• صفحہ اول
  • /
  • مشق سخن
  • /
  • مشرقی پاکستان اور ملک میں موجودہ علیحدگی پسند تحاریک ۔۔۔ آصفہ بلوچ

مشرقی پاکستان اور ملک میں موجودہ علیحدگی پسند تحاریک ۔۔۔ آصفہ بلوچ

16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا اور بنگلا دیش وجود میں آیا۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے بیچ میں 1600 میٹر کا طویل فاصلہ موجود تھا اور دونوں حصوں کے درمیان بھارت جیسا ازلی دشمن موجود تھا۔ ملک کے دونوں میں حصوں میں کوئی بھی زمینی راستہ موجود نہیں تھا۔ ہوای اور بحری راستوں میں بھی شدید مشکلات حائل تھیں۔ جن کی وجہ سے دونوں حصوں کے عوام ایک دوسرے کے قریب نہ آ سکے۔ دونوں حصوں کی ثقافت بھی مختلف تھی اور مذہبی تہواروں کے علاوہ خوراک لباس رہن سہن کے طریقے میں بھی بہت زیادہ اختلاف موجود تھا۔ اس جغرافیائی اور ثقافتی تضاد کو دور کرنے کے لیے نظریہ اسلام کو مضبوط کرنے کی اشد ضرورت تھی مگر بدقسمتی سے خود غرض سیاست دان اس طرف کوی دھیان نہ دے سکے۔

جنوری 1971 میں دو کشمیری نوجوانوں ہاشم اور اشرف نے بھارت کا فوکر طیارہ گنگا اغوا کر لیا اور اس کو لاہور ہوای اڈے پر اتار لائے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس اقدام کو سراہا اور ایرپورٹ پر پہنچ کر دونوں نوجوانوں سے ملاقات کی اور ایسا تاثر دیا کہ یہ اقدام پاکستان کے ایما پر ہی کیا گیا ہے۔ اس کے بعد پاکستان کی ہی کوششوں سے مسافروں کو رہائی ملی اور انہیں بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔ اغوا کاروں کا مطالبہ تھا کہ کشمیر میں قید کشمیری لیڈروں کو رہا کیا جائے ورنہ وہ طیارے کو بم سے اڑا دیں گے۔ بھارت کے انکار پر طیارے کو بم سے اڑا دیا گیا۔ بھارت نے اس طیارے کے اغوا کی ساری ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی اور پاکستان کے طیاروں کو بھارتی فضائی حدود استعمال کرنے سے روک دیا گیا۔

یہ ڈرامہ بھارت کی سوچی سمجھی سازش تھی۔ بھارت نے پاکستان کو دھمکی دی کہ وہ ہائی جیکروں کو بھارت کے حوالے کر دے اور تباہ ہونے والے بھارتی طیارے کا ہرجانہ ادا کرے ورنہ بھارت پاکستان پر حملہ کر دے گا۔ بعد میں بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے نے اس حقیقت کو واضح کر دیا کہ یہ بھارت کی سوچی سمجھی سازش تھی اور بھارتی حکومت نے ہی کشمیری نوجوانوں کو بھارتی طیارہ اغوا کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔ بھارت اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا اور پاک بھارت کے مابین کشیدگی کا ایک اور سبب پیدا ہو گیا۔  بھارت نے اس آڑ میں فضائی راستہ بند کر دیا اور اس وجہ سے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں دوریوں میں مزید اضافہ ہو گیا اور دونوں حصوں کے درمیان مواصلات تقریبا معطل ہو گئی۔

پاکستان کے قیام کے بعد اردو کو ملک کی قومی زبان کا درجہ دیا گیا مگر مشرقی پاکستان کے لوگ اردو زبان سے واقف نہ تھے۔ اسی وجہ سے وہاں اردو بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد بہت کم تھی۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندو لابی نے لسانیت کو ہوا دی اور زبان کے مسیلے کو ابھارا۔ اسی طرز پر ہندو لابی آج کل پاکستان میں بھی اسی زبان کے مسلے کو ابھار رہی ہے مگر پاکستان میں کوئی ایسی جگہ موجود نہیں جہاں کے لوگ اردو سے نابلد ہوں۔ بالکل ایسا ہی واویلا زبان کو لے کر کیا گیا تھا جیسا کہ آجکل سرایئکی خطے کی جماعتیں کر رہی ہیں جیسا کہ بنگالی زبان کو بھی اردو کی طرح قومی زبان کا درجہ دیا جانے کا مطالبہ تھا تاکہ بنگالی زبان اور بنگالیوں کا اپنا تشخص ختم نہ ہو۔ اسی وجہ سے انہوں نے بنگالی زبان کو بھی قومی زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کر دیا۔ صوبے کے وزیر اعلی ناظم الدین نے اپنی نا اہلی اور کمزوری کی وجہ سے لسانی اور صوبائی تعصبات پر مبنی مطالبہ منظور کر لیا اور بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا اور ہندو لابی اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گئی۔ بالکل اسی طرز پر سرائیکی تحریکیں سرائیکی کو قومی زبان کا درجہ دلوانا چاھتی ہیں تاکہ یہ خود کو باقی پاکستانی حصوں سے الگ شناخت دلوا سکیں اور یہی وجہ ہے کہ نیلی اجرک سمیت اس خطے کی ثقافت کو تبدیل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں تاکہ ان کی شناخت بالکل الگ ہو۔ یہ بالکل بنگلا دیش طرز پر کام کر رہے ہیں۔

مشرقی پاکستان میں بنگالی مسلمان تعلیم کے میدان میں ہندووں سے بہت پیچھے تھے اور سکولوں کالجز میں اکثریت ہندو اساتذہ کی تھی۔ ہندو اساتذہ نے پاکستان کی نئی نسل کو نظریہ پاکستان کے خلاف بغاوت پر تیار کرنا شروع کیا۔ ان کی ذہن سازی شروع کر دی گئی۔ مشرقی پاکستان کی نئی نسل میں متحدہ قومیت کی بجائے بنگالی قومیت کے جذبات پیدا کرنا شروع کیے اور انہوں نے مغربی پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کو اپنی منزل قرار دیا، بالکل اسی طرز پر جنوبی پنجاب میں سرائیکی صوبہ تحریک کے حامی متحدہ قومیت کی بجاے عوام کو سرائیکی قومیت پر اکسا رہے ہیں اور خود کو سرائیکی قوم قرار دیتے ہیں اور یہ پنجاب سے آزادی کو اپنی منزل قرار دیتے ہیں اور یہاں اساتذہ کی جگہ این جی اوز کے تربیت یافتہ ٹرینرز ان کی مدد کر رہے ہیں اور یہ مختلف دیہی علاقوں میں جا کر یہاں کی نئی نسل کو نظریہ پاکستان کے خلاف بغاوت پر تیار کر رہے ہیں اور متحدہ قومیت کی بجائے سرائیکی قومیت کے جذبات پیدا کر رہے ہیں۔ ان کو نکیل نہ ڈالی گئی تو آنے والے وقتوں میں پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔

ہندووں نے مشرقی پاکستان کے عوام کے ذہنوں میں یہ تاثر قائم کر دیا کہ مشرقی پاکستان میں دنیا کا سب سے زیادہ پٹ سن پیدا ہوتا ہے مگر اس کی ساری آمدنی ان کو نہیں دی جاتی اور یہ آمدنی مغربی پاکستان ہڑپ کر جاتا ہے اور معاشی طور پر مغربی پاکستان کے لوگ مشرقی پاکستان کے لوگوں کا استحصال کر رہے ہیں۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ ایک مرتبہ شیخ مجیب الرحمن پاکستان آئے تو انہوں نے کہا کہ مجھے اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے.  ایسے ہی نظریہ پر جنوبی پنجاب کی سرائیکی پارٹیاں عوام کے ذہنوں میں یہ تاثر ڈالنے میں مصروف ہیں کہ پاکستان کی سب سے زیادہ کپاس اس خطے میں پیدا ہوتی ہے اور اپر پنجاب ان کی آمدنی ہڑپ کر رہا ہے اور ان کا.معاشی استحصال کر رہا ہے. مغربی پاکستان کے صنعتکاروں نے مشرقی پاکستان میں بڑی بڑی صنعتوں میں سرمایہ کاری کی تھی اور اس کے علاوہ مشرقی پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اربوں روپیہ خرچ کیا جاتا تھا۔ پاکستان کی پہلی سٹیل مل بھی مشرقی پاکستان میں ہی لگائی گئی تھی۔

مشرقی پاکستان تقسیم سے پہلے بھی معاشی پسماندگی کا شکار تھا اور ان کی پسماندگی کا سبب ہندو تاجر اور صنعت کار تھے جو.مشرقی پاکستان سے فائدہ اٹھاتے رہے. پاکستان بھارت کے توسیع پسندانہ منصوبوں کی راہ کی رکاوٹ تھا اور پاکستان بھارت کو عظیم طاقت ماننے کو بھی تیار نہیں تھا۔ پاکستان بھارت کو دو اطراف سے گھیرے ہوئے تھا تاہم یہ سائز میں بھارت سے چھوٹا تھا اس لیے بھارت پاکستان کے مشرقی بازو کو توڑنے کی پالیسی پر شروع سے ہی گامزن تھا اور کشمیر پر قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے بھی مشرقی پاکستان کو الگ کرنا اس لیے ضروری ہو چکا تھا۔ ڈھاکہ میں بھارتی ہائی کمشنر ہندو آبادی کے ذریعے ہندو لابی سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں سے مسلسل رابطہ رکھتا تھا اور ان کو پیسہ بھی دیا جاتا تھا اور یہی طریقہ واردات بھارت اب افغانستان میں موجود سفارت خانے کے ذریعے پشتون اور بلوچ علیحدگی کی تحریکیں چلا رہا ہے اور جنوبی پنجاب کے سیاست دانوں سے بھی ان کا رابطہ ہندو آبادی کے ذریعے ہی ہے اور وہ ان کو بھارت بھی بلاتے رہتے ہیں۔ اسی طریقہ سے ہی یہاں بھی تحریکوں کو جاری رکھے ہوے ہیں۔

پاکستان میں 1970 میں عام انتخابات ہوئے جن میں بد قسمتی سے تمام علاقائی جماعتوں نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ مشرقی پاکستان سے پاکستان عوامی لیگ اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوی اور 169 میں سے 167 نشستیں حاصل کیں۔ اس کے مقابلے میں ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت پی پی پی نے مغربی پاکستان کے دو صوبوں سندھ اور پنجاب سے 83 سیٹیں حاصل کیں جبکہ سرحد اور بلوچستان میں ولی خان گروپ اور جمیعت علما اسلام ہزاروی گروپ نے کامیابی حاصل کی۔ یہ جماعتیں مشرقی پاکستان میں کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان میں اپنے امیدوار ہی کھڑے نہیں کیے تھے اور مشرقی پاکستان میں کامیابی حاصل کرنے والی عوامی لیگ مغربی پاکستان میں اپنا وجود نہیں رکھتی تھی۔ ان علاقائی جماعتوں نے انتقال اقتدار کو نازک تر اور پیچیدہ بنا دیا جس کی وجہ سے صوبائی خود مختاری کے نام پر ملک کے حصے بخرے کرنے کی باتیں شروع ہو گئیں اور وہ زنجیر ٹوٹ گئی جو دونوں حصوں کو جوڑے ہوئی تھی۔ ملک صوبایت اور لسانیت کے نام پر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا. یاد رہے ایسی ہی سازش جنوبی پنجاب میں بھی پنپ رہی ہے۔

مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے 23 مارچ کو پاکستان کے یوم جمہوریہ کے موقع پر مغربی پاکستانیوں اور بہاری مسلمانوں کا بیدردی سے قتل عام کیا، کئی جگہوں پر ان کو زندہ جلا دیا گیا۔ عورتوں بچوں پر شدید مظالم ڈھائے گئے۔ پاکستان کا پرچم لہرانے کی بجائے بنگلا دیش کا نیا پرچم لہرایا گیا اور مسلح افراد کے اجتماعات ہوے جن میں شیخ مجیب الرحمن نے اعلان کیا کہ ہماری جدوجہد کا مقصد نجات اور آزادی حاصل کرنا ہے۔ بظاہر سیاسی صوبائی اور لسانی تحریک علیحدگی کی پر تشدد تحریک میں تبدیل ہو چکی تھی. 24 اور 25 مارچ کو عوامی مسلم لیگ نے بنگلا دیش کی آزادی کا اعلان کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا تھا، اس مسئلہ کے سیاسی حل کے لیے مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو میں ناکام مذاکرات بھی ہوئے۔ ان حالات کے بعد جنرل یحیٰ نے فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا۔ جنرل ٹکا خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کر دیا گیا لیکن وہاں کے چیف جسٹس نے ان سے حلف لینے سے انکار کر دیا تاہم فوج نے تیزی سے فوجی کارروائی کر کے وقتی طور پر بغاوت پر قابو پا لیا اور خطرہ ٹل گیا۔ اس کارروائی کے دوران فاسد اور شر پسند عناصر کے ساتھ ساتھ کچھ بے گناہ بھی مارے گیے جس کی وجہ سے مغربی پاکستان کی نفرت میں اضافہ ہوا۔

اسی دوران بھارت نے روس کے ساتھ بیس سالہ دوستی کا معاہدہ کیا اور اس معاہدے نے جنوب مشرقی ایشیا میں بھارت اور روس کے مفادات کو یکجا کر دیا۔ اس معاہدے کی رو سے اگر کوی بھی ملک ان دونوں ملکوں پر حملہ آور ہو تو دونوں ملک ایک دوسرے کی مدد اور حمایت کے لیے پابند تھے۔ اس معاہدہ کے تحت روس نے بھارت کو بے تحاشہ اسلحہ دے کر مضبوط کر دیا اور پاکستان احتجاج کرتا رہ گیا۔

بھارت کی اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے یورپ کا کامیاب دورہ کیا اور پاکستان کی ملٹری قیادت کے خلاف خوب مہم چلائی اور انسانی حقوق کی بحالی کے نام پر مشرقی پاکستان کے مہاجرین کی امداد کے لیے منظوری حاصل کر لی اور یہ یقین دہانی بھی حاصل کر لی کہ کسی بھی فوجی کارروائی دوران امریکہ پاکستان کی کسی قسم کی کوئی امداد نہیں کرے گا۔ یورپ اور روس کی حمایت کے بعد بھارت کے لیے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کرنے میں کوی مشکل حائل نہیں رہی. یورپ، روس اور امریکہ کی حمایت حاصل کے بعد بھارت نے مکتی باہنی کے نام پر دہشت گرد مشرقی پاکستان میں داخل کر دیے جنہوں مغربی پاکستانیوں کا قتل عام شروع کر دیا اور مشرقی پاکستان میں موجود پاکستان کے حامیوں کو چُن چُن کر قتل بے دردی سے قتل کیا گیا اور بھارتی فوج نے موقع غنیمت جان کر مشرقی بارڈر پر حملہ کر دیا۔ پاکستانی فوج کو کوئی فضای تحفظ حاصل نہیں تھا۔ جرات اور بہادری و قربانی کے حیران کُن مظاہروں کے باوجود فوج کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ اس بات کا امکان موجود تھا کہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام سلامتی کونسل میں پاک بھارت کشیدگی کا کوئی سیاسی حل نکالنے پر آمادگی کے بعد فریقین کسی سیاسی حل تک پہنچ جاتے۔ مجیب الرحمن کے 6 نکات کی بنیاد پر دونوں فریقین میں کمزور اتحاد قائم ہو جاتا مگر ذوالفقار علی بھٹو کی زیر قیادت وفد نے جنگ بندی کی بعض قرار دادوں کو ماننے سے انکار کر دیا اور جنگ بندی قبول نہ کرنے کی وجہ سے ڈھاکہ پر بھارتی فوج کا تسلط قائم ہو گیا اور پاکستان کے 93000 فوجیوں، پولیس، رینجرز اور دیگر سرکاری ملازمین کو جنگی قیدی بنا لیا گیا۔ پاکستانی وفد کا یہ طرز عمل سقوط ڈھاکہ کا آخری سبب بنا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بھارتی سازش کے حالات واقعات پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر یہ ایک مضمون میں ممکن نہیں۔ بھارت ہمیں دو لخت کرنے کے بعد بھی سکون سے نہیں بیٹھا، اس کی سازشیں عروج پر ہیں اور ہندو لابی سے متاثر سیاست دان اور دانشور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر بالکل اسی طرز پر وہی کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ یہ زمینی حقائق ہیں، ایسی ہی غلطیوں کی وجہ سے ملک دو لخت ہوا اور ایسے ہی نظریات کو دوبارہ پھیلا کر ملک میں نفرت کا بازار گرم کیا جا رہا ہے۔ اگر جنوبی پنجاب میں بھی ایسی کوئی تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو پاکستان کو بیچ سے کاٹ دیا جاے گا۔ اس کے بعد سندھ اور بلوچستان کو الگ کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطے کی شناخت اور کلچر کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی یے۔ اس پر ہر محب وطن پاکستانی حکومت اور سیکورٹی فورسز کو نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ بھارتی لابی کو کسی بھی طرح کامیاب نہیں ہونے دینا، یہ 1971 نہیں ہے۔ ان پر مکمل پابندی، ان کے رابطے، ان کی فنڈنگ اور ان کے اثاثوں کی مکمل چھان بین ہونی چاہیے اور ان کی ایفیلیٹڈ انسانی حقوق کی تنظیموں میں چھپے ملک دشمن عناصر کو بھی کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے اور متحدہ قومیت اور نظریہ پاکستان کو پروان چڑہانے کے لیے تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply