یہ پچھلے سال کی بات ہے بکرا عید کو گزرے مہینہ ہوچکا تھا ، خالد صاحب معمول کے مطابق روزانہ علی الصبح منڈے جاتے اور کچھ سبزی خرید کر سوزوکی پہ دیگر ریڑی والوں کے ساتھ واپس آتے . قریبی ہوٹل پہ چاۓ اور پراٹھے کا بول کر وہ اور اس کے برابر میں ریڑھی لگانے والا سلیم اپنی اپنی سبزیاں ریڑھی پہ سیٹنگ سے رکھنا شروع کردیتے اور اتنی دیر میں باہر والا چاۓ اور پراٹھے لے کہ پہنچ جاتا . خالد اور سلیم مل کر ناشتہ کرتے اور پھر اپنے کام دھندے میں لگ جاتے تھے .انہی دنوں خالد نے، ایک جب سیل اچھی ہوئ ، گھر پہ فون کیا کہ آج مرغی کا گوشت آدھا کلو لاتا ہوں .دال مت پکانا .دوسری سے گھر والی نے بتایا کہ آپ گوشت نہیں لینا، کیونکہ محلہ کے ایک گھر سے گوشت آیا ہے۔ یہ سن کر خالد دل ہی دل میں خوش ہوا ،اور گوشت بجھوانے والے کے لئے دعا مانگی . ریڑھی پہ کپڑا ڈال کر چوکیدار کے حوالہ کی، گھر آیا، سب گھر والوں بڑے شوق سے گوشت کھایا، کیونکہ کافی دن بعد گوشت کا سالن بنا تھا۔ رات کو سب سوگئے۔ رات 3 بجے کا وقت ہوگا کہ خالد کے دس سالہ بیٹے کو الٹیاں شروع ہوگئ جو رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں، کچھ ہی دیر میں خالد کی 15 سالہ بیٹی کو بھی الٹیاں شروع ہوگئی۔ بجاۓ سبزی منڈے جانے کہ خالد اپنے بچوں کو لیکر ہسپتال روانہ ہوۓ، راستے میں خالد نے بھی الٹی کی اور ہسپتال پہنچ کر کے بعد خالد کی بیوی نے بھی الٹی کی، ٹیسٹ کرنے کے بعد پتہ چلا بیماری کی وجہ خراب گوشت کا کھانا ہے.
بکرا عید کے دن ہیں اور ان خوشیوں میں غریبوں کو پہلے دوسرے اور تیسرے دن ھی شریک کریں ، تا کہ وہ بھی تازہ اور صحیح گوشت کھا سکیں .ایک مہینہ کے بعد باسی گوشت تقسیم کرنے سے نہ آپ کو فائدہ ہوگا نہ کسی غریب کو۔ کیونکہ باسی اور خراب گوشت بانٹنیں کا مطلب ہے آپ بیماری بانٹ رہے ہوں. آپ گوشت بانٹیں نہ کہ بیماری.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں