مزید بابا جی۔۔گُل نوخیز اختر

بابا جی کے حوالے سے میں پہلے بھی بہت کچھ لکھ چکا ہوں لیکن دل ہے کہ مانتا نہیں۔ایسا لگتا ہے ان کے بارے میں جتنا بھی لکھوں کم ہے۔ ان کی باتوں میں دانش تھی، رمز تھی،حکمت تھی۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایسے ہی ایک سرد موسم میں ان سے ملاقات ہوئی تو عرض کی کہ بابا جی رضائی اوڑھنے کے باوجود بہت سردی لگتی ہے کوئی حل بتائیں۔ انہوں نے سرہلایا اور مراقبے میں چلے گئے۔کچھ دیر منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتے رہے۔پھر آنکھیں کھولیں اور آہستہ سے بولے”بیٹا تم رضائی ٹھیک سے نہیں لیتے“۔ میں گڑبڑا گیا۔ بھلا اِس سردی میں رضائی کون ٹھیک سے نہیں لیتا ہوگا۔میں نے وضاحت چاہی تو مشفقانہ انداز میں فرمایا’بیٹا موجودہ موسم میں رضائی ایسے لیتے ہیں گویا باہر فائرنگ ہورہی ہو‘۔ بابا جی کی انہی باتوں نے مجھے اُن کا دیوانہ بنا دیا۔ ایک دفعہ میں نے پوچھا کہ مرشدطبیعت میں سخت سستی ہے۔ کسی کام میں دل نہیں لگتا۔انتہائی کاہل ہوتا جارہا ہوں، کیاکروں؟ بابا جی نے غور سے میری بات سنی، پھر بولے”کیا تمہارے باقی دوست بھی ایسے ہی ہیں؟“ میں نے جلدی سے کہا”نہیں باباجی وہ تو بہت محنتی ہیں۔ دل لگا کر کام کرتے ہیں۔ہر وقت مستعد رہتے ہیں۔“ باباجی نے پاس پڑی کھجور اٹھا کر منہ میں ڈالی اور فرمایا”تم اُن کے پاس زیادہ سے زیادہ وقت گذارا کرو“۔ میں خوش ہوگیا”تو کیا اس طرح میں بھی اُن کی طرح محنتی ہوجاؤں گا؟“۔ بابا جی نے نفی میں سرہلایا”نہیں بیٹا!وہ بھی عنقریب تمہاری طرح کاہل ہوجائیں گے۔“ خواتین وحضرات میرے بابا جی کرامات کے حوالے سے بھی اپنی مثال آپ تھے لیکن وہ باقی بابوں کی طرح کنجوس نہیں بلکہ اپنے مریدوں کو بھی کرامات کے ہنر سے بہرہ مند فرماتے رہتے تھے۔ ایک مرید نے سوال کیا کہ بابا جی جب کبھی کسی محفل میں ڈیڑھ لٹر والی کولڈ ڈرنک کی بوتل سامنے آتی ہے تو میرا دل چاہتا ہے کہ میں ساری پی جاؤں لیکن باقی لوگ بھی بیٹھے ہوتے ہیں لہذا جب میں ایک گلاس اپنے لیے بھرتا ہوں تو وہ بھی اپنے لیے ایک ایک گلاس بھر لیتے ہیں اور یوں بوتل دیکھتے ہی دیکھتے خالی ہوجاتی ہے۔کوئی حل بتائیں۔ صدقے جاؤں مرشد کے،خلاء میں گھورا اور بلا توقف ارشاد کیا”جونہی بوتل آئے، گلاس میں ڈالنے کی بجائے منہ لگا کر ایک گھونٹ بھرلیا کرو، کوئی ہاتھ بھی نہیں لگائے گا۔“بابا جی کی ایک اور کرامت کا ذکر کرتا چلوں۔ ہم مریدین اکثر نوٹ کرتے تھے کہ بابا جی کے پاس جب بھی کوئی ایسا مسکین شخص آتا جس کے پیروں میں جوتی نہ ہوتی تو بابا جی اُس کے کان میں کچھ کہتے اور کچھ دنوں بعد وہ بہترین جوتی پہنے بابا جی کا شکریہ ادا کرنے چلا آتا۔ایک دن ہم سب نے پوچھ ہی لیا کہ یہ کیا راز ہے؟ قربان جاؤں۔مرشد نے تسبیح اٹھائی اور ورد کرتے ہوئے انتہائی شائستگی سے کہا”بیٹا جمعہ پڑھا کرو“۔آپ یقین نہیں کریں گے کہ بابا جی اپنے روحانی کمالات کی وجہ سے بہترین معالج بھی تھے۔انہوں نے اپنے کمال سے کینسر جیسے موذی مرض کو بھی شکست دی۔میرے سامنے کی بات ہے ایک دفعہ ایک کینسر کا مریض اُن کے پاس آیا اور پیروں میں گڑگڑا کر رونے لگا کہ ڈاکٹروں نے اُس کی زندگی محض ایک سال بتائی ہے۔بابا جی ایک دم جلال میں آگئے۔ ”ہم ڈاکٹروں کو غلط ثابت کریں گے“ اور مرید کو پڑھی ہوئی چینی عنایت فرماکر تاکید کی کہ دن میں صبح دوپہر شام دس دس چمچے اس چینی کے کھانے ہیں۔ مرید نے ایسا ہی کیا۔معجزہ دیکھئے کہ واقعی مرشد کا کہا سچ ثابت ہوا اور ڈاکٹروں کی پیشین گوئی بالکل غلط ہوگئی۔ مرید دو ہفتوں میں ہی شوگر ہائی ہونے سے وفات پاگیا۔میرے بابا جی اپنے عقیدت مندوں سے کوئی نذر نیاز نہیں لیتے تھے۔ روپے کو ہاتھ لگانا بھی اپنی توہین سمجھتے تھے لہذا کارڈ ریڈر مشین رکھی ہوئی تھی۔ کسی کے پاس اگر ڈیبیٹ کارڈ نہ ہوتا تو اُسے بالکل بھی شرمندہ نہ کرتے بلکہ اطمینان سے کہہ دیتے’چیک لکھ دو‘۔ مرشد کی ایک بہت بڑی کرامت یہ تھی کہ اُن کے موبائل پر اگرچہ واٹس ایپ ہمہ وقت آن رہتا۔ وڈیوز کی ڈاؤن لوڈنگ کا آپشن بھی انہوں نے آف نہیں کیا۔ اس کے باوجود کبھی اُن کے موبائل کی میموری فل نہیں ہوئی۔ایک دن میں نے فرط جذبات میں آکر پوچھ ہی لیا کہ مناسب سمجھیں تو ہم گنہگاروں کو بھی یہ کرامت سکھا دیں۔ بابا جی نے ہم سب مریدین کو قریب آنے کا اشارہ کیا۔ اپنا موبائل زمین پر رکھا اور فرمایا”وقت نوٹ کرلو، یہ عمل روزانہ رات کو سونے سے پہلے کرنا ہے انشاء اللہ کبھی تمہارے موبائل کی میموری فل نہیں ہوگی۔“ یہ کہا اور اپنے موبائل کی ’ری سٹور فیکٹری سیٹنگ‘ کا بٹن دبا دیا۔درویشی میں بھی بابا جی کا کوئی ثانی نہیں تھا۔شائد اسی درویشی کی وجہ سے وہ موسموں کے اثر سے بے نیاز ہوچکے تھے۔ اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دسمبر جنوری کی ٹھٹھرتی رُت میں بھی حجرے میں جانے سے پہلے مریدوں سے بے ضرر سی فرمائش کرتے کہ’بیٹا چھ سات برف کے کیوبز لادو۔‘اور جب تین چار گھنٹے بعد باہر تشریف لاتے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھاکہ کوئی مرغن غذا کھائیں، بس عاجزی سے آنکھیں بند کیے امرود یا اچار کھاتے رہتے اور مریدوں کو حکم ہوتا کہ وہ زیادہ قریب مت آئیں۔ایسے ملنگ اوردُنیا وی زندگی سے عاری لوگ اب کہاں ملتے ہیں۔ میں کتنا خوش نصیب ہوں کہ مجھے بابا جی جیسے کھرے درویش کی صحبت حاصل رہی۔انسانیت سے اُن کی محبت لازوال تھی۔جو بھی ان کے پاس آیاپھر کسی اور کے پاس جانے کے قابل نہیں رہا۔اُن کی یہ عنایت تو میں کبھی نہیں بھول سکتا جب میں نے اُن سے پوچھا کہ بابا جی میں رات کو کھانا کھاتا ہوں تو وہ ٹھیک طرح سے ہضم نہیں ہوتا، کیا کروں؟ مرشد نے نظریں اٹھائیں اور میری آنکھوں میں پوری محبت سے جھانکتے ہوئے فرمایا”رات کے وقت شوارمے میں سلاد مت ڈلوایا کرو‘۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply