عورت مارچ یا بے حیائی کو فروغ۔۔ ندا خان

لبرلزم کی دلدادہ اور مغربی نظام سے مغلوب خواتین 8 مارچ کو پاکستان میں عورت مارچ کرنے جا رہی ہیں، جس کا مقصد اپنے حق کی آزادی ہے جس کے لیے وہ سڑکوں پر نکل کر اپنے حق کے لیے آواز بلند کریں گی اور مردوں کو ذلیل کیا جائے گا کیونکہ ان خواتین کے مطابق مردوں نے ہی ان کے حق سلب کیے ہوئے ہیں یہ خواتین کبھی لال لال کے نام پر اور کبھی سڑکوں پر پلے کارڈ اٹھائے نکلتی ہیں جن پر ” میرا جسم میری مرضی” کے نعرے درج ہوتے ہیں ان خواتین کو اس بات کا علم نہیں کہ جن حقوق کے لیے وہ سڑکوں پر نکلنے کی تیاری کر رہی ہیں وہ حقوق تو اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال پہلے نبی آخری الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہم تک پہنچا دیے ہیں اگر یہ عورتیں قرآن پاک کا مطالعہ کر لیتیں، تو ان کو اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر بنا چادر کے بھٹکنا نہ پڑتا ،قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے پوری ایک سورت عورتوں کے حقوق کے لیے نازل فرمائی “سورت النساء ” قرآن پاک کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد میرا نہیں خیال کہ کوئی مسلمان عورت اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔۔
اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح اپنے بناؤ سنگھار کا اظہار نہ کرو اور نماز کی ادائیگی کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرو ” ( الاحزاب ٣٣)
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت کی عزت اور وقار گھروں میں ہی ہے ناکہ سرِ  بازار بےحجاب ہوکر اپنے حقوق کی بات کریں اسلام سے قبل تو عورت کو وارثت میں حصہ دینے کا تصور بھی نہ تھا اسلام کے آنے کے بعد عورت کو وارثت میں سے حصے دینے کا حق بھی حاصل ہوا۔
جب عورت کی عزت اور اس کی حفاظت چادر اور چاردیواری میں ہے تو عورت مارچ کرنے والی خواتین کونسی عزت اور تحفظ کے حق کے لیے گھروں سے باہر نکلنا چاہتی ہیں۔
آج یہود و ہندو مختلف ذرائع سے اسلامی شعائر کو مسلنے اور بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ایک طرف ڈش اور انٹرنیٹ جیسے آلات کے ذریعے فحاشی اور بےحیائی کے پروگرام نشر کرکے نوجوانوں کے علاوہ مسلمان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے قلوب واذہان میں بےحجابی اور ذہنی آوارگی پیوست کرکے اسلامی معاشرے کو تباہ کر رہے ہیں۔دوسری طرف روشن خیال، پڑھے لکھے مغربی تہذیب و تمدن سے مرعوب و متاثر ہوکر یہود وہنود کی زبان بول کر مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے سکولز، کالجز اور یونیورسٹیوں میں اسلامی تعلیمات کی بجائے جدید فیشن اور بےحیائی کا ماحول نظر آتا ہے،بالخصوص عورت کے حقوق کے نام پر قائم یہودی تنظیمیں، انجمنیں، وغیرہ مسلم بیٹی کی حیا کو اتارنے میں سرفہرست ہیں۔
اسلام سے قبل بھی عورت کو بُری نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اگر کسی کے گھر لڑکی پیدا ہوجاتی تو وہ لوگوں سے منہ چھپاتا پھرتا تھا عورت کی ادنٰی درجے کی حیثیت تھی۔اگر کسی کا خاوند فوت ہوجاتا تو اس عورت کو ایک سال تک گندے بدبو دار جھونپڑے میں پڑا رہنے دیتے ،آج کے دور میں بھی ہندوستان میں عورت کی کوئی حیثیت نہیں۔عورت کو پاؤں کی جوتی تصور کیا جاتا ہے اگر ہندو مذہب میں کوئی آدمی فوت ہوجاتا تو اس کی بیوی کو بھی ستی کرکے جلا دیتے ہیں ،اسلام واحد مذہب ہے جس میں عورت کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ہم سب کو مل کر عورت مارچ کے نام پر بے حیائی کو روکنا ہوگا، علماء کرام اس کے خلاف آواز اٹھائیں،پاکستان جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اسلامی مملکت خداداد پاکستان میں آئے روز لبرل خواتین اسلام کا مذاق اڑاتی نظر آتی  ہیں حکومتی عہدیداروں کے پرکانوں پر  جوں تک نہیں رینگتی جو حکومت مدینے کی ریاست جیسا نظام رائج کرنے کا نعرہ لگا کر آئی تھی وہ اب تک خاموش تماشائی کیوں بنی ہوئی ہے؟ حکومتی عہدیدران خدارا اس بے حیائی کو روکیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ تعالیٰ مسلمان عورتوں کو باحیا اور باپردہ بنائے آمین یا ارحم الراحمين!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply