’’جاوید دانش‘‘ کی جگر پاشیاں (مہجری ڈرامے ’’ہجرت کے تماشے‘‘)-فیصل عظیم

زلفِ ’’نیم دراز‘‘ اور بالوں میں کبھی کبھی چھوٹی سی چوٹی کے باوجود جاوید دانش صاحب کے بارے میں بعض اوقات خواتین بدگمانی کے سے انداز میں پوچھتی ہیں کہ ’’جاوید دانش مجھے ’جگر‘ کیوں لکھتے ہیں‘‘ تو قہقہہ لگانے کے بعد میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ ’’فکر نہ کریں ہم سبھی ان کے جگر ہیں یعنی وہ سب کو اپنا جگری دوست سمجھتے ہیں۔ یہ ان کی محبّت (افلاطونی Platonic) کا انداز ہے کہ وہ فیس بک پر بلا امتیازِ رنگ و نسل اور جنس، سب کو جگر کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اور یقین کریں یہ کام وہ بہت نیک نیتی سے کرتے ہیں‘‘۔ بس میں یہ کہتے کہتے رک جاتا ہوں کہ ان کی داڑھی کا ہی خیال کر لیں۔ جی ہاں، گھنی  داڑھی، گرجتی آواز اور (تقریباً) ٹکسالی لہجے میں گفتگو کرنے والے یہ لمبے چوڑے برادرِ بزرگ جاوید دانش ہیں جن کی شرارت بھری مسکراتی آنکھوں سے دنیا دیکھیں تو گدگداتی بھی ہے، اور رُلاتی بھی ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جو ان کی تحریروں میں منقّش ہے اور اس کا ایک ثبوت ان کا زیرِ نظر مجموعہ ’’ہجرت کے تماشے‘‘ ہے۔ ویسے اوپر درج باتوں کو میرا بیانِ عاشقانہ قرار دے کر بزرگ خواتین کرم فرما ہمیشہ کی طرح میرے کان بھی کھینچ سکتی ہیں بلکہ زلفوں کے ذکر پہ تو وہ اس بار مجھے زلف کی اسیری کا طعنہ بھی دے سکتی ہیں مگر کان کھنچنے اور سننے کے لیے ہی تو ہیں۔

اب آئیے جاوید دانش صاحب کی جگر پاشیوں کی طرف۔
’’ہجرت کے تماشے‘‘ ڈراموں کا مجموعہ ہے جس میں بعض مختصر اور بعض قدرے طویل ڈرامے ہیں۔ اس کے سرورق کی پیشانی پر ’’مہجری ڈرامے‘‘ نہ بھی لکھا ہو تو کتاب کا عنوان خود ہجرت کے موضوع کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اسی پس منظر کے ساتھ جن کہانیوں کو موضوع بنایا گیا ہے، وہ ایسے لوگوں کی کہانیاں ہیں جو ہندوستان اور پاکستان سے کسی نہ کسی سبب نقل مکانی کر کے دیارِ مغرب، بالخصوص کینیڈا آکر آباد ہوئے اور نت نئے مسائل اور امتحانوں سے گزر رہے ہیں مگر اس کے لیے خود کو ذہنی طور پہ تیار نہیں کر سکے ہیں۔ جسمانی طور پہ تو آگئے ہیں مگر ذہنی طور پہ نہیں آئے۔ ہجر تو ہوگیا، ہجرت مکمّل نہیں ہوئی۔ پیر آگے کی طرف ہیں، نظریں پیچھے کی طرف۔ اس کتاب کا عنوان بہت بامعنی ہے کیونکہ ہم سب تماشے ہی تو ہیں۔ سچ پوچھیں تو خود کو، اپنے معاملات اور اپنے ماحول کو دور کھڑے ہو کر دیکھیں تو رونا آئے یا نہ آئے ہنسی ضرور آئے گی۔ نئے نئے مسائل، نئی نئی حماقتیں، لہجے، زبان، حلیے، باتیں، غرض عجیب عجیب تماشے ہیں جو ہم دیکھتے اور کرتے رہتے ہیں۔

جاوید دانش مصنّف تو اچھے ہیں ہی، مقرّر بھی اچھے ہو سکتے ہیں (یا شاید ہوں) کیونکہ انھیں گفتگو کرنا خوب آتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے مکالمے بھی دلچسپ، بھرپور اور پڑھنے، سننے دونوں سے تعلّق رکھتے ہیں۔ وہ ’’آوارگی‘‘ کے نام سے مصاحبے (انٹرویو) کا ایک سلسلہ بھی مستقل مزاجی سے جاری رکھے ہوئے ہیں جس میں کی جانے والی گفتگو میری درجِ بالا باتوں کا ثبوت ہے۔ گفتگو ایک فن ہے اور اس میں فنّی خرابی ہو تو سننے والے کے لیے مشکل ہوجاتی ہے۔ مگر جاوید دانش کو گفتگو کا فن بھی آتا ہے اور شاید مزہ بھی۔ ان سے بات کرکے ان کی الفاظ یا زبان سیکھنے اور برتنے پہ دسترس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ انھیں مختلف زبانوں پر بھی عبور حاصل ہے اور لہجوں پر بھی۔ اس کا ایک اور ثبوت ان کی دستان گوئی بھی ہے۔ وہ داستان گوئی کی محفل میں جب کسی کردار میں ڈھل کر داستان کا حصّہ بنتے ہیں تو آپ ان کے لہجوں پر عبور کے معترف ہوجاتے ہیں اور یہ فن اچھے مشاہدے کے بغیر نہیں آتا۔

ڈرامے کے کردار اگر اپنی یا اپنے ماحول کی زبان نہ بولیں تو فوراً پکڑے جائیں۔ آج کل ٹی وی کے لیے لکھنے والے کچھ ڈرامہ نویس ایسے بھی ہیں کہ ان کے کسی ڈرامے کے کسی کردار کو دیکھ لیں، مصنّف کا نام دیکھے بغیر کردار چغلی کھاتا ہے کہ یہ ڈرامہ کسی نہ کسی خلیل الرّحمان قمر نے لکھا ہے۔ نہ کرداروں کے سوچنے کے انداز میں تنوّع، نہ مکالمے میں۔ ہر ڈرامے کا ہر کردار ملے جلے انداز سے سوچتا اور بولتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لکھنے والا کردار کے قریب نہیں گیا۔ اس پہ مکالموں میں ایک خبطِ عظمت کے احساس کے ساتھ صوفیانہ اور فلسفیانہ خول سونے پہ سہاگا۔ مگر مقبولیت کی دورِ حاضر کی یہ کسوٹی بھی محلِّ نظر ہے کہ عوام النّاس اسے بھی خوبی کہہ کر تالیاں بجاتے نظر آتے ہیں۔ خیر یہ بیماری ڈرامے تک محدود نہیں، فن کے ہر شعبے کے ساتھ ہمارا یہی رویّہ ہے۔ البتہ جاوید دانش کے ہاں معاملہ ایسا نہیں ہے۔ ان کے کردار واضح اور اپنی اپنی جگہ پر ہوتے ہیں، جو اپنی بات کرتے ہیں اور اپنی زبان بولتے ہیں لہٰذا ان کے کرداروں کی زبان عموماً کردار سے انصاف کرتی نظر آتی ہے۔ وہ نہ صرف زبان کا بلکہ کردار کے لہجے کا بھی خاص خیال رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی کردار نگاری زندہ اور بولتے ہوئے کردار بہت کامیابی سے پیش کرتی ہے۔

جاوید دانش کے ہاں (مرد) کرداروں کا اکثر کوئی نہ کوئی تکیہ کلام ہوتا ہے لیکن اس سے یکسانیت پیدا نہیں ہوتی۔ یہ بات مجھے اس کتاب کے مطالعے دوران بار بار یاد آئی کہ ایک زمانے میں پی ٹی وی لاہور کے ڈراموں میں یہ بہت ہوتا تھا۔ میرا خیال ہے جاوید دانش اپنے مکالموں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے تکیہ کلام کا اچھا استعمال کرتے ہیں اور بعض اوقات وہ اس سے شگفتگی بھی پیدا کرلیتے ہیں۔ ان کے ڈراموں میں ہلکے پھلکے مزاح کا عنصر جا بجا ملتا ہے جو خود ان کا مزاج بھی ہے۔ وہ خوش مزاج ہیں اور سنجیدہ ڈراموں میں بھی کہیں نہ کہیں شگفتگی کا احساس پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

اس مجموعے میں شامل ڈراموں کا موضوع ہجرت یا نقل مکانی کے بعد پیدا ہونے والے مسائل اور المیے ہیں اور کہانیوں میں انِھیں معاملات کی زیریں لہریں متحرّک رہتی ہیں۔ ان کے اکثر کرداروں کا المیہ یہ ہے کہ ’’نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے‘‘ جو مغرب میں بسنے والے اکثر مشرقی مہاجرین کا مشترکہ المیہ ہے۔ ایک نئی زمین پہ ایک نئی دنیا سے روشناس ہوتے لوگوں کو ملنے والے تہذیبی صدمے، ہجرت کے بعد نئی دنیا میں نئی قدروں اور نئے طور طریقوں کا سامنا اور ذہن و دل کا انھیں قبول کرنے میں تامّل برتنا، اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے نتائج اور ان کے بارے میں مختلف خیالات کا اظہار، عام آدمی کی نمائندگی اور بعض اوقات ان سے جڑے مختلف فلسفے زیرِ بحث لے آنا، یہ سب ان کے ڈراموں کا نچوڑ ہے۔ ان کی کہانیوں میں تہذیبی تصادم بھی نظر آتا ہے اور نسلی تصادم بھی۔ نسل پرستی کا احساس بھی اور ایک ہی خاندان کی مختلف نسلوں کے درمیان ہونے والی کشمکش بھی۔ خاندانوں کی، اقدار کی اور تصوّرات کی شکست و ریخت اور کشمکش سے جو الجھنیں اور المیے جنم لیتے ہیں اور پختہ نظریات اور عقائد جس طرح منہدم ہو کر لوگوں کو کسی بے گھر کی طرح بے سایہ آسمان کے نیچے لا کھڑا کرتے ہیں، ان ڈراموں میں نہ صرف ان کی ترجمانی ہے بلکہ مسائل کے حل بھی تجویز کیے گئے ہیں۔

ڈرامہ دیکھنے کی چیز ہے سو اس کی منظر نگاری کی اہمیت سے سبھی واقف ہیں۔ جاوید دانش کے ہاں منظر نگاری بقدرِ ضرورت ہوتی ہے۔ اطراف میں کیا ہے، ماحول کیسا ہے، کرداروں کے حلیے وغیرہ۔ جب وہ منظر کھینچتے ہیں تو اس کی ظاہری جزئیات کے ساتھ، بلکہ اس سے بھی زیادہ احساس، جذبے، کہانی اور مکالمے پر زور دیتے ہیں اور اسی سے ماحول پیدا کر لیتے ہیں اور آپ مکالمہ پڑھ کر، کردار کا حلیہ بھی دیکھ سکتے ہیں۔

اس کتاب میں شامل بعض چھوٹے چھوٹے خاکہ نما ڈرامے ہیں، جیسے ’’ہجرت کے تماشے‘‘ اور ’’کنوارے بھلے‘‘ جو اسٹیج کے خاکے کی شکل میں لکھے گئے ہیں اور اپنے مخصوص کرداروں کے ظاہری اور فکری نقوش دکھاتے ہیں۔ جبکہ بعض دیگر ڈرامے مکمّل کہانیاں اور زندگی کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان تمام کہانیوں میں دو کا ذکر میں خاص طور سے کرنا چاہوں گا۔ ایک ہے ’’ایک تھی روحی‘‘ اور دوسرا ’’بڑا شاعر چھوٹا آدمی‘‘۔ ’’ایک تھی روحی‘‘ زوردار اور بھرپور خود کلامی (مونولاگ) پر مشتمل آرٹ کا نمونہ ہے۔ اسٹیج پر پوری توانائی اور جذبے کے ساتھ دیکھنے اور سننے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لینے کی صلاحیت رکھنے والا یہ ڈرامہ علامات اور دکھ کے جذبوں سے معمور ہے۔ اسی طرح ’’بڑا شاعر چھوٹا آدمی‘‘ ایک بہت اچھا اور بھرپور ڈرامہ ہے۔ اس میں اونچے سنگھاسن پر بٹھائے گئے لوگوں کی سماجی زندگی کے تکلیف دہ کاروباری پہلوؤں اور خود غرضی کی عکاسی کی گئی ہے اور ڈرامہ اپنے دیکھنے (یا پڑھنے) والے پر ایک تکلیف دہ تاثر چھوڑ جاتا ہے۔

اس کتاب میں شامل کئی اچھے ڈرامے ہیں جن کا مختصر تذکرہ کرنا چاہوں گا جیسے ’’مکتی‘‘۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو مشرق اور مغرب دونوں کے لیے متنازع موضوع یعنی ایڈز اور ہم جنسوں سے متعلّق ہے۔ ’’عید کا کرب‘‘ نسلوں کے درمیان فکری اور تہذیبی فاصلے دکھاتا ہے۔ ’’کوئل جان‘‘ ایک نئی دنیا کا خواب ہے جہاں تیسری جنس کو بھی انسان سمجھا جائے گا۔ ’’نئی شاخ زیتون کی‘‘ امن کا خواب لیے ایک اچھا پیغام دیتا ڈرامہ ہے۔ ’’جیون ساتھی کلینک‘‘ بہت سنجیدہ موضوع پر ایک ہلکا پھلکا سا خاکہ ہے۔ ’’کینسر‘‘ ایک بہت جاندار ڈرامہ ہے جو مرسی کلنگ کے موضوع پر معاشرے پہ سوالات اٹھاتا ہے۔ ’’چالیس بابا ایک چور‘‘ میں اسی مجموعے میں شامل مختلف ڈراموں کے کردار جمع ہو گئے ہیں۔ اس میں کہانی تو آخر میں ہے، باقی دیسیوں کی بازاری زندگی کی جھلکیاں ہیں، کسی ڈاکومنٹری یا دستاویزی فکشن کی طرح۔ اس کے علاوہ ’’نو دو گیارہ‘‘ – 11/9 میں عربی اور انگریزی میں جو خطبہ ہے وہ قابلِ غور ہے۔

سب سے پہلا ڈرامہ ’’ہجرت کے تماشے‘‘ ہے جس میں ایک کمیونٹی سینٹر میں لوگوں کے مسائل سننے کا گویا تھیراپی سیشن ہوتا ہے۔ اس میں بعض کرداروں کا یکجا ہونا سوچنے پہ مجبور کرتا ہے۔ مثلاً فلسفی جو اکثر بے خود رہتا ہے، وہ تو بے خودی کے عالم میں وہاں چلا گیا ہوگا مگر ساتھ ہی ایک ترقی پسند شاعر اور ایک جدیدیت کا شاعر بھی جو اپنے نظریے اور فکر میں بہت واضح اور پختہ ہیں، ایسے سرپھروں کا اس طرح کی تھیراپی میں ہونا، کچھ اجنبی سا لگتا ہے کیونکہ یہ علامتی ڈرامہ نہیں ہے۔ یہ اگرچہ کسی ماہر نفسیات کا سیشن نہیں تھا پھر بھی اس کا انداز اس سے ملتا جلتا ہی ہے اور ایسے تخلیق کاروں کو وہاں دیکھنا آسان نہیں، ساقی فاروقی صاحب کی مثال انتہائی صحیح مگر وہ سائیکو تھیراپسٹ کو Psycho the rapist اور سائیکو تھیراپی کو سائیکولوجی کا ریپ کہتے تھے۔ پھر وہاں سنجیدہ بحث ایسے لوگوں سے مخاطب ہوکر بھی کی جارہی ہے جو بالکل مختلف فکری دنیا کے باسی ہیں جیسے ایک بچہ اور ایک چائے کے ہوٹل پہ کام کرنے والے۔ ڈرامے میں ان لوگوں کی جدّوجہد دکھائی گئی ہے جو زندگی بنانے کی تگ و دو میں راستہ تلاش کرتے کرتے تھکنے لگتے ہیں جیسے نووارد ڈاکٹر اور اس کی بیگم، جنھیں ابھی آئے صرف دو سال ہوئے ہیں اور وہ توقّعات کے برعکس ملنے والے ماحول سے گھبرا گئے ہیں گویا وہاں بہت وقت گزار چکے ہوں۔ جاوید دانش نے چونکہ مہاجروں کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے، یہ کردار ان کے دیکھے بھالے معلوم ہوتے ہیں۔ کچھ بعید نہیں کہ یہ سب کردار انھوں نے خود ایک چھت کے نیچے دیکھے ہوں۔

’’کنوارے بھلے‘‘ ایک اچھا دلچسپ ڈرامہ ہے۔ البتّہ اس میں جاوید دانش کی کردار نگاری اور مکالمے اپنے دوسرے ڈراموں کی نسبت کچھ لگے بندھے سے معلوم ہوئے۔ مجبوری اپنی جگہ کہ یہ اردو ڈرامہ ہے ورنہ اس کے کچھ کرداروں کو انھیں اتنی اچھی اردو بولنا آنا نہیں چاہیے جیسی وہ بول رہے ہیں۔ دیگر کردار لیکن اپنی زبان اور انداز کو پوری طرح نبھاتے نظر آتے ہیں۔ یہ کہانی بڑے دلچسپ موڑ پہ ختم ہوتی ہے جب پتہ چلتا ہے کہ ایک ہی گھر میں رشتے کی غرض سے ملی بھگت کر کے جانے والے تینوں لڑکے دراصل آپس میں دوست ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تتّمہ یہ کہ آپ کو اگر مشرق سے یہاں آکر بسنے والے لوگوں کی زندگی کے حالات جاننا اور ان کی جدّوجہد اور اچھی زندگی کے حصول کی راہ میں کھونے اور پانے کا تماشہ دیکھنا ہے تو جاوید دانش کے یہ ڈرامے پڑھیے۔ اس میں بہت سے کردار اور بہت سی زندگیاں آپ کو چلتی پھرتی نظر آئیں گی۔ وہی زندگیاں اور وہی کردار جو کینیڈا اور امریکہ کی سڑکوں اور گھروں کے ڈرائنگ روم میں جا بجا باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کامیابی سے اپنے اطراف کی تصویریں کھینچ کر ان کی چلتی پھرتی ترجمانی کرنا جاوید دانش صاحب ہی کا کام ہے۔ اس کوشش میں اکثر لوگ ہیجان کا شکار ہو کر واہی تباہی بکنے لگتے ہیں مگر جاوید دانش ان لوگوں کی طرح فکری اور تحریری تشنّج کا شکار نہیں ہوتے بلکہ ان الجھے اور طنز کے زہر آلود تیر برساتے لوگوں سے دور کھڑے، ہنستے مسکراتے زندگی کو دیکھتے جاتے ہیں اور اس کی نقش گری اپنے قلم سے کرتے چلے جاتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply