انسان کی کتاب ۔ 23 جلدوں میں ۔ جین (19) ۔۔وہارا امباکر

انسان کے بنانے کی ترکیب اس کے جینوم میں لکھی ہے۔ اس کو ہیومن جینوم پراجیکٹ نے پڑھا۔ اس کتاب میں سے چند چیدہ چیدہ باتیں۔

اس میں 3,088,286,401 حروف ہیں (چند ایک آگے پیچھے کر لیں)۔

اگر اس کو ایک کتاب کی صورت میں عام سائز کے حروف میں ساتھ ساتھ ملا کر لکھا جائے تو پندرہ لاکھ صفحات پر پوری آئے گی۔ یہ بریٹینیکا انسائیکلوپیڈیا سے 66 گنا زیادہ ہے۔

اس میں تئیس کروموزومز کے جوڑے ہیں، جو جسم کے زیادہ تر خلیوں میں ہیں۔ کئی ملین سال پہلے ان کی تعداد چوبیس سے تئیس ہوئی تھی۔ اس میں بدلاوٗ آتا رہا ہے۔ (ہم نے ایک کروموزوم کھو دیا۔ ایک انگوٹھا حاصل کر لیا)۔

اس میں کل 20,687 جین ہیں۔ کیچوے سے 1,796 زیادہ۔ مکئی سے بارہ ہزار کم۔ گندم اور چاول سے پچیس ہزار کم۔ ناشتے اور انسان میں فرق جین کی تعداد کا نہیں بلکہ جین کے نیٹ ورک کے پیچیدگی کا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ ہمارے پاس کیا ہے بلکہ یہ کہ ہم اس کو استعمال کیسے کرتے ہیں۔

اس میں بہت ہی انوکھی جدتیں اور ہوشیاری نظر آتی ہے۔ سادگی میں سے پیچیدگی نچوڑی ہوئی ہے۔ خاص جینز خاص خلیوں میں خاص وقت پر ایکٹو ہونے کی تال میل وقت اور جگہ پر بڑے منفرد کانٹیکسٹ کو جنم دیتی ہے۔ اتنی چھوٹی سے پٹاری سے تقریباً لامحدود فنکشنل ویری ایشن کو۔ جین ماڈیول (ایگزون) کا ساتھ ایک ہی جین سے ملا کر اس کے ذخیرے سے مزید تنوع برآمد ہوتا ہے۔ جین ریگولیشن اور سپلائسنگ کی سٹریٹیجی کا استعمال انسانی جینوم میں دوسرے جانداروں کے مقابلے میں زیادہ نظر آتا ہے۔ اس میں جینیاتی ٹائپ کا تنوع یعنی جینیاتی فنکشن کی اوریجنیلیٹی ہماری پیچیدگی کا راز ہے۔

یہ جامد نہیں، ڈائنامک ہے۔ کچھ خلیے اپنا سیکونس خود بدلتے ہیں۔ امیون سسٹم کے خلیے اینٹی باڈیز کا اخراج کرتے ہیں جو میزائل کی طرح کے پروٹین ہیں اور حملہ آور پیتھوجین (مرض کا باعث بننے والے جراثیم) کے ساتھ جا چپکتے ہیں۔ چونکہ پیتھوجن میں تبدیلی تیزرفتار ہے، اس لئے یہ اینٹی باڈی بھی ساکن یا مستقل نہیں رہ سکتے۔ یہاں پر جینوم ان جینیاتی عناصر کے ادلاوٗ بدلاوٗ سے یہ کارنامہ سرانجام دیتا ہے۔ جین کا گڈمڈ ہوتے جانا اینٹی باڈیز کی وسیع رینج پیدا کرتا ہے۔ ان خلیوں کے جینوم کی الگ ہی دنیا ہے۔

اس کے کچھ حصے حیران کن طور پر خوبصورت ہیں۔ مثال کے طور پر کروموزوم 11 کے بڑے حصے پر ایک لمبی سے پگڈنڈی ہے جس کا تعلق صرف سونگھنے سے ہے۔ یہاں پر ایک دوسرے سے قریبی 155 جینز پروٹین ریسپٹرز کی ایک سیریز کو کوڈ کرتی ہیں جو بو کے پروفیشنل سنسر ہیں۔ ہر ریسپٹر ایک خاص کیمیکل سٹرکچر سے چپکتا ہے جیسے تالے میں چابی اور اس کا نتیجہ دماغ میں بو کا خاص منفرد احساس پیدا کرتا ہے ۔۔۔ لیموں، گلاب، ادرک، مرچ،، پودینا، زیرہ ۔۔۔ اس جین ریگولیشن کا ایک خاص طریقہ اس چیز کو یقینی بناتا ہے کہ جمگھٹے میں سے صرف ایک ریسپٹر کا انتخاب ہو اور ناک میں بو کا احساس کرنے والا نیورون ہزاروں میں سے کسی کی تمیز کر سکے۔

اس میں جینز کا حصہ بہت ہی کم ہے۔ 98 فیصد ایسا ہے جو جینز پر مشتمل نہیں۔ جینز کے درمیان اور جینز کے بیچ میں لمبے فاصلے ہیں جہاں پر نہ پروٹین بنتی ہے اور نہ ہی آر این اے۔ اس میں سے کچھ جین ایکسرپیشن کی ریگولیشن میں کام آتے ہیں اور کچھ کی وجہ ہمیں معلوم نہیں۔ اگر ایک وسیع سمندر ہو تو جین اس میں درمیان میں کبھی کبھار آنے والے جزیرے ہیں۔

اس میں ہماری تاریخ لکھی ہے۔ ہمارے سفر لکھے ہیں۔ کچھ حصے قدیم وائرس بھی لے کر آئے ہیں جو کبھی آ کر نشان چھوڑ گئے تھے اور زمانوں سے یہاں پر ہیں۔ کچھ فریگمنٹ ایسے ہیں جو کبھی جین اور جاندار میں جمپ کیا کرتے تھے اور اب خاموش ہو چکے۔ جیسے ملازمت سے برخواست کر دئے جانے کے بعد یہاں پر ریٹائرشدہ زندگی گزار رہے ہوں۔

اس میں کئی عناصر ہیں جو بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ تین سو بیس پئیر کا ایک سیکونس “ایلو” ہے جو دسیوں ہزار بار دہرایا گیا ہے۔ اس کا فنکشن، تاریخ اور اہمیت ابھی نامعلوم ہے۔

جین کے بڑے خاندان ہیں۔ ایک دوسرے سے مشابہہ اور ایک جیسے فنکشن کرنے والی جو ایک دوسرے کے ساتھ جمگٹھا بناتی ہیں۔ دو سو قریبی رشتہ دار ہاکس فیملی سے ہیں جو نئے انسان کا سٹرکچر، حصے، اعضاء شناخت اور قسمت بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

اس میں ہزاروں سوڈو جینز ہیں۔ وہ جو کبھی فنکشنل تھیں اب نہیں۔ ان غیرفعال جینز کی لاشیں اس میں بکھری پڑی ہیں جیسے کسی ساحل کنارے پڑے فاسل ڈیکے ہو رہے ہوں۔

ایک فرد اور دوسرے میں اتنا زیادہ تنوع ہوتا ہے کہ ہر انسان منفرد ہے اور اتنا کم تنوع ہوتا ہے کہ ہم سب ایک جیسے ہیں۔ چمپنیزی اور بونوبو کے جینوم 96 فیصد ہمارے جیسے ہی ہیں لیکن نکلنے والے جاندار کا نتیجہ بہت ہی زیادہ مختلف ہے۔

کروموزوم کے آخر میں ٹیلومئیر مارک ہوئے ہیں جو کروموزوم کو ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رکھتے ہیں۔

اگرچہ ہم جینیاتی کوڈ کو مکمل طور پر جانتے ہیں یعنی ایک جین سے انفارمیشن کیسے پروٹین میں بدلتی ہے لیکن جینومک کوڈ کے بارے میں نہ ہونے کے برابر۔ یعنی انسانی جینوم میں بکھری ہوئی کئی جینز کیسے جین ایکسپریشن کو ٹائم اور سپیس میں کیسے کوآرڈینیٹ کرتی ہیں کہ ان سے جاندار بنے، برقرار رہے اور مرمت ہوتا رہے۔ جینیاتی کوڈ آسان ہے۔ ڈی این اے سے آر این اے، آر این اے سے پروٹین۔ تین بیس سے ایک امینو ایسڈ، امینو ایسڈ کے گروپ کا گروپ پروٹین۔ جینومک کوڈ آسان نہیں۔ جین کے ساتھ ڈی این اے کا سیکونس لگا ہے جو بتاتا ہے کہ جین کو کب اور کہاں ایکسپریس ہونا ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ فلاں جین جینوم کی فلاں جگہ پر ہی کیوں ہے اور ڈی این اے کے حصے جو جین کے درمیان ہیں وہ جین فزیولوجی کا تال میل کیسے کرواتے ہیں۔ کوڈ سے آگے اگلے کوڈ ہیں۔ پہاڑوں سے آگے اگلے پہاڑ۔

یہ ماحول کی تبدیلی سے کیمیائی نشان بناتا ہے۔ ان کو مٹاتا ہے۔ خلیاتی یادداشت کا طریقہ رکھتا ہے۔

یہ پرسرار ہے، ناقابلِ فہم لگتا ہے، کمزور ہے، تبدیل ہو جاتا ہے، دہرایا جاتا ہے، طاقتور ہے، اپنی حالت برقرار رکھتا ہے منفرد ہے۔ ہمیں خود کو سمجھے کی دعوت بھی دیتا ہے اور پھر پھسل بھی جاتا ہے۔ تضادات سے بھرے جاندار کو بنانے کے لئے تضادات سے بھرا ہے۔

یہ ارتقا کے لئے ہر وقت تیار ہے۔ ماضی کے ملبے سے اٹا پڑا ہے۔

اس کا ڈیزائن بقا کے لئے ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ہمارے جیسا ہی لگتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply