فکری بونوں کا دیس۔۔عبدالستار

اکیسویں صدی جو کہ علم و ہنر کے لحاظ سے ایک بالغ صدی ہے اور آج علم کا حصول ایک  کلک بٹن کے فاصلے پر ہے۔چند سیکنڈ میں ہم دنیا بھر کی معلومات اپنے کمپیوٹر سکرین یا اپنے موبائل فون کی چھوٹی سی سکرین پر دیکھ سکتے ہیں۔ان سب نعمتوں کے باوجود ہم ایک ایسے سماج کا حصہ ہیں کہ جہاں پر ایک فکس مائنڈسیٹ پیدا کرنے کے لیے بچپن میں اپنے گھر سے لے کر سکولز،کالجز اور یونیورسٹیز تک سپون فیڈنگ کی جاتی ہے ۔اس سارے عمل کے نتیجہ میں ایک ایسی نسل پروان چڑھتی ہے جو تحقیق و جستجو سے بالکل عاری ہوتی ہے اور یونیورسٹی کی سطح تک پہنچ کر بھی ہماری نوجوان نسل کو ”ریڈی میڈ میٹریل“ یعنی جوابات کے پلندے کی اشد ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ وقتی امتحانی چیلنج سے نمٹ کر ایم فل اور پی ایچ ڈی کر سکیں۔

اسی وجہ سے ہماری یونیورسٹیز اور کالجز میں پڑھانے والے اساتذہ کا مائنڈ سیٹ بالکل بھی تبدیل نہیں ہوتا ،بلکہ ان کے لیکچرز کا غالب حصہ مذہبی تعلیمات پر مبنی ہوتا ہے ،فزکس، کیمسٹری، اور میتھ جیسے خالص مادی اور دنیاوی مضامین کو پڑھاتے وقت بھی مذہب کا تڑکا لگایا جاتا ہے اور اس طرح کر کے ہمارے معماران ِ قوم اپنی حقیقی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کر کے قلبی اطمینان حاصل کرتے ہیں۔

اس سارے عمل کی بنیادی وجہ ہماری فکر کا وہ بنیادی ستون ہے جو ہمیں اپنے گھر سے لیکر یونیورسٹی تک کچھ لگے بندھے اخلاقی اور مذہبی تعلیمات کی صورت میں نسل در نسل ملتا ہے اور یہ مشق دہائیوں سے جاری ہے اور اسی وجہ سے ہم تخلیقی ذہن پیدا کرنے میں بُری طرح ناکام ہیں۔مذہب اور اخلاقیات کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے جڑا ہوتاہے اور ہر ایک کو اپنے طریقے سے زندگی گزارنے کا پورا حق ہے۔مگر اس ذاتی فعل کو ہمیں لیکچرز کی صورت میں دوسروں کو منتقل کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے، کیوں کہ مبلغ اور ٹیچر میں واضح فرق ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔

اب ہمیں کالج اور یونیورسٹی میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے کیا اس سے کوئی تخلیقی ذہن پیدا ہوسکتا ہے؟

یہ سوچنے والی بات ہے۔میں یہاں پر سیکنڈ ائیر کلاس کی ”وکٹر انگلش گرائمر“ میں سے ایک مضمون بعنوان ”مائی ہیرو اِن ہسٹری“ کے کچھ حصے کا ترجمہ پیش کرنا چاہوں گا۔توجہ فرمائیں بہت افاقہ ہوگا۔”تاریخ عظیم لوگوں سے طے پاتی ہے۔عظیم لوگ روزانہ پیدا نہیں ہوتے۔انسانیت کو صدیوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔بلاشبہ ہیروکافروں کی دنیا میں بھی پائے جاتے ہیں، لیکن مسلمانوں کے ہیرو ان کو مات کر جاتے ہیں۔میں سر علامہ اقبال سے متاثر ہوں۔ان کی ذات شیخ تھی۔ان کے والد مذہبی ذہن کے مالک تھے۔اس لیے اقبال کو مذہبی پس منظر ملا تھا اور ان کے اشعار قرآن پاک کی تشریح ہیں“

اس مختصر سے نمونہ کو پڑھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے مستقبل کی کیا تصویر بنتی ہے اور کیا یہ تصویر اور شبیہ اکیسویں صدی کے علمی تقاضوں کو پورا کر سکے گی۔یہ چھوٹا سا پیرا ہماے تعلیمی نظام کو مکمل طور پر واضح کر دیتا ہے کہ ہم کس قسم کی فکر کو پروان چڑھا رہے ہیں اور اس سے ملتی جلتی بے شمار  باتیں  ہمارے تعلیمی نصاب کا حصہ ہیں۔جب چھوٹے تھے تو ہمیں اپنی گلیوں اور بازاروں میں کچھ عجیب سے سروں والے لوگ بھیک مانگتے دکھائی دیتے تھے جنہیں عرفِ عام میں ”دولے شاہ کے چوہے” کہا جاتا ہے۔ان کے سر سائز میں کافی چھوٹے ہوتے ہیں اور پچکے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔بچپن کے اس دور میں اپنے بڑوں سے اس عجیب الخلقت لوگوں کے بارے میں پوچھنے پر یہ جواب ملتا تھا، یہ لوگ ”اللہ والے ہیں اور بڑے ہی پہنچے ہوئے لوگ ہیں“یہ جواب سن کر من میں ایک سوال انگڑائی لیتا تھا کہ اگر یہ اتنے مقبول اور نیک لوگ ہیں تو پھر بھیک مانگنے پر کیوں مجبور ہیں۔اس وقت تو شاید کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتا تھا لیکن بڑے ہوکر شعور کی کچھ منزلیں طے کر لینے کے بعد پتہ چلا کہ یہ لو گ’’پائے“ نہیں جاتے بلکہ ”بنائے اور تیار“ کیے جاتے ہیں اور اس پروڈکٹ کو تیار کرنے والے ہمارے ہی سماج کے چند ”استحصالی گروہ“ ہیں جو انہیں مذہبی تقدس کے چولے پہنا کر اپنی جیبیں اور غلے بھرتے ہیں۔

تحقیق کرنے پر پتہ چلا   کہ ان کے سروں پر لوہے کے خول چڑھا کر ان کے سر اور دماغ کا سائز چھوٹا کیا جاتا ہے ،تاکہ ان سے لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر دھندہ کروایا جاسکے۔اسی لیے یہ ”دولے شاہ“ کے چوہے بالغ ہوکر بھی نابالغوں جیسی حرکتیں کرتے ہیں۔ظلم کی یہ درد ناک حقیقت بتاتی ہے کہ انسانی ذہن کا غلط استعمال کیسے کیا جاتا ہے۔فیصلہ آپ خود کر لیجیے کہ ”دولے شاہ“ کے چوہوں میں اور ”نصابی چوہوں“ میں کیا مماثلت اور فرق پایا جاتا ہے۔ظلم کی انتہا یہ ہے کہ یہ مشق دہائیوں سے جاری ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے معاشی،سماجی اور تعلیمی پس منظر میں ہم اس طرح کے اعلیٰ  اذہان پیدا کر سکیں گے کہ جو
۱۔تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہوکر 21ویں صدی کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر چل سکیں۔
۲۔ذات پات،رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہوکر سوچ سکیں۔
۳۔روایات کے لمبے لمبے راستوں سے بغاوت کرکے اپنے من کی پگڈنڈی پہ چل سکیں۔
۴۔جوابات کے پیچھے بھاگنے کی بجائے نئے نئے سوالات کو جنم دے سکیں
۵۔دوسروں کے سچ کو ماننے اور اپنانے کی بجائے اپنی ذات کے سچ کو پانے کی تگ و دو کر سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میری نظر میں موجودہ تعلیمی پس منظر میں تو ایسے اذہان کا پیدا ہونا ممکن نہیں ہے۔البتہ کچھ غیر روایتی باغی سر پھر ے ضرور پیدا ہو تے رہتے ہیں ،جو اپنا راستہ اور اپنا نعرہ خود بناتے ہیں۔یہ گنتی کے چند ہی نایاب لوگ ہی حقیقت میں ”سالٹ آف دی ارتھ“ ہوتے ہیں۔اگر ہم کو یہ قیمتی ”سالٹ“ وافر مقدار میں چاہیے تو ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو نئے سرے سے دیکھنا ہو گا اور روایتی دیواروں کو مسمار کر کے اعلیٰ  اذہان کے لیے زمین ہموار کرنا ہوگی۔بقول ڈاکٹر خالد سہیل
نئی کتاب، مدلل جواب چاہیں گے
ہمارے بچے نیا اب نصاب چاہیں گے
روایتوں کے کھلونوں سے دل نہ بہلے گا
بغاوتوں سے منور شباب چاہیں گے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply