مورکھ من/شاہین کمال

وہ  انسان کسی کو سمجھنے کا دعویٰ کیا کرے جو خود ہی کو نہ جان پایا ہو۔ مجھے یاد ہے میں بر دِکھوّئے پر زینت کے گھر گیا تھا۔ زینت کے بیٹھک میں داخل ہوتے ہی، ہر چیز گویا کھل کر سانس لینے لگی ، بلکہ مجھے تو چائے کا  کپ بھی ناچتا  ہوا  محسوس ہوا ۔ عزیزہ آباد کے اس چھوٹے سے کوارٹر کی پُر بہار رونق اور آرائش زینت ہی تو تھی۔ زینت بولڈ لڑکی تھی ، اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بغیر کپکپائے، تھرتھرائے چائے پیش کی، البتہ میں جھینپو پسینے پسینے تھا۔ بس اسی وقت دونوں طرف سے ہاں ہوئی اور پچاسی کے موسمِ بہار میں زینت نے پوری دلبری سے میری زندگی کا اختیار اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ ان دنوں میں ایک اہم صحافتی پراجیکٹ پر تھا سو ہم لوگ ہنی مون پر تین ماہ کی تاخیر سے نکلے۔ مری، کاغان، سوات کے حسن کو اپنی حسیات سے کشید کیا۔ وہاں کی رومان پرور فضاؤں میں یقیناً آج بھی زینت کے جاندار قہقہے بسے ہوئے ہوں گے۔

ہنی مون پر سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ وہیں کالام میں ایک اور نو بیاہتا جوڑا بھی اپنا ہنی مون منانے آیا اور بس ، پھر  مجھ پر وہی ازلی بے زاری طاری ہو گئی جو میرے مزاج کا خاصہ تھی۔ بمشکل تمام بقیہ چار دن گزارے اور کراچی پلٹ آئے ۔ زینت میری اس کایا کلپ پر پہلے ٹھٹھکی، ششدر ہوئی، پھر منت و زاری کی، روٹھنا منانا بھی ہوا اور انجامِ کار حتمی بےزاری۔ زینت کی غلطی کہیں بھی نہیں تھی پر شاید قصور وار میں بھی نہیں کہ میری وائرنگ ہی ایسی ہوئی تھی۔

ہمارے مابین شاید قطبین جتنا فاصلہ تھا، ابتدائی دن تو جسم کی کھوج اور کشش میں گزر گئے پھر پوری قوت سے قنوطیت مجھ پر حملہ آور ہوئی۔ زینت زندگی سے بھر پور، قل قل کر تی کھلکھلاتی مینا اور میں قبروں کا مجاور اور ویرانوں کا اسیر۔ وہ شہری زندگی اور ہاؤ ہُو کی شیدا میں ٹھہرا تنہائی میں آسودگی محسوس کرنے والا خاموش بندہ۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ زینت نے اس لا حاصل رشتے پر زیادہ وقت اور توانائی صَرف نہیں کی، بلآخر اس شادی کا انجام وہی ہوا جو ازل سے طے تھا۔

زینت میری زندگی سے نکل گئی اور مجھے رتی بھر بھی فرق نہیں پڑا۔ ہاں مجھے پشیمانی اور ضمیر کی چُبھن ضرور تھی۔ ایک احساس جرم بھی کہ میں نے ایک ہنستی کھیلتی لڑکی کی زندگی کو گہن زدہ کر دیا مگر شکر کہ زینت نے اپنے آپ کو گھن نہیں لگنے دیا اور جلدی ہی وہ دوبارہ پوری توانائی سے زندگی کے دھارے میں شامل ہو گئی ۔ ہمارا ایک ہی شہر کا رہنا بسنا تھا سو مختلف ذرائع سے اس کی خبریں تواتر سے ملتی ہی رہتی تھیں ۔ طلاق کے چھ ہی ماہ بعد جب مجھے اس کی شادی کی خبر ملی تو سینے پہ رکھا بوجھ جیسے سرک سا گیا۔

میری زندگی اپنی ڈگر پر چلتی رہی ، میں بیک وقت دو دنیاؤں کا باسی تھا۔ ایک یہ خارجی دینا جس میں، مَیں سب کے ساتھ اٹھتا، بیٹھتا بستا تھا اور ایک میری ذاتی دنیا، جہاں وہ تھی اور بس میں تھا۔ وہ دل آرا جس کے نام سے بھی میں آشنا نہ تھا مگر وہ میرا سب کچھ تھی ۔
ہے نا دیوانہ پن  !

وقت گزرتا گیا۔ دنیا نے کئی چالیں  بدلیں  ، بڑے بڑے انقلاب آئے اور دنیا الٹ پلٹ گئی مگر نہ بدلا تو یہ مورکھ دل۔

آج اتوار ہے اور میں حسب معمول ریگل چوک روانہ  ہوا ہوں ۔ یہ میرے ہر اتوار کا معمول ہے۔ ڈھائی تین گھنٹے فٹ پاتھوں اور ریڑھوں پر پڑی کتابیں کھنگالنا میرا دل پسند مشغلہ ۔ مجھے کتابوں اور وہ بھی پرانی کتابوں کی قربت میں سکون ملتا ہے، ان کی باسی سوگندھ میرے سوختہ دل پر محبت سے پھاہے رکھتی ہے۔ پر اِن انمول اور نایاب کتابوں  کو یوں کوڑیوں کے مول فرشِ خاک پر رلتا دیکھنا بھی ایک سانحہِ عظیم ہی ہے۔ علم کی اس سے زیادہ بےقدری اور کیا ہوگی؟ آج میں نے پانچ کتابیں مول لیں اور پھر ایرانی کیفے کے پُرسکون ماحول میں چائے پی کر گھر واپس آ گیا۔
عجیب اتفاق کے پانچ میں سے تین کتابوں پر خوب صورت نسوانی تحریر میں ایک ہی نام درج تھا ” تمکین بیگ “۔
قسمت کی یاوری دیکھیے اسی میں سے ایک کتاب میں مجھے وہ مل گئی۔
وہی، ارے ہاں وہی کالام والی اپسرا عروسِ  نوء !

میں نے اُس آخری شام اسے اسی سرخ سواتی لباس اور زیورات سے مرصع دیکھا تھا۔ بے انتہا خوب صورت، اداس آنکھوں والی وہ ساحرہ، جس  کی آنکھیں خالی اور مسکراہٹ اوپری اوپری تھی۔ اس شفق رنگی شام میں گیلری کے ستون سے ٹیک لگائے کھڑی وہ فطرت کا رنگین و خوشنما حصہ ہی لگ رہی تھی۔ اس کے اداس حسن کے سبب اس کی شخصیت میں ایک عجب گداز اور بانکپن تھا۔ وہ کہیں سے بھی تو نئی نویلی دلہن نہ لگتی تھی، ایک حزن تھا جو اس کے سراپے پر امر بیل کی طرح لپٹا ہوا تھا۔ اس کا اوسط سا شوہر اس کے واری صدقے جاتا، بالکل ہی والہ و شیدا تھا۔ اسے شاید تصویریں کھینچنے کا خبط بھی تھا یا پھر شاید وہ اس سفر کے لمحے لمحے کو مقید کرنے کا آرزو مند  تھا۔ وہ ہر اینگل و انداز میں اس حسن کی دیوی کی تصاویر اتارتا اور وہ مجسمہِ زیبائی  پرائی، اکتائی اکتائی سی رہتی۔
میں نے اسے دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ اسی پل مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرا مدتوں سے بچھڑا وجود مجھ سے واپس مل گیا ہے۔ اسے پانا تو دور کی بات، میں تو اسے جانتا تک نہ تھا پر وہ میرے شعور میں اتنا رچ بس چکی تھی کہ میں اسے باقاعدہ محسوس کرتا تھا۔ جانے یہ دیوانے پن کی کون سی اسٹیج تھی پر تھی ۔ بس میرے دل کے لیے ایک یہی اطمینان کافی تھا کہ وہ بھی انہی فضاؤں میں کہیں سانس لیتی ایک حقیقی وجود ہے، محض میرے تخیل کی کرشمہ سازی نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج اڑتیس سالوں کے بعد اس کی کالام والی تصویر میرے ہاتھوں میں تھی۔ اسی سواتی سرخ لباس میں ملبوس عروسِ نو کی۔ میں نے اس تصویر کو اپنے سینے پر اوندھاکرکے رکھتے   ہوئے طمانیت سے آنکھیں بند کر لیں کہ برسوں بعد میرے تڑپتے، بلکتے مورکھ دل کو سکون ملا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply