جنگلی۔۔سیّد ایم زاہد

جنگلی۔۔سیّد ایم زاہد/وہ شادی کے لیے تیار تھی لیکن ساتھ یہ شرط رکھ دی۔ پہلے پہل تو حشمت کو بہت دکھ ہوا کہ وہ  اس کی محبت کو اتنی چھوٹی سی بات سے آزما رہی ہے۔ گرچہ یہ اس کی پسند کے خلاف تھا لیکن زمرہ نے واضح الفاظ میں کہہ دیا۔  

”قدرت نے مرد کو یہ شناخت دی ہے تو تم کیوں مٹاتے ہو؟ ایک تو تمہاری رنگت ایسی ہے اور روزانہ بلیڈ سے چھیل کر اپنے منہ کو ابلے انڈے جیسا بنا لیتے ہو۔ گوری رنگت اور ہئیر لس منہ عورتوں کو سجتا ہے۔“ حشمت خاموشی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں  میں آنکھیں ڈال کر بولی ”سفید رنگت سے ٹھنڈے پن  بلکہ مردہ پن کا احساس ہوتا ہے بالکل مزار کی لوح کی طرح۔“ 

فروری کی شام، ہلکی ہلکی پھوار، جھیل کا کنارہ، ٹھنڈی ہوائیں اور اس کا ساتھ، سب آگ لگا رہے تھے۔ حشمت کا دل کہتا تھا کہ اس کی بات مان لے۔ اسے لمبے بال اور بڑھی ہوئی شیو بری لگتی تھی لیکن پہلی محبت میں ناکامی کے بعد وہ اس کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔ کمزور سی آواز میں  کہنے لگا ”تمہیں شیو کرنے کی قدرعافیت کا اندازہ نہیں، بندہ ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے ویسے بھی داڑھی میں تو رنگ مزید نکھرے گا۔“ 

 زمرہ نے سموری اوڑھنی کا پلو کندھے پر ٹکایا، سنجاب کی کلاہ کا کج سیدھا کرتےکرتے رک کر بولی۔ 

”تم روزانہ چڑھتے سورج کی تیکھی دھوپ میں بیٹھا کرو تاکہ گوری رنگت سنولا جائے۔ فرنگیوں جیسے حسن صبیح سے ہمارا رنگ ملیح زیادہ بہتر ہے۔“

اس نے اپنی زلفوں  کی ایک لٹ حشمت کے اوپری ہونٹ پر رکھ دی۔ ہنستے ہوئے کہنے لگی ”تمہیں مونچھیں کتنی اچھی لگتی ہیں۔“ پھر اپنے لمبے بال اس کے سر اور گردن کے پیچھے لپیٹ کر بولی

”دیکھو! سر کے بال بھی کچھ لمبے کرلینا۔“

”میں تمہاری بات ماننے کو تیار ہوں۔“

اس نے خوش ہو کر حشمت کا ہاتھ پکڑ لیا۔ کوٹ کا بازو اوپر کر کے اس کی کلائیوں کو چومنے لگی۔ 

پھر بالوں پر رخساروں کو رگڑ کر کہنے لگی۔ 

”ہے نا! مردانہ بازو۔ سخت، لوہے کے پٹی جیسا، نمکین اور کھردرا، بالوں سے بھرا، جس میں رپشم جیسی نرمی کا احساس ہے۔“

”اب مجھ سے انتظار نہیں ہوگا۔“

”اپنے بالوں بھرے ہاتھوں کی  طرف دیکھو، کچھ دنوں میں ہی چہرہ بالوں سے بھر جائے گا۔ بس تم اپنے باتھ روم سے شیونگ کا تمام سامان اٹھا کر باہر پھینک دو۔“ 

کومل تو اس کے بازوؤں کو گوریلے جیسے کہتی تھی۔ وہ سمجھتا تھا  کہ اس کے خار جیسے بال ہی قرب کی راہ میں حائل رہے تھے۔ جب کبھی حشمت نے اسے قریب کیا وہ ان بالوں کی چبھن محسوس کر کے تڑپ اٹھی۔ جن سیاہ بالوں کے ساتھ زمرہ اپنے نرم و نازک رخسار رگڑ رہی تھی، کومل ان  کو بوٹ پالش کے برش کی طرح خشک اور کھردرا کہہ کر منہ موڑ گئی تھی۔ حشمت نے تو پنڈ کے رواج کےمطابق بڑی بڑی مونچھیں اور خشخشی داڑھی پال رکھی تھی۔ یہ کومل ہی تھی جس نے اسے کلین شیو کرنے پر مجبور کیا۔ اور پھر وہ خود اس کا عادی ہوگیا۔ روزانہ صبح شیو کرتا تو چہرے کی رنگت ابھرتے چاند جیسی سرخ  ہو جاتی۔ اس کے بعد اپنے گاؤں گیا تو شرمایا شرمایا پھرتا رہا۔ چوروں ڈاکوؤں کی آماجگاہ، علاقہ غیر میں  واقع  اس گاؤں میں گھنی داڑھی اور اینٹھی مونچھوں کو مردانگی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ لوگوں کے طعنوں سے ڈر کر ماں باپ کے پرلوک سدھارنے کے بعد اس نے ادھر جانا ہی چھوڑ دیا۔ 

جن بالوں کی وجہ سے کومل اسے جنگلی کا لقب دے کر چھوڑ گئی تھی، زمرہ ان پر فدا ہو رہی تھی۔ حشمت نے اپنے بالوں پر ہاتھ  پھیرا جو اب اسے پھر اچھے لگنا شروع ہو گئے تھے۔ وہ بالوں بھرے  بازوؤں کو بار بار چوم کر مدہوش ہو رہی تھی۔ حشمت نے آگے بڑھ کر اس کی نرم  و نازک ہموار سانولی باہوں کو تھام لیا۔ اسے چھوتے  ہی حشمت کو کومل کی بات یاد آگئی، ”انسان چھونے اور چھوئے جانے، ہاتھ پھیرنے اور چمٹنے سے لطف لیتے ہیں۔ بالوں کی نسبت ننگی جلد پر ہاتھ پھیرنے کا لطف کہیں زیادہ ہے۔“ 

وہ کہا کرتی تھی ”ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے انسان نے جلد کے بال کھو دئیے۔ یہی وجہ ہے کہ متمدن افراد ان کی قطع و برید پر زیادہ دھیان دیتے ہیں۔“

یہ سلونی محبوبہ انتہائی خوبصورت تھی۔ کومل سے بھی زیادہ۔ اس کی سنہری رنگت حشمت کی گوری جلد کو شرما رہی تھی۔ نرم و ملائم  جلد پر سخت انگلیوں کے پورے پھسلتے جا رہے تھے۔ زمرہ نے اپنا سر اس  کے کندھے پر ٹکا دیا۔ گرم سانسیں اس کی گردن کو موم کی طرح پگھلا رہی تھیں۔ ماتھے پر لہراتا طرہ مشکبو باربار اس کے رخسار کو چھو کر زخمی کر رہا تھا۔ 

زمرہ  نے حشمت کے سر کے بال ہلکے سے کھینچ کر کان کی لو پر دانت گاڑتے ہوئے سرگوشی کی۔ 

”کچھ دنوں کی ہی بات ہے تمہارا چہرا بالوں سے سج جائے گا۔ پھر ہم شادی کر لیں گے۔“

اب وہ روزانہ شام جھیل کنارے بیٹھے ڈھیروں باتیں کرتے۔ وہ بالوں کی عاشق تھی۔ اس کے اپنے گیسو ساق سیمیں کی خبر لاتے تھے۔

ویلوٹ کا لہنگا پہنے دلہن سیج پر بیٹھی تھی۔ 

ناز و انداز تو پہلی ملاقات میں بھی  نہیں دکھائے تھے۔ تکلف کی دھول عرصہ ہوا چھٹ چکی تھی۔ آج بے تکلف ہیجان برپا تھا۔ حشمت کا خمار اور زمرہ کی بیباکی ملاپ کی منازل کو پیچھے چھوڑتی جا رہی تھی۔ سیج پر ہر طرف بے طرح الجھی زلفیں کے  نیچے جوانی کا سیل آتشیں رواں تھا۔ حشمت نے مخمل سے ملائم جسم میں سجے خوشوں میں اپنا منہ چھپا کر گہرائیوں میں چھلانگ لگا دی۔ ناف کی کلی سے صفا پیڑو کی طرف چلتے، عجب جوبن کی نیاری بہاریں لوٹتے، وہ سیل رواں میں بہتا جا رہا تھا۔ ریشمی بدن کی ملائمیت میں، اب باغ تازہ میں بچھے خاروں کی چبھن بھی شامل ہو گئی تھی۔ ا  نگ انگ پھڑک رہا تھا۔ 

اچھل اچھل کر گھائل کرتی جنگلی بلی نے چہار سو اتھل پتھل مچا رکھی تھی۔ کٹیلی آنکھوں میں شہوانی لذتوں کی چمک عود کر آئی۔ جھاڑ جھنکاڑ داڑھی اور مونچھوں کی گھپاؤں کو آب دہن سے بھگوتی، سینے کے بالوں کو نوچتی جدھر سے بھی گذرتی دانتوں اور ناخنوں کی غارت گری کے سرخ نشان چھوڑ جاتی۔  پیٹ کے بالوں کو چومتے چاٹتے اس کے مضطرب چونچال ہونٹ سڈول جانگھوں کی طرف لپکنے لگے تو شہوانیت کا جنون انگیز شرارہ بھڑکنے لگا۔ جنسی بھوک کا وحشیانہ اظہار بگولے کی طرح سب کچھ روندتا جا رہا تھا جیسے ہند پر غضب کا کٹک قندھاری چڑھ دوڑا ہو۔ پھر یک دم جنگلی بلی کی آنکھیں، خوفناک آنکھیں جن کی گہرائی میں وحشت تھی، خون سے بھر گئیں۔ مرد افگن کی چشم خروس میں سفاکی و جھلاہٹ کے شہابی ڈورے بھڑک اٹھے۔ غراتی ہوئی بولی 

”یہ کیا؟“

شیرنی کی طرح اس پر چھپٹی اور اپنے دانت گوشت میں گاڑ دئیے۔ حجلہ عروسی درد سے بلکتے حشمت کی چیخوں سے گونج اٹھا۔

علیحدہ ہوئی تو لوتھڑا چباتے ہوئے چلائی

”تمہیں یاد نہیں، میں نے کیا کہا تھا؟ 

Advertisements
julia rana solicitors

شیونگ کا سارا سامان اپنے باتھ روم سے باہر پھینک دو۔“ 

Facebook Comments

Syed Mohammad Zahid
Dr Syed Mohammad Zahid is an Urdu columnist, blogger, and fiction writer. Most of his work focuses on current issues, the politics of religion, sex, and power. He is a practicing medical doctor.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply