خودغرض معاشرہ۔۔حافظ صفوان ارشد

لاشعور سے لے کر شعور کی بلندیوں تک، لاحاصل سے حاصل تک کا سفر ،بلندیوں سے پستی اور پستی سے بلندی کی جانب گامزن ، یہاں تک کہ  تسخیرِ کائنات ، ہواؤں کے دوش پر سفر ، ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی تمام تر تراکیب ، جہان ِ فانی پر زندگی   گزارنے کی تمام نگارشات کا حاصل ایک ہی بات پر محیط ہے، جس کو برداشت کہا جاتا ہے۔ برداشت کرنا ایک معاشرتی خوبی ہے، یہ دنیا کے تمام مذاہب میں ،تمام معاشروں میں ،تمام علاقوں میں، ایک خوبصورت سنگ ِ میل ہے،مگر چونکہ اکیسویں صدی میں بہترین ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ جہاں بہت سی اور نئی دریافتیں ہوئیں، وہاں ایک کریہہ عمل کا  اضافہ ہوگیا ہے کہ معاشروں میں عدم برداشت کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، اور وقت گزرنے کے ساتھ اس کی رفتار بڑھتی جارہی ہےخود پسندی ، خود غرضی ایسی کہ  ہر انسان یہی چاہتا ہے کہ میرا کام جلدی ہوجائے۔
جی بالکل یہی عدم برداشت ہے کہ صحافی موصوف اپنے چبھتے سوالات سے وفاقی وزراء سے تھپڑ بھی کھاتے ہیں۔سماجی اور مذہبی زندگیوں میں عدم برداشت ناپید ہے ،کسی کے خیالات جانے بغیر ہمارا رویہ مشتعل ہوجانا اور اس پر کفر و شرک کے فتوے لمحوں کی مار ہیں ۔ہمارا دین بالکل بھی ایسا نہیں ہے، ہمیں اسلام نے ایک مکمل ضابطہ حیات دیا ہے، کسی دوسرے پر کسی بھی طرح کے الزام سے بچنے کی تاکیدہے ،ہر شخص کو مذہبی معاشرتی اور سماجی آزادی  تو ہمارا مذہب دیتا ہے، مگر نام نہاد ایمان فروش کی حالت ِ ایمانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے  ایک  مسلک کا شخص دوسرے مسلک کی مسجد میں نماز بھی نہیں پڑھ سکتا ۔

برداشت کی عمدہ ترین مثالیں مدینہ رسول ﷺ سے ملتی ہیں، جہاں شافع محشر اور دونوں جہان کے سردار نبی ﷺ پر مکہ کی  ایک عورت روزانہ کوڑا پھینکتی ہے اور ایک دن کوڑانہ  پھینکے جانے پر آپ ﷺ اس کی عیادت کو جاتے ہیں ۔جہاں لہو لہان جسم اور جوتے خون سے بھرے ہوئے ہیں پھر بھی اہل طائف کے لیے نبی دو عالم ﷺ کی زبان  پر  یہی الفاظ ہیں کہ اے اللہ، یہ مجھے جانتے نہیں تو ان پر رحم کر ۔ ریاست ِ مدینہ کے خلیفہ ء  وقت سے سوال کیا جاتا ۔اک غیر مسلم حاکم وقت سے مقدمہ جیت جاتا ہے  ، حیدر کرار علی پاک کرم اللہ وجہ الکریم اپنے جانی دشمن کو حالت جنگ میں صرف اس وجہ سے معاف کرتے کہ میں جہاد میں اس وجہ سے تجھ سے جنگ نہیں کروں گا کہ تم نے میرے منہ پر تھوکا ہے کیو نکہ اس سے میرے  ذاتی غصے کا عنصر نمایاں ہوگا ۔

مگر آج ہمارے دین جس نے دنیا کی رہنمائی کی، ہمارے اکابرین جس میں بائیس لاکھ مربع میل کا حکمران اپنے غلام کے ساتھ ایک سواری میں شراکت داری قائم کیے ہوئے تھا۔ مگر آج ہم مذہبی ، اخلاقی سماجی دیوالیہ ہوچکے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کسی بھی معاشرے کی بنیاد محبت رواداری برداشت اور اخلاقیات پر قائم ہوتی ہے ۔معاشرے سے یہ چیزیں ختم ہوجائیں تو معاشرے کا مقصد ہی فوت ہوجائے، رب العزت  ہمیں اسلام پر صحیح معنوں میں عمل کا پابند بنائے، آمین!
پاکستان پائندہ باد!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply