نظم کیا ہے؟۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کئی برس پہلےساؤتھ ایسٹرن یونیورسٹی ، واشنگٹن ڈی سی میں منعقد ہوئے ایک سیمینار (جس میں اردو کوبھی شامل کیا گیا تھا) میں پیش کردہ راقم الحروف کے مقالے کا پہلا حصہ۔ اس مضمون سےطوالت کے خوف سے اشاریہ اور کتابیات کے حصص حذف کر دیے گئے ہیں ۔

ہر نظم، یا فنون لطیفہ میں مشمولہ ہر نئی تخلیق بنیادی طور پر تو تخلیق کار کے ذہن سے ابھری ہوئی ایک ’سچی‘ ، یعنی اس کے ذہن کی ہو بہو عکاسی کرنے والی مصور کاوش (الفاظ، رنگ اور برش، پتھراور تیشہ، کسی بھی میڈیم میں) ’’فنکار کے اپنے لیے ‘‘ہی ہوتی ہے، چاہے وہ تصویر بیچنے کے لیے بنائے، نظم مشاعرے میں پڑھنے کے لیے لکھے یا ہتھوڑے اور چھینی سے مورتی مندر میں استھاپت کرنے کے لیے ہی کیوں نہ بنائے۔ اس میں دو آرائی  ہو ہی نہیں سکتیں۔ یعنی اگر وہ فنی کاوش true to ہے، تو اسے  ہونا چاہیے۔ اب نمبر ایک (۱)اور نمبر دو (۲)میں فرق یہ ہے، کہ نمبر(۱) فوٹو گرافی کی  شرط پر پوری اترتی ہے، لیکن نمبر دو(۲)میں خدا جانے یا کسی حد تک فرائڈ،ؔ یونگ،ؔ میک ڈوگل اؔور درجنوں دیگرنظریہ ساز سائیکالوجسٹ جانیں، کیا کیا کچھ اور ، یعنی فوٹوگرافی والی تصویر سے بعید ، ما قبل اور مابعد، شعوری اور لا شعوری سطحوں پر موجود ہے۔ ان میں سے بہت کچھ تو فنکار کے علم میں بھی نہیں ہے۔

معافی چاہتا ہوں ، میں شاید ایک کلاس روم ٹیچر کی طرح بولنے لگ گیا ہوں جو اپنی ’آرٹ ایپریسی ایشن ‘ کی کلاس پڑھا رہا ہے۔ لیکن یہ مضمون میں نے سالہا سال تک یہاں کی یعنی واشنگٹن ڈی سی کی یونیورسٹی میں پڑھا یا ہے ۔۔ تو میں کہہ رہا تھا، کہ ۔۔۔۔چلیں ایک مثال ہی لے لیں۔ جب پکاسوؔ ایک تصویر بناتا ہے تو کیا وہ اس کو بیچنے کے لیے یا آرٹ گیلری میں آنے والے شائقین کے لیے بناتا ہے؟ جی نہیں! اگر وہ ان کے لیے بناتا بھی ہو، تو بھی جو تصویر بنفس نفیس کینوس پر اُترتی ہے، اس کا جامع خاکہ تو شایدوہ خود بھی پہلے سے نہیں جانتا کہ وہ کیا بنائے گا۔ جوں جوں تصویر بنتی چلی جاتی ہے، شعوری، تحت الشعوری اور لا شعوری سطحوں کے اشتراک سے پیدا شدہ یہ مرقع ذہن کی بالائی سطحوں پر اجاگر ہوتا چلا جاتا ہے، تو بھی تصویر کے اختتام تک اس میں تبدیلیاں ممکن ہیں ۔۔۔اس سارے بکھیڑے میں ناظر یا تصویر خریدنے والا یا نقاد یا آرٹ گیلری کا شائق کہیں موجود نہیں ہے! اگر مصور دیکھنے والی ایک آنکھ کو گھٹنے پر فِٹ کر دیتا ہے تو وہ اس بات کو رمز و اشارہ و علامت سے ظاہر کر رہا ہے، کہ اس آنکھ کو گھٹنوں کے بل چل کر اس منظر کو دیکھنا ہے، اگر یہی آنکھ وہ فرضی پکاسو ؔپاؤں کے انگوٹھے پر فِٹ کر دیتا ہے تو اسے یہ دکھانا مقصود ہے کہ اس آنکھ کو پاؤں کے بل چلنا ہے۔ (گھٹنوں کے بل چلنے اور پاؤں کے بل چلنے میں عمر کا جو تضاد ہے، اس کا اندراج یہاں ضروری نہیں ہے)۔

یہی صورت ِ حال نظم گو شاعر کی بھی ہے۔ (یہ حالت غزل گو شاعر کی بھی فرداً فرداً ایک یا دو اشعار میں ہو سکتی ہے)چاہے وہ یہ عزم کر کے ہی کیوں نہ بیٹھے کہ اسے پشاور کے  سکول میں بچوں کے قتل عام پر ایک احتجاجی یا ماتمی نظم لکھنی ہے، (اگر وہ نہ ہو کر سچا اور اچھا شاعر ہے ) تو ذہنی استعاروں کی رقص گاہ میں ناچتے ہوئے ہیولے اسے دم بہ دم اپنی طرف متوجہ کریں گے۔ ان میں سے کچھ ایک کو وہ منتخب کر کے انہیں الفاظ کے ملبوس سے آراستہ کرے گا اور نظم لکھے گا۔ ۔۔اور میں یہ بات ایک بار پھر تاکید سے عرض کر رہا ہوں کہ یہ نظم اُس کے ذہن کی صحیح عکاسی کرنے کی وجہ سے، اصلاً اور نسلاً، اس کے اپنے لیے ہو گی۔(چاہے وہ اسے اخبار میں چھپنے کے لیے بھیجتے ہوئے یہ بھی لکھ دے کہ اس نے یہ نظم اس خاص ضمیمے کے لیے لکھی ہے، جو اس قتل عام کے بارے میں ہے)۔۔ اس نظم کو لکھنے کے بعد وہ اس ہیجان، اتھل پتھل سے نجات حاصل کر لے گا، جسے کہتے ہیں، جو بچے کی پیدائش کے وقت درد ِ زہ کی سی حالت میں زچہ کو ہوتی ہے۔

تو صاحب، میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اردو میں لکھی جانے والی آج کی سب نظمیں ایسی نہیں ہیں۔ وہ جن میں استعارہ سازی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے، تو یقیناً ہیں، لیکن وہ (۱) جن میں بھول بھلیاں کی حد تک (راشدؔ کا نگینہ، انگوٹھی، ڈبیا، صندوق اور سمندر کی مثال پہلے دی جا چکی ہے) استعاراتی عمرو عیا رکی زنبیل میں پوشیدہ تصاویر ہیں، جن کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں ہے، یا پھر وہ (۲) جو غزل کے استعارہ سازی کے گودام کے شیلفوں سے اٹھائی ہوئی ذہنی تصویروں سے بوجھل ’’منظوم جواب مضمون‘‘ کی طرح تحریر کردہ ہیں ۔۔۔۔دونوں اس ذیل میں نہیں آتیں۔ یہ دونوں قارئین کے لیے لکھی جاتی ہیں یا رسالوں کی زینت اس لیے بنتی ہیں کہ لکھی ہی اس وجہ سے گئی ہیں۔ ان کا genesis مصنوعی تخم کاری کا مرہون ِ منت ہے۔

اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے میں کچھ اور زیادہ تفصیل سے صرف بات کرنا ہی نہیں چاہتا، آپ کو تخلیقی قوت کے کار بیوہار کے عمل سے انگلی پکڑ کر ایسے ہی ساتھ لیے چلتا ہوں جیسے میں آرٹ اپریسی ایشن کے کمرہ جماعت میں اپنے طلبہ کے سامنے کھڑا ہوں اور وہ مجھے بلیک بورڈ پر لکھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں یا مجھے اوور ہیڈ پروجیکٹر پر گراف بناتے ہوئے میری تحریر یا گراف کو سکرین پر دیکھ رہے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ، اور اس خاص مثال کو پوری طرح سمجھنے کے لیے، اس کے پس منظر کا علم ہونا ضروری ہے۔

سعودی عرب میں تین برس کے تدریسی قیام کے بعد لوٹنے پر میں کچھ ایسے نا مساعد حالات سے دو چار ہوا کہ ایک کے بعد ایک سانحے رونما ہوتے گئے، جن کی وجہ سے میری جمع شدہ پونجی برباد ہو گئی، مکان بھی ہاتھ سے نکل گیا اور بیوی کی خرابیٔ صحت کے علاوہ میں خود بھی شدید ڈیپریشن کا شکار ہو گیا۔ ان نا مساعد حالات کی آخری کڑی میرا کار ایکسیڈنٹ تھا جس میں میری بائیں ٹانگ کی ہڈی تین جگہوں سے ٹوٹ گئی اور میں ایک لمبے عرصے کے لیے بار ِ بستر ہو گیا۔ہسپتالوں کے بل اور دیگر اخراجات کی وجہ سے مجھے بنکرپسی (دیوالیہ پن) کا سہارا لے کر ان بلوں سے جان چھڑانا پڑی ۔۔۔۔ ڈیپریشن کے دوران میں اکثر اپنی تقدیر کو کوستا ، اس کے بنانے والے پر نفرین بھیجتا۔ لڑکپن میں کہیں سنا ہوا اور سہگل کا گایا ہوا ایک گیت دہراتا : اے کاتب تقدیرمجھے اتنا بتا دے، کیوں مجھ سے خفا ہے تو، کیا میں نے کیا ہے۔۔اس کے کلیدی الفاظ ’’کاتب تقدیر‘‘ نا  صرف میرے ذہن میں گونجتے رہتے ،بلکہ بارہا مجھے غالب کے اس شعر کی یاد دلاتے اور میں اسے دہراتا رہتا  ’’

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

آدمی کوئی ہمارا دم ِ تحریر بھی تھا۔۔۔۔

ایک دن لگ بھگ نیم بیداری کی حالت میں میرے ذہن میں ایک ہیولیٰ سا اُبھر آیا کہ پٹواریوں کی طرح ایک تخت پر تقدیر لکھنے والے منشی بیٹھے ہیں اوربہی کھاتوں میں لوگوں کے مقدر لکھتے چلے جاتے ہیں۔ ان میں کچھ بے ہنگم سے ، بڑے بڑے پیٹوں والے، ادھیڑ عمر کے عجیب الجثہ اشخاص ہیں۔ کچھ اپنے قلموں کو سیاہی کی دوات میں ڈبوتے ہیں اور پھر فاضل روشنائی کو دیوار پر جھٹک کر منہ میں کچھ بڑبڑاتے ہیں، مثلاً ’’یہ لے، یہ تیرے لیے ہے، بد نصیب شخص !‘‘اس کے ساتھ ہی لکھتے ہیں اور پھر اس نوشتے پر مہر ثبت کر کے اسے ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور دوسرا اٹھا لیتے ہیں۔

نیم بیداری کی حالت میں ہی میں نے قلم اٹھایا اور لکھنا شروع کیا ۔۔۔۔ انگریزی میں ! ۔۔۔۔یعنی اردو میں کیوں نہیں، جبکہ دونوں محرکات، سہگل کا گایا ہوا گیت اور غالب کا شعر اردو میں تھے؟ تب بھی اس کا کوئی جواز نہیں تھااور آ ج تک میں اس تضاد کی وجہ نہیں سمجھ پایا کہ انگریزی میں ہی کیوں ؟ بہر حال یہ سوال تو میں نے خود سے بعد میں پوچھا ، اُس وقت تو صرف لکھنا شروع کر دیا۔

اب ایک نگاہ ِ واپسیں ذہن کے اس کیمکارڈر کے تصویری تسلسل پرڈالتا ہوں تو وہ ساری فلم صریحاً آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے جو اُس وقت ذہن کی آنکھوں میں تھی، یعنی پٹواری یا محرر قسم کے لوگ تخت پر بیٹھے ہوئے، بہی کھاتوں میں لکھتے ہوئے، چہرے پر ناراضگی اور خشونت کے نشان، غصے سے روشنائی میں قلم ڈبوتے ہوئے، بے دردی سے فاضل روشنائی جھٹک کر دیوار پر پھینکتے ہوئے اور پھر لکھتے ہوئے بھی بڑبڑا ، بڑبڑا کر دل کا غبار نکالتے ہوئے۔۔۔۔اللہ، کیا منظر تھا میرے بیمار ذہن کے نہاں خانے میں۔۔

انگریزی میں جو نظم خلق ہوئی، وہ نیچے لکھ رہا ہوں۔ یہ میری انگریزی نظموں کے ایک مجموعے، بعنوان
IF WINTER COMESمیں شامل ہے۔

THE FORTUNE FATHEADS
A drip in the right arm vein
Wires and cables, meters and clock faces
Looking at me, on the surgery table
– I can’t move: No, I can’t move
But I can see – and I can hear
I can hear the silence of the operation theater.
“Here he is”, a voice booms from somewhere above.
“The hot-headed poet, the inconscient babe-babbler
Come, you challenger of God,
Come and have your fortune writ for you!
Yea! Unworthy Sir, no money, no respite from want.”
“Nay, but there’s something”,

ٓanother voice – a sore-throated one says:
Yea, a name and fame.”
Wrap it around your cuff, man and be happy.
I look up – and see around, rotund face
A bulging belly hanging to his knees,
Going up and down with every guffaw.
Another chimes in with his rasping, birdlike voice:
O, the sharp-tongued one, isn’t he?
One who challenged everything and everybody –
Including us, the ultimate diviners?
F…..him. Let him swallow his spittle.
I look up and see an emaciated face, almost a scarecrow
A womanish silk-soft sallow-voice sighs
Pity he doesn’t deserve.
Let him rot in the world some years more.
I open my eyes and find myself in the recovery room.

اب آپ غور فرمائیں ۔۔ کہ ظہورہ کی سطح پر بلا صورت و آشکارا  جو ہیولے ذہن میں تخلیقی کار کردگی کے عمل کے شروع میں محسوسیت کی سطح پر تھے ، جن کی ایک جھلک احاطہ ٔ نظر کی حدود کے اندر جھانکتی دکھائی دیتی تھی، اس عمل کے دوران اخفا و اضمار کی چلمن کے عقب سے نکل کر کیسے اپنی ’’منہ دکھلائی‘‘ کرتے ہیں اور نا  صرف بشرہ، ناک نقشہ، حلیہ، شکل، تیور پیش کرتے ہیں، بلکہ لہجہ ، انداز ِ بیان، بھی قابل ِ شناخت بنا دیتے ہیں۔(Example: Booming voice )ایک اور مثال یہ ہے
میں اب صرف اتنا کہہ کر اپنی بات ختم کرنا چاہتا ہوں کہ سچی تخلیق کا دار و مدار فہم، شعور، عقل و دانش پر نہیں ہے۔ اس کے لیے کسی کو بھی چِت یا بودھ نہیں چاہیے، قوائے فکر و فطانت کی ضرورت نہیں، صرف خدا داد حسیت پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے اور پھر برافگندہ نقاب کے لیے وہ ’لشکارہ‘ چاہیے جسے چشم تماشا کی دید بافی کہا گیا ہے۔ الفاظ تو سنتری بھی ہیں، تماشبین بھی اور ہمہ بین گواہ بھی۔ ان سے پردہ کرنا غیر قدرتی ہے۔ یہ خود بخود، پرّا جمائے ہوئے دوڑے چلے آتے ہیں، یعنی کہ آپ اگرکلمہ جنبانی کا مذاق رکھتے ہیں اور آپ کو ایک فصیح گویندہ ہونے کا شعور ہے، تو ۔۔۔۔۔ یہ آپ کی خدمت میں ہر وقت کمر بستہ ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

نظم کے’’معنی کی تحدید‘‘ یا اس کی حد بندی کا نکتہ البتہ رہ گیا تھا۔ اس پہلو کے بارے میں تفصیل سے میں نے اپنے نویں شعری مجموعے ’’بیاض عمر کھولی ہے‘‘ کے دیباچے میں تحریر کیا تھا کہ نظم کا ’معنی‘ اگر کوئی ہے تو اسے منبر کی اونچائی سے خطاب دینے والے مقرر کی طرح سے نہیں بلکہ ان امیجز کی وساطت سے قاری یا سامع تک پہنچایا جانا ضروری ہے تا کہ وہ اسے بجنسہ اپنے ذہن میں اجاگر کر سکے ،جیسے کہ خلق ہونے کے لمحے میں شاعر کے ذہن میں تھا۔۔۔۔میں نے اس دیباچے میں عرض کیا تھا کہ انگریزی شعرا میں سے ، ایلیٹ ؔ سے بھی کہیں زیادہ میں ایذرا پاؤنڈؔ کا اس لیے مقروض تھا کہ اس نے کچھ اصول ایسے وضع کیے تھے، جنہیں ’شاعر‘ کا اندرونی ’میں‘ اور اس کے کابیرونی خطاب کنندہ تو ،میں سمجھتے ہی ہیں، لیکن اس کے تخاطب کا نشانہ، یعنی اس کا سامع، قاری یا کئی دہائیوں یا صدیوں کے بعد اس کے قارئین اس کے ’چِتروں کے کتھن‘ (یعنی تصویری مفہوم یا جو کچھ تصویری امیجز کی زبان سے کہا گیا) سمجھ کر اپنی یاداشت میں اس کا نعم البدل ’چتر‘ یعنی تصویر تلاش کر سکیں۔ پاؤنڈؔ کا پہلا اصول یہ تھا کہ مفہوم کا پس منظر کچھ بھی کیوں نہ ہو ، قدرتی مظاہر کو ہی علامت کا ’پیش منظر‘ بنایا جائے۔’’ سے ڈر ڈر کر، پھونک پھونک کر قدم آگے  رکھو ‘‘، اس نے کہا تھا۔ صرف ایک ارتسام یا مجرد خیال نہیں ہوتا، ایک شجر کے مضبوط تنے کی مانند ہوتاہے، جس کے اوپر جوں جوں نگاہ چڑھتی جاتی ہے، نئی نئی کونپلیں پھوٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔امیجز کا تسلسل ایک مضبوط ترین رسی ہے، جس سے ماضی ، حال اور مستقبل سب بندھے ہوئے ہیں۔ اس نے اسے’’ وورٹیکس‘یعنی’ بگولا‘ یا ’گرد باد‘ کہاجو تینوں زمانوں کو اپنی گردش میں باندھتے ہوئے چکر کاٹتا ہی جاتا ہے۔
آگ، پانی، مٹی، ہوا، زمین، آسمان، ستارے ۔۔۔۔اور ان کےsسینکڑوں، ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ایک ’ابسٹریکٹ امیج‘ یا ’کانسیپٹ‘ (جو ایک مجرد خیال ہے، مثلاً حب الوطنی، غریبی، غرور، طاقت، عزت، ظلم و ستم، ہمدردی، وغیرہ الفاظ) کی جگہ پر ’کانکریٹ امیج‘کا استعمال زمان و مکان کو فتح کر کے دور دراز کے ملکوں اور آنے والی درجنوں نسلوں تک ویسے ہی پہنچتا ہے جیسے کہ تخلیق کار کے ذہن میں نظم کے خلق ہونے کے لمحے میں تھا۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply