چارپائی۔۔حبیب شیخ

امجد کی بات سن کر ٹھیکے دار کا منہ غصہ سے لال ہو گیا لیکن اس نے ضبط کے ساتھ کہا۔ تو پھر اس کو نکال باہر کیوں نہیں کرتے۔ میرے پاس دوڑے دوڑے آنے کی کیا ضرورت ہے۔
وہ جی آپ نے کہا تھا کہ اس کا خود کہیں اور بندوبست کریں گے۔‘ امجد نے ڈرتے ہوئے کہا۔
یہ سن کر ٹھیکے دار پھٹ پڑا۔یہاں پر پچاس کروڑ روپے کا معاملہ ہے اور تم ایک بڈّھے کھوسٹ کے چکر میں پڑے ہوئے ہو۔ اس کو فوراً وہاں سے نکال باہر کرو۔ ہمارا یہ کم احسان ہے کہ پانچ مہینوں سے نا جائز ڈیرہ ڈال کر ہماری زمین بیٹھا ہوا ہے۔ اس میں مجھ سے پوچھنے کی کیا بات ہے؟

امجد کھسیانا ہو گیا لیکن وہ پلاٹ پر نہیں گیا بلکہ وہاں سے نکل کر بڑبڑاتا ہوا  اپنے گھر آگیا۔ وہ ایک حادثےکے شکار ملازم کے باپ کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتا تھا۔

یہ پچھلے ہفتے کی تو بات ہے جب ٹھیکے دار اور امجد بزنس ایکسپریس سے خانیوال واپس آرہے تھے۔ ریل گاڑی آہستہ آہستہ پلیٹ فارم پر رکی تو دونوں اتر گئے، پہلے ٹھیکے دار پھر امجد اُس کا بریف کیس اٹھائے ہوئے۔ ٹھیکے دار کی نظر پلیٹ فارم کے سامنے دوسری طرف ایک بوڑھے آدمی پر پڑی جو ایک چارپائی پر بیٹھا ہوا تھا اور چار لمبی لکڑیوں کے  ذریعے ایک چادر سے چارپائی پر چھت بنائی ہوئی تھی۔ چارپائی سے ایک بکری بھی بندھی ہوئی تھی ۔ ٹھیکے دار نے مڑ کر امجد کی طرف دیکھا اور امجد فوراً ہی ٹھیکے دار کی سکڑی ہوئی آنکھیں دیکھ کر تیور بھانپ گیا۔
’صاحب، میں کل ہی اس کو یہاں سے نکال دوں گا۔ یہ زمین تو ویسے بھی ہم بیچ رہے ہیں۔ اسی مہینے سودا ہو جائے گا۔‘
’لیکن اس بوڑھے کو کس نے اجازت دی ہے کہ یہاں اپنا پڑاؤ ڈال لے؟‘

ٹھیکیدار صاحب، یہ بوڑھا نصیر کا باپ ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ مال روڈ پر جب ہم کرتار مینشن کو گرا کر وہاں ایک اور بلڈنگ بنا رہے تھے تو ایک حادثہ ہوا تھا۔ ایک شہتیر صحیح نہیں لگا تھا اور اس کی وجہ سے چھت گر گئی تھی۔ اس میں تین چار لوگ مر گئے تھے اور کوئی دس کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ نصیر بھی اس حادثہ کا شکار ہوا تھا۔ بیٹے کی موت کے بعد اس کے باپ کے پاس آمدنی کا کوئی وسیلہ نہیں تھا، نہ ہی اس کے پاس کوئی رہنے کی جگہ رہی تو وہ یہاں آ کر ٹک گیا۔ میرا خیال تھا کہ دو چار دنوں کے بعد موسم کی سختی سے تنگ آ کر خود ہی چلا جائے گا لیکن یہ تو پورے پانچ مہینے سے یہاں رہ رہا ہے یعنی یہ چارپائی ہی اس کا گھر ہےصاحب۔ اسٹیشن کے کچھ دکاندار اسے کھانا دیتے ہیں اور یہ چارپائی یہاں پر گھر پائی کے نام سے مشہور ہے۔‘

ٹھیکےدار دار کے چہرے پر کچھ ناگواری تھی۔ امجد ٹھیکے دار کی خاموشی کو اچّھی طرح سمجھتا تھا۔ ’مگر صاحب یہ میری غلطی ہے کہ میں نے اسے یہاں ٹکنے دیا۔ کل ہی میں یہاں سے اس کی چھٹی کر دوں گا۔ آپ فکر مت کیجئے۔

یہ کہہ کر امجد سوچنے لگا کہ یہ تو بہت ہی معمولی کام ہے اور کل صبح ہی مٹھو کو بھیج کر یہ جگہ خالی کرا لے گا۔
ٹھیکے دار نے کھانس کر بلغم کو تھوکا اور  ذرا بلند آواز سےبولا۔ ’نہیں نہیں۔ کوئی ایسی جلدی نہیں ہے۔ یہ تو ہمارے ایک ملاز م کا باپ ہے۔ میں خود اس کے رہنے کا بندوبست کروں گا۔‘
ٹھیکے دار یہ کہنے کے بعد چپ ہو گیا۔ ویسے بھی وہ کم گو تھا لیکن اس وقت تو مکمل سکوت چھا گیا تھا۔

نصیر کی شکل اس کے ذہن میں گھوم رہی تھی۔ ایک گبرو جوان درمیانہ قد، ہلکی ہلکی مونچھیں اور داڑھی۔ اس سے زیادہ ٹھیکے دار کو اس کے بارے میں پتا نہیں تھا۔ پھر اسے نصیر کے باپ کا خیال آ گیا۔ ’اس بوڑھے آدمی کا گھر صرف ایک چارپائی تک محدود ہے۔ اور اس کی جائیداد ایک چارپائی اور بکری پر مشتمل ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے !

یوں تو اسے بہت غریبوں سے پالا پڑا تھا لیکن کبھی اس نے اس انداز سے نہیں سوچا تھا۔ ’آخر یہ بڈّھا کیا کھاتا ہے، کیا پیتا ہے، سخت دھوپ سے کس طرح بچتا ہے اور جب بارش ہوتی ہے تو شاید اسٹیشن کے پلیٹ فارم میں ہی پناہ لیتا ہو گا۔ یہ نہاتا بھی ہے کہ نہیں! یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص کا گھر محض ایک چارپائی ہو۔

ٹھیکے دار نے پریشانی اور تجسّ کے باعث کم کھانا کھایا اور بستر پر لیٹ گیا۔ بیوی کہتے کہتے رہ گئی کہ ڈاکٹر نے کھانے کے بعد تین گھنٹوں تک لیٹنا منع کیا ہے۔ وہ سمجھی کہ کوئی کاروباری مسئلہ ہے جس میں اس کا شوہر الجھا ہوا ہے تَو پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔ ٹھیکے دار کچھ گھنٹوں تک کروٹیں بدلتا رہا۔ ’آخر یہ کیسے ممکن ہے؟ ایک شخص کا گھر صرف اس کی چارپائی ہو۔ اور یہ پانچ مہینوں سے ایسے ہی رہ رہا ہے۔ جب سردی کا موسم آۓگا تو یہ اکڑ کر مر جائے گا۔

جب ٹھیکے دار کی پریشانی اور بڑھی تو اس نے خود کو تسلّی دی کہ وہ ضرور اس بوڑھے کا کوئی بندوبست کرے گا۔ یہ سوچ کر اس کا دل کچھ ہلکا ہوا اور آخر کار وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
دو تین دن ایسے ہی گزر گئے۔ اسٹیشن کے سامنے والی زمین کے لئے ایک سرمايہ کار کافی دلچسپی کا اظہار کر رہا تھا۔ جب سودا طے ہو گیا تو خریدار نے امجد سے مطالبہ کیا۔
’میں صرف صاف ستھرا مال خریدتا ہوں۔ اس زمین پر کوئی آدمی چارپائی ڈالے بیٹھا ہوا ہے۔ پلاٹ کی منتقلی سے پہلے اس کو وہاں سے ہٹانا ضروری ہے۔ اسے کسی گروہ یا پولیس نے رقم ہتھیانے کے لئے بٹھا رکھا ہے۔ میں اس چکروں میں پڑنا نہیں چاہتا۔ مجھے یہ جگہ بالکل خالی چاہیے۔
امجد نے خریدار کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ اس بوڑھے کا تعلق کسی گروہ سے نہیں ہے۔
’یہ تو ہمارے پرانے ملازم کا باپ ہے۔ آپ کاغذات مکمل کیجئے تا کہ اگلے ہفتے منتقلی ہو جائے۔ رہا اس کو ہٹانے کا کام تو ٹھیکے دار صاحب سے بات کروں گا۔ میں تو خود ہی اسے پانچ منٹ میں نکال باہر کرتا لیکن ٹھیکے دار صاحب نے مجھے ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔ وہ خود اس کا کہیں بندوبست کرنا چاہتے ہیں۔ دل جو نرم ہے صاحب کا!

خریدار نے امجد کی کوئی بات نہیں مانی اور اکتائے ہوئے چہرے کے ساتھ یہ بول کر باہر چلا گیا۔ ’میں ایک چٹکی میں اس بڈھے کو نکال باہر کرسکتا ہوں لیکن یہ میرا کام نہیں ہے۔ اگر اس کو کل صبح تک نہیں نکالا گیا تو میں یہ زمین نہیں لوں گا۔

امجد فوراً ہی دفتر کی طرف دوڑ ا۔ وہاں پتہ چلا کہ آج ٹھیکے دارگھر جلدی چلا گیا ہے۔ اب وہ شش وپنج میں پڑ گیا کہ ٹھیکے دار کو گھر فون کرے یا نہیں۔ ’ہو سکتا ہے ٹھیکے دار آرام کر رہا ہو یا اس کی طبیعت صحیح نہ ہو۔ یا کچھ اور کر رہا ہو۔ معاملہ بہت ٹیڑھا ہے۔ بوڑھے کو نکال نہیں سکتا کہ ٹھیکے دار صاحب نے منع کیا تھا۔ خریدار مصر ہے کہ وہ یہ زمین نہیں لے گا اگر یہ بوڑھا صبح تک اپنی جگہ نہ چھوڑ دے۔

اسی پریشانی میں امجد ٹھیکے دار کے گھر کی طرف چل پڑا۔ ہانپتے کانپتے گھنٹی بجائی تو چوکیدار باہر نکلا اور بولا۔
’میں صاحب کو بتا کر آتا ہوں کہ تم ملنے آیا ہے۔‘
چوکیدار اندر سے ہو کر واپس آیا اور بتایا۔ ’وہ بیگم صاحبہ کے ساتھ پچھلے برآمدے میں بیٹھا ہے۔ اس لئے میں نے ان سے نہیں پوچھا۔‘
امجد نے بوڑھے کو دل میں گالی دیتے ہوئے کہاـ۔ ’ان کو بتا دو کہ امجد ایک بہت اہم کام کے سلسلے ميں آیا ہے۔ فوری ملاقات کی ضرورت ہے۔‘
ٹھیکے دار کو چوکیدار کا یہ خلل بہت برا محسوس ہوأ۔ ’امجد کو باہر بٹھاؤ، میں آتا ہوں۔‘
کوئی دس منٹ بعد ٹھیکے دار امجد کے پاس آیا۔ ’اوئے تیرا چہرہ کیوںسفید ہو رہا ہے؟‘

’ٹھیکے دار صاحب، خاں صاحب نے کہا ہے کہ اگر کل صبح تک اس بوڑھے کو وہاں سے نہیں ہٹایا تو زمین کا سودا ختم۔ خاں صاحب کو ڈر ہے کہ اس بوڑھے کو وہاں کسی گروہ نے پیسے ہتھیانے کے لئے بٹھایا ہوا ہے۔‘
ٹھیکے دار نے امجد کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔ ’جاؤ اُس کو نکال باہر کرو ابھی۔۔
لیکن امجد نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے لئے وہ محض ایک بڈّھا کھوسٹ نہیں تھا کہ بلکہ وہ نصیر کا باپ تھا۔ امجد شام بھر یہی سوچتا رہا کہ اس کا کیا بندوبست کرے۔ اسے اپنے گھر لے آئے لیکن اس کے چھوٹے سے گھر میں تو پہلے ہی اس کے ماں باپ، بیوی اور دو بچّے رہتے تھے!

Advertisements
julia rana solicitors london

اگلی صبح دفتر پہنچ کرامجد نے مٹھو کو ساتھ لیا۔ جب دونوں پلاٹ پر پہنچے تو دیکھا  کہ چارپائی غائب تھی اور بکری بھی کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔ پلاٹ کے ساتھ خالی جگہ پر کونے کی مٹّی بہت نرم تھی، معلوم ہوتا تھا کہ آج ہی کھود کر بھری گئی تھی۔

Facebook Comments