کہیں کھوجنا شروع کر دیتا ہے۔ اور کھوجتا ہوا ہمیشہ ہی محبت کے نئے جذبات,احساسات,اظہار,خلوص اور جدائی کے درد سے آشنا ہوتا رہتا ہے۔ عشق منجدھار بھی سفر ہے خاندانی اور معاشرتی کھوکھلی رسم و رواج کے درمیان سسکتی معصوم محبتوں کا ,اپنوں کی ضد اور حسد سہتی زندگی کا, پل پل اپنی ذات کی نفی سہتے وجود کا, اور یہ سفر ہے منجدھار سے نکل کر پار لگتی محبت کی ناؤ کا۔

عشق منجدھار ایک سفر ہے جس میں جھوٹی انا کا تاج پہنے بہزاد ملک جو اپنی محبت کا سر کچل کر ہر کسی کی محبت کو زندہ درگو کرنے کا ارادہ کیے بیٹھے ہیں۔ یہ داستان ہے شاہ بانو اور شاہ میر کو اپنے فیصلوں پر قربان کرنے کی۔ ہر فیصلہ خاموشی سے سہنے والی شاہ بانو کی کہانی ہے جو محبت کی فضا میں ایک بار اور سانس لینے کے لئے سلطان کی محبت کو قبول کر کے اپنی زبان پر لگے اَنا اور رسم و رواج کا ہر قفل توڑنے کو تیار تھی۔
عشق منجدھار کہانی ہے کشوری بیگم, شاہینہ بیگم اور جہاں آراء بیگم کی جو مسلسل نسل در نسل مردوں کی حکمرانی سہتے سہتے صحیح اور غلط میں امتیاز کرنا بھول گئی۔جو اپنے حاکم مردوں کی اَنا اور ضد کا ظلم سہتے سہتے بالآخر اپنی اولاد کی خوشیوں کو بھی اَنا اور ضد پر خاموشی سے قربان کرنے کو تیار ہو گئی۔
عشق منجدھار کے سفر میں دیکھنے کو ملتی ہے گُل رُخ اور لغاری صاحب کی اپنی اولاد سے محبت اور اولاد کی جائز خواہش پر ان کے ساتھ ہر مشکل میں کھڑے رہنے کا ارادہ۔
یہ خوبصورت داستان ہے ارجمند ریحان ملک کی جو اپنی محبت کو ہار کر بھی جیت گیا۔جس نے محبت کر کے اس کو ضد نہیں بنایا بلکہ محبوب کی خوشی میں اپنی خوشی ڈھونڈ لی۔جس نے محبت کو زبردستی حاصل کرنے کی بجائے اس کو آزاد کر کے اَمر کر لیا۔

اس سفر میں  کیسے شہزوز نے غلط راستہ اختیار کر کے بالآخر صحیح سمت پا لی۔جس نے دل توڑ کر آخر میں دل جوڑنے کا اہتمام کیا۔جس نے شاہ بانو کی محبت کو ٹھکرا کر اس کی بے حرمتی نہیں کی بلکہ اس محبت کو ایک نئی سمت کی طرف گامزن کر دیا۔اور وہ محبت اب آزاد فضا میں سانس لے رہی ہے۔شہزور نے واقعی ثابت کر دیا انگریز عورت وفادار بھی ہوتی ہے۔

اس ناول میں نفرتوں, سازشوں, حسد اور انا کی آندھیوں میں خاموشی سے بڑھتی محبت نظر آئے گی۔ روشی اور روہان کی محبت۔ شوخ اور چنچل روشی کے دل میں خاموشی سے جنم لیتی محبت ۔ جس کو سامنا ہے سنجیدہ سے روہان کے دل کا،اور روہان کی محبت کی گواہ ہیں شوگراں کی خوبصورت وادیاں اور پھر ان وادیوں میں پروان چڑھتی محبت بالآخر بہاولپور کی حویلی کی انا اور تکبر کی دیواروں کو گرا کر اپنا راستہ بناتی ہے۔

یہ ایک کہانی نہیں ۔بلکہ کئی کہانیوں کو سمیٹے ہوئے ایک حسین وادی ہے۔محبت کی وادی , جہاں شرارت ہے۔جہاں حسن ہے۔جہاں کردار ہیں۔جہاں ضد ہے۔خاموشی ہے۔صبر ہے۔اللہ پر کامل یقین ہے۔حکمت ہے۔تدبیر ہے۔اور پھر صرف محبت ہی محبت ہے۔
کہتے ہیں ،اے محبت تیرے انجام پر رونا آیا۔مگر عشق منجدھار کے انجام پر صرف محبت آئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حرفِ  آخر:
انیلا رزاق صاحبہ کو اپنی زندگی کا پہلا ناول لکھنے پر بہت مبارکباد۔کیونکہ یہ پہلی کوشش ہے اس لیے بے شمار اغلاط کے باوجود قاری کو پڑھتے ہوئے لطف آتا ہے۔مگر محترمہ انیلا رزاق سے درخواست ہے جب اسکا دوسرا ایڈیشن پبلش کریں تو اس میں موجود اغلاط کو درست کریں۔جو کہ قاری کو پڑھتے پڑھتے ایک دم روک دیتی ہے۔روشی اور شہزور کے ہوٹل کے مکالمے میں شہزور کی جگہ روہان کا نام ایک دم دیکھ کر یوں لگا جیسے وہ بھی یہاں ہے۔ اس کے نام کی غلطی قاری کو کشمکش میں مبتلا کر رہی تھی۔لہذا واپس صفحے پلٹ کر دیکھنا پڑا کہ  یہاں کون کون اس گفتگو میں شامل ہے۔اس طرح کی کئی غلطیاں اس ناول کا حصہ ہیں۔جن کو درست کرنا انتہائی ضروری ہے۔۔ مگر ان سب کے باوجود بیشک یہ ایک خوبصورت رومانوی ناول ہے۔جس نے ابتداء سے انجام تک قاری کو اپنے ساتھ باندھے رکھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply