گاندھی اور انگریزوں کی وفاداری۔۔عبدالغنی محمدی

گاندھی انگریزوں سے ہندوستان کی آزادی  کے قائدین میں سے ہیں ، ان کی آپ بیتی سے انگریزوں کے حوالے سے  ان کے خیالات میں تنوع نظر آتاہے ، بسا اوقات تو انگریزوں کے بہت بڑے وفادار لگتے ہیں لیکن اگر وہ وفادار تھے بھی تو کیوں اور کس حیثیت میں ؟ مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں کے قائدین کیا انگریز کے وفادار نہیں تھے ؟ میرے خیال میں جنگ آزادی  1857ء اور اس طرح کے بعض معرکوں کے بعد ہندوستانیوں نے مسلح جدوجہد کو چھوڑ کر انگریز سرکار کو تسلیم کرکے ان کے ماتحت رہ کر پر امن جدو جہد آزادی کی تحریک چلائی ۔ لیکن مجبوری میں کسی حکومت کو تسلیم کرلینا یا دل و جان سے اس کا دلدادہ ہوجانا اس میں بہرحال فرق ہے ۔ گاندھی جی کی عبارتیں ملاحظہ ہوں ۔

“برطانوی آئین کا جتنا وفادار میں تھا اتنا میں نے کسی کو نہ دیکھا ۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ اس وفاداری کی تہہ میں حق کی محبت تھی ۔ یہ معنی نہیں کہ مجھے برطانوی حکومت کی خرابیوں کا علم نہ تھا مگر اس کے باوجود میں اسے مجموعی حیثیت سے قابل قبول سمجھتا تھا ۔ یعنی برطانوی سلطنت اور اس کے طرز حکومت میں ایسی خوبیاں تھیں جو دنیا کے لئے بہتر ہے ۔

رنگ اور نسل کا جو تعصب مجھے جنوبی افریقہ میں نظرآیا اسے میں برطانوی روایات کے منافی  سمجھتا تھا اور مجھے یقین تھا کہ یہ محض مقامی اور عارضی چیز ہے ۔ اس لیے میں تاج برطانیہ کی وفاداری میں انگریزوں سے بازی  لے جانے کی کوشش کرتا تھا ۔ میں نے ساری عمر اس وفاداری سے کوئی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا ۔ یہ میرے لیے ایک فرض تھا اور میں بغیر کسی معاوضے کے اسے انجام دیتا تھا “۔

نو آبادیاتی علاقوں میں برٹش کے انتہائی بُرے سلوک اور طرزِ عمل کے باوجود یہ چونکہ برطانیہ میں رہ کر آئے تھے اس لئے ان چیزوں کو اس ملک کی روایات کے خلاف سمجھتے تھے ، لیکن یہ شاید بھول چکے تھے کہ ان کے اپنے ملک اور دنیا کے لئے قانون ایک نہیں  ، الگ الگ ہیں ۔ اپنے ملک میں انصاف اور مساوات کا قانون اور دنیا میں ظلم و تشدد ، تعصب اور امتیاز پر مبنی قانون۔

“اس زمانے میں میرا یہ عقیدہ تھا کہ دولت برطانیہ دنیا کی بہبود کے لئے قائم ہے ۔ میں برطانیہ کا اتنا سچا وفادار تھا کہ دل میں بھی اس دولت عظمیٰ کو ضرر پہنچنے کی خواہش نہیں رکھتا تھا ۔ اس سےبھی لگتاہے کہ ایک زمانے تک تو ان کے یہ خیالات تھے بعد میں بدل گئے ۔ ایک جگہ اور لکھتے ہیں کہ مجھے انگریز قوم سے محبت ہے اور میں ہر ہندوستانی کو انگریزوں کا وفادار بنانا چاہتاہوں”۔

مختلف جنگوں میں انگریزوں کا ساتھ :

افریقہ اور ہندوستان میں مختلف مواقع پر پیش آنے والے مشکل حالات میں گاندھی جی انگریزوں کا ساتھ دیتے ہیں ، ان کی فوج میں رضاکارانہ کام کرتے ہیں ، اس کام کے لئے لوگوں کو تیار کرتے ہیں ۔ ان کی نظر میں سلطنت سے اگر حقوق طلب کرتے ہیں تو کچھ فرائض بھی سر انجام دینے چاہئیں ۔ گاندھی کی زندگی صحیح معنوں میں ایک عملی زندگی کہلاتی ہے کہ جس میں وہ سلطنت کے ساتھ ہر دم صرف مخاصمت نہیں مول لیتے بلکہ تعاون کرتے ہیں، ساتھ دیتے ہیں ، مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ کوئی پریشانی آجاتی ہے ، آفت ، مصیبت کا وقت آجاتاہے تو وہ عوام کی خدمت کرتے ہیں اور گورنمنٹ کا ساتھ دیتے ہیں ۔

لیکن ہندوستان کی آزادی بھی ان کے پیش نظر تھی ، وہ ہندوستان کی آزادی کی یہ صورت زیادہ  بہتر سمجھتے تھے کہ انگریز کے ساتھ مل کر کام کیا جائے ۔ میرا ان دنو ں یہ خیال تھا کہ ہندوستان کو کامل آزادی صرف برطانیہ کی مدد سے اور اس کے ماتحت رہ کر حاصل ہوسکتی ہے ۔

ہمیں اس نازک موقع پر برطانیہ کا ساتھ دینا چاہیے ، جس کے زیر ِسایہ عنقریب نو آبادی کا درجہ حاصل کرنے کی ہمیں آرزو ہے ۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ ہم سلطنت کا ساتھ اسی توقع کی بناء پر دے رہے ہیں کہ اس کے ذریعے  ہم اپنا مقصد زیادہ جلد حاصل کرلیں گے ۔ غرض انگریزوں کا ساتھ دینے سے مقصود ہندوستانی مفادات بھی تھے ۔ لیکن وہ کس نوع کی آزادی چاہتے تھے یہ ایک اہم سوال ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ہندوستان کو نوآبادی کا درجہ دلانا چاہتے ہیں ؟  جس کا مطلب ہے ہندوستان پر انگریزوں کی عملداری باقی رہے گی ۔

یورپیوں کی تقلید :

ان دنوں میرا عقید ہ تھا کہ ہم لوگوں کو اپنے لباس اور آداب معاشرت میں جہاں تک ہوسکے، یورپیوں کی تقلید کرنا چاہیے ۔ تاکہ ہم مہذب معلوم ہوں ۔ میں سمجھتا تھا کہ صرف اسی طریقے سے ہم تھوڑا بہت اثر پیدا کرسکتے ہیں اور بغیر اثر کے قوم کی خدمت ناممکن ہے ۔ اسے نظر میں رکھ کر میں نے اپنی بیوی اور بچوں کے لباس کی ایک وضع معین کی ۔ اس زمانے میں پارسی ہندوستانیوں میں سب سے زیادہ مہذب سمجھے جاتے تھے ۔اس لیے جب بالکل یورپی وضع اختیار کرنا  مناسب معلوم ہوا تو ہم نے پارسیوں کی وضع اختیار کی ۔

جب میرا جوش ان تہذیب کی نشانیوں کے بارے میں ٹھنڈا ہوگیا تو بیوی بچوں نے چھری کانٹے کو خیر آباد کہی ۔ غالباً نئی وضع کا عادی ہوجانے کے بعد انہیں چھوڑنے میں بھی اتنی ہی دقت ہوئی ہوگی ۔ مگر اب میں یہ دیکھتا ہوں کہ “تہذیب ” کا زرق برق لبادہ اتارنے سے ہماری طبعیت بہت ہلکی ہوجاتی ہے ۔

مغربی زیادہ تر تشدد پر مبنی تہذیب ہے مگر مشرقی تہذیب میں یہ بات نہیں ہے ۔مطلب  دنیا کو اپنے رنگ میں رنگنے کے لئے جس قدر تعصب اور تشدد سے مغربی تہذیب نے کام لیا مشرقی تہذیب میں یہ بات نظر نہیں آتی ہے ۔ ان باتوں سے اندازہ ہوتاہے کہ غالب قوم کی مطابقت کرناکس قدر ضروری تقاضہ بن جاتاہے اور مہذب ہونے میں بھی اس چیز کو کتنا بنیادی کردا ر حاصل ہے ۔

امتیازی سلوک :

گاندھی کو انگریزوں کی نو آبادیاتیوں میں جگہ جگہ تعصب نظر آتا ہے ، امتیازی رویہ اور غیر مساویانہ قانون نظر آتاہے ۔ یورپی حجام ان کے بال نہیں کاٹتا تو یہ اپنے بالوں کو خود ہی کاٹ لیتے ہیں جس سے وہ خراب ہوجاتے ہیں اور ان کا مذاق بنتاہے  ۔ اسی طرح ان کے کپڑوں کو دھوبی دھوتا اور استری نہیں کرتا ، یہ اس کام کو بھی خود کرلیتے ہیں اور گھوکھلے کی ٹائی کوٹ کالر وغیرہ کو خود ہی جماتے ہیں ۔ گاندھی کہتے ہیں کہ ہم ہندوستان میں جو سلوک اچھوتوں  کے ساتھ کرتے ہیں اس کا بدلہ بیسیوں مرتبہ مجھے جنوبی افریقہ میں ملا۔ میرا عقیدہ تھا کہ کہ یہ ہمارے گناہوں کی سزا ہے اس لیے مجھے اس پر غصہ نہیں آتا تھا۔

انگریزوں کے ہاں راجوں کی حالت :

Advertisements
julia rana solicitors

انگریزوں کے دربار میں بڑے بڑے راجوں کو عورتوں کی طرح بن ٹھن کر آنا پڑ تا تھا ، بہت سے وہ زیورات جو عورتیں پہنتی ہیں وہ پہنا کرتے تھے ، ریشمی پاجامے اور ریشمی اچکنیں پہنتے تھے ۔ گلے میں موتیوں کے مالے اور ہاتھوں میں کنگن  ہوتے تھے ۔ دولت ، قوت اور عزت کی خاطر انسان کو کن کن ذلتوں اور گناہوں کا بوجھ اٹھانا پڑتاہے ۔

Facebook Comments

عبدالغنی
پی ایچ ڈی اسکالر پنجاب یونیورسٹی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply