۔پنجاب کا مقدمہ سب کےلئے۔۔ساجد محمود خان

میں اپنی کم علمی اور خاص طور پر علم لسانیات پر کمزور گرفت  کی وجہ سے ایسے موضوعات پر  لکھنے سے پرہیز کرتا ہوں جس سے میری  کسی مثبت تحریر یا پیغام کو کسی بھی حوالے سے متنازع تحریر یا پیغام کا درجہ حاصل ہو جائے۔ ہم اکثر ان معاملات پر بہت زیادہ توجہ نہیں دیتے جو ہم پر بلا واسطہ طور پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے اثرات بہت عرصہ بعد رونما   ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سانحہ بنگال کے عوامل میں زبان ایک اہم مسئلہ تھا جس نے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے لوگوں میں دوریاں پیدا کی تھیں۔

جب کبھی بھی علاقائی زبانوں بالخصوص پنجابی زبان سے وفا کا تذکرہ ہو گا تو محمد حنیف رامے کی کتاب ( پنجاب کا مقدمہ ) کا پیش لفظ ہمیں اپنی مادری زبانوں خاص کر پنجابی زبان سے پنجاب کے باشندوں کی بے وفائی اور چشم پوشی کی یاد ضرور دلاتا رہے گا۔ محمد حنیف رامے صاحب 1930ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔  آپ سیاستدان، دانشور، خطاط ، مصور، صحافی اور ایک ہمہ گیر شخصیت کے  حامل انسان تھے۔  حنیف رامے صاحب کی مشہور کتاب ’’ پنجاب کا مقدمہ ‘‘ ہے ،جبکہ ان کی دیگر تصانیف میں اسلام کی روحانی قدریں، موت نہیں زندگی ، باز آؤ اور زندہ رہو (اداریوں کا مجموعہ) ، دُبِ اکبر اور نظموں کا مجموعہ دن کا پھول کے نام شامل ہیں۔  آپ چوہدری تھے مگر اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح اپنے نام کے ساتھ چوہدری کے بجائے رامے کا لاحقہ اختیار کیا اور پھر یہی ان کا تخلص بھی ٹھہرا تھا۔  محمد حنیف رامے مرحوم نے ”پنجاب کا مقدمہ“ کے موضوع پر اپنی کتاب اردو میں لکھی اور اس کی توجیح یہ پیش کی کہ انہیں یہ کتاب اردو میں اس لئے بھی لکھنا پڑی کیونکہ پڑھے لکھے پنجابیوں نے پنجابی زبان کو چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے پیش لفظ میں مزید لکھا کہ وہ اس دور کے کروڑوں پنجابیوں کو ناصرف پنجاب کی عظمت  کیلئے بلکہ پورے پاکستان کے استحکام اور یکجہتی کیلئے بھی جگا رہے ہیں۔ ان کی کتاب میں انھوں نے  پنجاب کے لوگوں کو مضبوط پاکستان کی خاطر پنجابیت سے جڑے رہنے کا مشورہ دیا ہے۔  انھوں نے مضبوط پاکستان اور پنجابیت کو ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ”میرا ایمان ہے کہ پنجاب نے پنجابیت اختیار نہ کی تو وہ پاکستان کو بھی لے ڈوبے گا”۔  میری ذاتی رائے میں جب تک ہمارے وطن عزیز میں علاقائی زبانیں اور ثقافت فروغ نہیں پاتیں، تب تک پاکستان مستحکم اور مضبوط نہیں ہو سکتا ہے۔  حنیف رامے صاحب اہل پنجاب کو ان کی خاموشی پہ جھنجھوڑتے ہوئے اہل پنجاب سے یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر وہ پاکستان کی بقإ چاہتے ہیں تو نا صرف اپنی پنجابیت اختیار کریں،بلکہ پوری عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوکر صوبائی خودمختاری کی جنگ بھی لڑے۔
جو بات اور نقطہ میں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں وہ یہ  ہے کہ علاقائی زبانوں کی ترویج و ترقی سے اردو زبان اور استحکام پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ اس  سے اردو زبان اور ملکی اتحاد کو مزید استحکام ملے گا ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہر علاقے کی اپنی ایک مخصوص ثقافت ہوتی ہے جو اس علاقے کی زبان سے بہتر طور پر سمجھی  جا سکتی  ہے۔ بہت سے الفاظ اور محاورے اس مخصوص ثقافت کی بدولت وجود میں آتے ہیں۔ ان ہی نئے وجود میں آنے والے الفاظ میں سے بہت سے الفاظ بعد میں دوسری زبانوں میں منتقل ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح ایک مخصوص ثقافت کا اثر دوسری ثقافت اور اس کی زبان پر پڑتا ہے۔ اگر یہی الفاظ کے تبادلے رک جائیں تو پھر زبان کمزور یا پھر مُردہ ہو جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان میں بہت سی علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں جن کے الفاظ آپ کو بہت سی دوسری زبانوں خاص طور پر اردو زبان میں ضرور نظر آئیں گے۔ پاکستان میں بولی جانے والی علاقائی زبانوں میں سندھی، پنجابی، پشتو ، بلوچی، کشمیری، سرائیکی، ہندکو، براہوی، گجراتی اوری  بعض  دوسری  زبانیں بھی شامل ہیں۔ علاقائی زبانوں کی سوچ افکار نہ صرف قومی زبان کے دائرہ کار کو وسعت دینے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں بلکہ علاقے کے افراد کو قومی زبان سے قریب لانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمیں علاقائی زبانوں کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا اور ان کی ترقی و ترویج کے لئے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے ہونگے ورنہ تو ایک پنجاب کے مقدمے کے بجائے ہمیں بہت سے علاقائی زبانوں کے مقدمات کا سامنا کرنا ہوگا۔ اخر میں حنیف رامے مرحوم کی بات کو کچھ اضافے کے ساتھ مزید آگے بڑھاتے ہوئے اتنا ضرور کہوں گا کہ مضبوط پاکستان اور علاقائی زبانوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور اگر پاکستانیوں نے اپنی علاقائی زبانوں سے محبت اختیار نہ کی تو وہ پاکستان کی یکجہتی کو بھی لے ڈوبیں گے۔

Facebook Comments

ساجد محمود خان
۔ سیاسیات کا طالب علم۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply