میں تو چلی چین/تھوڑا تھوڑا احوال ائیرپورٹوں کی دنیاؤں کا(قسط2) -سلمیٰ اعوان

سفر کے دو موڈ ہمیشہ سے میرے لئے بڑی کشش، عجیب سی سنسنی اور کچھ کچھ تھرل جیسے جذبات و احساسات کا نمائندہ رہے ہیں ۔ٹرین اسٹیشن کی دنیا کا اپنا حسن اور ایئرپورٹ دنیا کی رنگینیاں اپنی جگہ، تاہم یہ ذریعہ سفر جس میں ماٹھے لوگوں کے احساس کمتری کی‘‘ مَیں ’’ کی خاصی تسکین ہوتی ہے کہ بیچارے اپنے ہینڈ بیگوں اور اٹیچی کیسوں سے مہینوں اُن ٹیگوں کو اُتارنے کے بجائے اُن کی نمائش کرتے ہیں کہ واقفان حال جان لیں کہ وہ بھی خیر سے بڑی اونچی شے ہیں۔

نسرین کو رخصت کرنے اس کا پورا خاندان گاؤں سے آیا ہوا تھا ۔ان کے چہروں پر مسرت کی تمتماہٹ تھی تو کچھ کی آنکھوں میں حسرت اور حسد بھی۔ بقول نسرین کے وہی بات اس کے بھاگ ہی اُونچے تھے ۔

سچی بات لڑکی تھی ہی بڑی بھاگوان تھی۔ ابھی چند دن پہلے سعدیہ کی کال یاد آئی تھی۔ ہنستے ہوئے بتاتی تھی کہ یہاں بھی نسرین کی آمد کے بڑے چرچے ہیں۔دوست احباب سب پہلی بات اس ماہ جبین کے حوالے سے ہی کرتے ہیں۔
‘‘ تو بھئی کب آ رہی ہے آپ کی نسرین بیگم۔’’
‘‘ہاں توبھئی کیوں نہ پوچھیں گے سیاپے تھوڑے ہیں ان لڑکیوں کو بھیجنے کے۔’’ مجھے بھی پھپھولے پھوڑنے کا موقع  مولا دے۔
‘‘اب اللہ بیلی رب راکھا’’ کہہ کر اندر داخل ہوگئے تھے۔
جب کاؤنٹر کے سامنے کھڑے باری کے انتظارمیں تھے۔ دفعتاً قدرے مانوس سی صورت کو فوراً آنکھوں نے پکڑا۔قریب ہونے پر حسینہ معین کا احساس ہوا۔ حسینہ کے ساتھ بھی اب ہماری طرح کچھ تھوڑی سی کے سلسلے نتھی ہوگئے ہیں۔تھوڑی سی بھلکڑ ، تھوڑی سی حواس باختہ اور کچھ کچھ سنکی سی۔
ہیلو ہائے کے بعد پوچھا کہ‘‘ بھئی ارادے کہاں کے ہیں؟’’
پتہ چلااسلام آباد جارہی ہیں۔خیر لہجے میں اتنا تفاخر تو نہیں تھا کہ پاکستان آرمی نے 23مارچ کے حوالے سے بُلایا ہے۔ ہاں البتہ اس پر ضرور زور تھا کہ ہر سال ہی بڑے اصرار سے مدعو کرتے ہیں۔
‘‘بھئی آپ وی آئی پی جو ٹھہریں۔’’

اب ان کی بورڈنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔مشین پر اُن کا فالسئی رنگ کا اٹیچی کیس دھرا تھا۔خدا جھوٹ نہ بلوائے طول و عرض اتنا تھا کہ میں دونوں بازوؤں کو جی کھول کر جتنا پھیلا سکتی تب بھی وہ اُس میں بمشکل ہی سماتا۔
دہل کر میں نے اس کے دھان پان سے وجود کو دیکھا۔ لمبی سی‘‘ آہ میں اُف’’ کہا۔

اب کاونٹر کلرک اور ان کے درمیان مکالمہ شروع ہوگیا۔پہلے مرحلے میں سامان زیا دہ ہے کے سلسلے میں 3500ادائیگی کریں کے لیے کہا گیا۔جواباً انہوں نے پاک فوج کی مہمان ہونے کا جواز دیا۔
سیٹ پر بیٹھا ڈیوٹی کرتا آدمی بھی کوئی بڑا ایماندار قسم کا ہٹیلا اور جھگڑالو سا تھا۔ اُ ن کا یہ کہنا تو مانو جیسے گولے بارود کی طرح پھٹا ۔تلخی سے بولا۔
‘‘بی بی میرا اِس سے کیا لین دین؟وزن زیادہ ہے۔پیسے بھریں۔آپ چاہتی ہیں مجھے یہ ہرجانہ پڑے۔’’

اب بحث و مباحثہ طول پکڑ رہا تھا۔اُس نے اپنے مینجر کی طرف دھکیل دیا۔اُن کے پاس گئیں وہ آیا۔ 1500کی رعایت اور 2000کا کہہ کر معاملہ نپٹا دیا۔

سوال ضرور دل میں اٹھا تھا۔
‘‘ہم کب ایک ذمہ دار قوم بنیں گے؟’’

پچپن منٹ کی فلائٹ نے پورا سوا گھنٹہ لیا۔کہیں ڈیرہ اسماعیل خان پر سے اڑتے ہوئے محفوظ راستوں کی تلاش ضروری تھی۔ظاہر ہے اب سفر نے طوالت تو پکڑنی تھی۔

‘‘میرے مولا کون ان دو پاگل گوانڈیوں کو سمجھائے کہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑت تو کچھ ایسی ہی ہے جیسی ناخن اور ماس ہو۔اب ستّرے بہترے تو ہوگئے ہو۔کچھ عقل کو ہاتھ مارو۔ایک دوسرے کو مانو اور جینا سیکھو۔ہر وقت دوکان داریاں ہی چمکاتے رہتے ہو۔ ایک کی انگلی نے اگر تماشہ کرتے ہوئے بٹن پر ہاتھ رکھ دیا تو سمجھ لو دوسرے کا بیڑہ غرق ہونے کے ساتھ ساتھ اپنا بھی ہوگا۔تو لازم ہے کہ زیادہ مہم جوئیاں اور سیاسی تماشے دکھانے سے بچا جائے۔’’

رات کے گیارہ بجے خیر سے اسلام آباد کے نئے ائیرپورٹ پر ڈولا اُترا تو ساری خوش فہمیوں اور انجوائے کرنے کا تھرل موت کی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا کہ پتہ چلا ۔خیر سے سامان لو،اُٹھاؤ اور ہوٹل چلو۔ یا اللہ موسیٰ ڈریا موت توں تے موت کھڑی اگے۔

اب سامان کی اگرائی کے لیے چلے تو دیکھا کہ چند نوجوان بچے بچیاں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہمارے دائیں بائیں سے شوں شوں کرتے گزر رہے ہیں۔ پتہ چلا کہ خیر سے چین میں ڈاکٹری پڑھ رہے ہیں۔ سامان والے ہال میں کنوئیر بیلٹ کے گرد کھڑے ماشاء اللہ سے اِن جیالوں کی بہار تو آ ئی پڑی تھی۔

مزید جانکاری کا تجسّس کشاں کشاں اِن کے پاس لے گیا اور شروع ہوا کُرید اور سوال جواب کا سلسلہ۔ جانا کہ ڈاکٹری کے ساتھ کچھ انجینئرنگ ،بزنس ایڈمنسٹریشن، اکاؤنٹس اور ماحولیاتی مطالعہ کے طالب علم بھی ہیں۔اب یہ تو پوچھنا فضول تھا کہ پاکستان کی بجائے چین میں کیوں پڑھ رہے ہیں؟ایک وجہ تو معلوم ہی تھی کہ میڈیکل اور انجینئرنگ میں میرٹ پر نہیں آئے ہوں گے۔ اُن کے مطابق چین میں پرائیوٹ میڈیکل اور نا ن میڈیکل تعلیم بمقابلہ پاکستان بہرحال سستی ہے۔بیجنگ سے ملحقہ شہروں میں چھ ،سات لاکھ سالانہ اور کوئی پچیس ہزار کا ماہانہ ہوسٹل خرچہ۔

چلو یہ تو خوشی کی بات تھی کہ پاکستانی والدین نے یہ حدیث کیا لڑکوں بلکہ لڑکیوں کے لیے بھی پلّے سے باندھ لی ہے کہ بھئی علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔

اب میرے جیسی کے لیے یہاں تک ہی ٹھہرنا مشکل تھا ۔معیار تعلیم ،ذریعہ تعلیم اور دونوں نظاموں کے موازنے بارے بھی تو پتہ لگنا چاہیے۔

ذہین لڑکوں کا جواب تھا ۔ذریعہ تعلیم تو بے شک انگریزی ہے۔اساتذہ بھی زیادہ تر پاکستانی، بنگلہ دیشی،نیپالی اور ملائی ہیں۔تاہم تھیوری پر زور ہے۔ عملی کام صفر ۔میڈیکل کے بعد پاکستان میں ٹیسٹ دینا پڑتا ہے۔

چینی کتنے لوگوں کو آتی ہے اور چینیوں کو کیسا پایا ہے؟کچھ کا جواب تھا ہماری یونیورسٹی میں پاکستانی ہی اتنے ہیں کہ ہمیں چینیوں کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ یعنی چینی طلبہ سے ربط و تعلق کم کم، ایک طرح نہ ہونے کے برابر ۔کچھ کا کہنا تھا بس اچھے ہیں۔

جوابات نے مجھے بتا دیا تھا کہ بھیجنے سے پہلے تربیت نہیں کی گئی۔کِسی پلاننگ سے نہیں آئے۔جانتے نہیں ہیں کہ پاکستان کے سفیر ہیں۔ چین جیسے دوست اور قابلِ  رشک ترقی کرنے والے ملک سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ نجی طور پر ساری کوششیں ہیں کہ بیچارے سادہ لوح ماں باپ یہ فخر کرسکیں کہ دھی یا پُتر پڑھنے کے لیے چین گیا ہے۔

چلو بھاری بھر کم سامان کے ٹرالی میں ڈھونے میں نوجوان بچوں نے مدد کردی۔لفٹوں کے اندر ٹرالیوں سمیت داخل ہوکر باہر آنے اور عقبی سمت کھڑی ہوٹلوں کی سوزوکیوں میں سامان کی لدلدائی ہوگئی۔ تاہم روالپنڈی صدر کے رائل پیلس ہوٹل تک کے درمیان چالیس میل کے ٹوٹے کا سفر جب بدن تھکن سے چور اور آنکھیں نیند سے بوجھل ہوں ،کرنا بڑا ذلیل کام تھا۔یہ ہم نے بصد شوق نہیں بہ امر مجبوری کیا۔ ہوٹل اچھا تھا۔لفٹ بند اور کھانا تقاضے کے بعد ملا تھا۔ وہ بھی نرا بے سوادا۔ ‘‘پراں مارو مگروں لؤ’’ جیسے محاورے کا سچا ترجمان تھا۔

اب مزید کچھ باتیں حیرت میں اضافے کا باعث تھیں۔لڑکے لڑکیوں کے درمیان جو تعلق اور قربت کے منظر دیکھنے کو ملے تھے۔ وہ کچھ کہانیاں تو ضرور سُنا رہے تھے مگر اُن کی گہرائی ایسی شدید ہے ۔اس کا احساس مجھے کمروں کی الاٹمنٹ کے وقت ہوا۔
پہلی لعن طعن خود کو کرتے ہوئے کہا۔
‘‘چل ہٹ پرے ہو۔اپنے وقت نہ ڈھونڈ۔۔مگر کیا کرتی؟فطرت سے مجبور تھی۔

تین بجے سوئے تو ساڑھے چار بجے تیز الارم سے اٹھ کر جب نیچے لاؤنج میں آئی تو طلبہ جوڑوں کی آنکھوں میں کہانیاں تھیں۔جی سرپیٹ لینے کو چاہ رہا تھا ۔کیا والدین جانتے ہیں کہ کنواری بیٹیوں اور بیٹوں کی شب بسری کہاں ہورہی ہے؟

ائیرپورٹ کے سارے مخصوص تھکا دینے والے مرحلے طے کرکے شکر شکر کرتے ہوئے لاؤنج میں آبیٹھے ۔یہاں طلبہ کے علاوہ پختہ عمر اور جوان مسافروں کی ایک نئی کھیپ تھی۔ان کے چہرے مہرے ،لباس،حال احوال انہیں کہیں پنجاب کے کم ترقی یافتہ شہروں اور کہیں خیبر پختون خوا  سے تعلق کا بتاتے تھے۔اب اِن لوگوں سے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا۔
معلوم ہوا کہ بزنس کرتے ہیں ۔چائنہ آنا جانا اُن کے لیے معمول کی بات ہے۔موتیوں،ہوزری،گارمنٹس،بیگز،پھلوں ،سبزیوں، دفاعی آلات وغیرہ وغیرہ۔

اب میرے سینے میں بھانپڑ نہ مچتا تو اور کیا ہوتا؟کپاس پیدا کرنے والا ملک جس کا لائل پور کبھی پاکستان کا مانچسٹر تھا۔زرعی ملک جس کے پھل اپنے ذائقے میں بے مثال،جس کی سبزیاں بہترین۔پاکستانی گاجر اپنی مٹھاس رنگ اور ذائقے میں منفرد۔
عثمان پیرزادہ یاد آئے تھے جن کی بیٹی پاکستانی گاجریں اپنے ہینڈ بیگ میں ڈال کر کینیڈا لے گئی کہ اپنی دوستوں کو دکھا سکے کہ اس کے ملک کی یہ سبزی کتنی خوش رنگ اور ذائقے دار ہے۔

اب اس ملک کی منڈیوں میں بہت سے پھل اور سبزیاں باہر سے آتی ہیں۔ یہ پھل جن کے ذائقے بے سوادے جنہیں کھا کر منہ بنے۔
پروردگار ہماری نالائقیوں نے ہمیں کہاں پہنچا دیا ہے؟

پاس بیٹھے ایک خوش شکل تیز طرّار لڑکے سے بات چیت ہوئی پتہ چلا کہ وہ گیس سلنڈروں کی بکنگ کے لیے جارہا ہے۔اب بھلا سوال کیوں نہ ہوتا؟ہو ا کہ یہ سلنڈر کیا پاکستان میں نہیں بن سکتے ؟
بن سکتے تھے مگر اب نہیں۔1972-73 میں بننے بنانے کے عمل کا آغاز ہونے کی ضرورت تھی۔ہر صنعت غلطیاں کرنے ،سیکھنے اور چیزوں کو بہتر کرنے کے عمل سے گزرتی ہے۔چالیس سال کے عرصے میں یہ ان مرحلوں سے گزر کر بہت آگے چلے گئے ہیں۔زمانہ تو اب آرٹیفشل انٹیلیجنس کا آگیا ہے۔

تو اب سوچتی تھی کہ بھٹونے صنعتوں کو کیوں قومیایا؟ایوب گو فوجی تھا پر صنعتی ترقی تو ہوئی اور بہت ہوئی۔ انڈونیشیا، ملائیشیا ، کوریا کی مثالیں سامنے ہیں۔ہم تو ان سے آگے تھے۔ راتوں رات چلتی صنعتوں کو قومیانے میں لگ گئے۔ایسے میں مزید صنعتوں کی گنجائش کہاں رہی؟

کرشماتی صفات والا بھٹو کہاں کا وژنری لیڈر تھا؟ کیا وہ دُنیا کی انقلابی تحریکوں اور اُن کی تاریخ سے واقف نہ تھا ۔یقیناً تھا۔اُس نے 1917کے روسی انقلاب کو بھی یقیناً پڑھا ہوگااور جانتا ہوگا کہ انقلاب کے بعد جب ماسکو میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوا۔ غیر تربیت یافتہ ان پڑھ بالشویک مزدوروں نے اپنے آپ کو صنعت و حرفت کا مالک سمجھنا شروع کردیا۔ پور ے ملک میں طوائف الملوکی کی سی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔گورکی نے اپنے ذاتی اخبار ‘‘نوایا’’میں بالشویکوں پر نکتہ چینی کی تو اس کے اخبار کو بند کرنے کا مطالبہ ہوا۔لوگوں کا ایک جّمِ غفیر لینن کے پاس جلوس کی صورت پہنچا۔صورت اتنی گھمبیر تھی کہ لوگوں کو ان کی خامیوں اور کمزوریوں کا احساس دلانا پڑا۔سختی کرنی پڑی۔

تو یہاں بھی یہی ہوا تھا۔تربیت کرنی ضروری تھی۔انسانی جبلت میں ملکیت کی جبلت قدرت نے رکھی ہے ۔آپ اس کے خلاف تھوڑی سی مدت کے لیے تو جاسکتے ہیں زیادہ دیر کے لیے نہیں۔غیر تربیت یافتہ، احساس ذمہ داری سے عاری لوگ سہولتیں چاہتے ہیں مگر کام کرنا نہیں۔

روانگی کا اعلان ہورہا تھا۔
چل اُٹھ تیرے رنڈی رونے نہیں ختم ہوتے ۔اندر نے لتاڑ دی تھی۔

جہاز میں لدلدائی ہوگئی۔اس نے اڑان بھری۔رات کا بھوکا پیٹ اب شور مچاتا،بھوکی آنکھ سامنے بیچ کا راستہ دیکھتی کہ کب ٹرالیوں کی کھن کھن سے فضا گونجے،قہوے اور ناشتے کی خوشبو بکھرے ۔پر وہاں تو حال تھا کہ امّاں نہ پونیاں۔پھر اٹھی۔کچن میں پہنچی اور کہا۔
‘‘ناشتہ۔’’
‘‘لنچ ملے گا۔بریک فاسٹ تو پروگرام میں نہیں ۔’’
ذرا نرم ،ذرا دھیمے لہجے میں کہا گیا۔
‘‘ ارئے بھئی بلڈ پریشر کی دوائی کھانی ہے۔’’
چلو تھوڑا دودھ دیا گیا۔بے چاری پی آئی اے کتنی غریبڑی ہوگئی ہے۔
شکر ہے اس کراس کنٹری فلائٹ میں اچھی صورتیں تھیں۔ نوخیز کلیوں اور گلاب کے شگفتہ پھولوں کی ضرور کمی تھی۔ تاہم جو بن سے اک ذرا ڈھلکے ہوئے پھول تو بہرحال تھے۔

ہوائی میزبانوں کا نیا یونیفارم مجھے تو عجیب سا لگا۔ شاید ہمارے بوڑھے ذہن تبدیلی کو جلد نہیں اپناتے۔
محبت کے عملی مظاہروں کا منظر بھی مزے کا تھا۔پاکستانی مرد ذہنیت یہاں بھی کا رفرما تھی کہ اسلام آباد سے سوار ہونے والے طالب علم لڑکوں نے اپنی اپنی دوست لڑکیوں کی سیٹیں دوسرے مردوں اور لڑکوں کے ساتھ دیکھ کر اُن کی اکھاڑ پچھاڑ شروع کردی۔

بخدا انہیں تو جیسے پہیے لگ گئے تھے۔ کہیں منت سماجت اور کہیں واسطے ترلوں سے بالآخر وہ ان کا گرلز پورشن بنانے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ تب جاکر انہیں چین نصیب ہوا۔اور وہ اپنی سیٹوں پر ٹک کر بیٹھے۔

بڑا غریبڑا سا لنچ تھا۔سارا جہاز پیک تھا۔قسم کھانے کو ایک سیٹ خالی نہیں تھی۔

نماز ظہر بھی ہوئی۔فضاؤں میں سجدے کے اِس منظر نے مجھے بھی ترغیب دی مگر ایک فٹ کے غسل خانے میں وضو کرنا جوئے شیر لانے والا کام تھا جو میرے بس کی بات نہیں تھی۔بس تو زبانی کلامی اپنی محبتیں اس کے پاس بھیج دیں۔
چنگی آں یا مندی آں
صاحب تیری بندی آں

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply