کسان اور زمین ۔۔خیام بدخشانی

کسان نے اپنی زمین  پر  پہنچ کر ایک گہرا سانس لیا اور مٹی کی خوشبو اپنے اندر اتارتے ہوئے کہا

“کتنا سکون ملتا ہے اپنی زمین میں پہنچ کر”

زمین کسان کی بات سن کر مسکرا دی۔ زمین جو زرخیز تو تھی لیکن کھیتی ابھی اسے بننا تھا۔

کسان بولا کہ اپنی زمین میں ہل چلا کر نرم کرنا، اپنا پسینہ بہانا، پھر بیج ڈالنا اور سیراب کرنا کتنی خوشی اور طمانیت دیتا ہے۔

کسان کی باتیں سن کر زمین بے تاب سی ہو گئی۔ کسان کو بھی اس کا اندازہ ہو گیا، چنانچہ اس نے ہل چلانا شروع کردیا، زمین کو نرم کرنے لگا۔ وہ ہل چلاتا رہا، زمین کو تیار کرتا رہا۔ اسے ایک خاص لمحے کا انتظار تھا۔ اس خاص لمحے کے انتظار میں وہ پسینے میں شرابور ہو چکا تھا۔ کبھی وہ اپنی رفتار سست کردیتا، کبھی پھر تیز کردیتا۔ لیکن ہل چلانا اس نے ایک لمحے کے لیے بھی روکا نہیں۔

بالٓاخر زمین نے وہ جنبش لے ہی لی جس کے انتظار میں وہ جان مار رہا تھا۔ ایک جھرجھری، ایک سسکی سی زمین کے لبوں سے نکلی اور ہر طرف چھا گئی۔ کسان کے جوش میں اضافہ ہوگیا۔ زمین کے چہرے کے ٹھہرے ہوئے مانوس نقوش بدل چکے تھے۔ زمین کانپ رہی تھی، آنکھیں نیم وا تھیں، سانسیں تیز تھیں، ہونٹ ادھ کھلے تھے۔ زمین نے کسان کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام کر اپنے چہرے کے نزدیک کرلیا اور اپنے ہونٹ کسان کے ہونٹوں میں پیوست کردیے۔ زمین کو اپنے آپ پر، اپنی حرکات پر کوئی قابو نہیں رہا تھا۔ اب کسان دم لینے کے لیے رکنا بھی چاہتا تو وہ اسے نہ رکنے دیتی۔ زمین نے اپنے بازو کسان کے گرد مضبوطی سے لپیٹ دیے۔ اپنی ٹانگوں سے کسان کو سختی سے جکڑ لیا۔ کسان سمجھ چکا تھا کہ اب وہ لمحہ قریب ہے۔ زبان،الفاظ اور جسم پر اسے بھی قابو نہیں رہا تھا۔ صرف اتنا کہہ سکا کہ اب میں بیج ڈالنے لگا ہوں۔ اور بس پھر ایک زلزلہ سا آیا اور کسان کا بیج زمین کی کوکھ میں اُتر گیا۔

زلزلہ تھما تو کسان اور زمین دونوں ہی بے دم سے ہو چکے تھے۔ کسان زمین کے اوپر پڑا تھا۔ دونوں کی آنکھیں بند تھیں اور سانسیں پھولی ہوئی تھیں۔ جانے کتنی دیر بعد کسان نے سر اٹھایا اور زمین کے ماتھے پر ایک بوسہ دیا۔ زمین نے بڑی مشکل سے اپنی پلکیں اٹھائیں، جیسے نشے میں ہو اور ایک بار پھر کسان کو اپنے آپ سے لپٹا لیا۔ کسان زمین کی کروٹ لیٹ گیا اور اپنا سر زمین کے بازوؤں میں اور چہرہ زمین کے سینے میں چھپا لیا۔ تھوڑی ہی دیر میں کسان اور زمین دونوں ہی گہری نیند سو چکے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

زمین اب کھیتی بن چکی تھی۔ کسان کا بیج زمین کے اندر تھا جسے اب زمین کو بارآور کرنا تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply