ڈھولکی اور اس کی رونق۔۔محمدوقار اسلم

نوجوان لکھاری ظاہر محمود بہت اچھے تخلیق کار ہیں ان کی پہلی کتاب ڈھولکی پر پہلے شدید مصروفیت میں بات کرنا شروع کی جو کہ ادھوری رہ گئی ان کو گِلہ بھی رہا کہ جائزہ نہیں لیا گیا اور ان کی کتاب پر سیرحاصل بات نہ کی گئی۔کسی کے لئے یہ بڑی خوشی کا مقام ہوتا ہے جب وہ اتنی کم عمری میں صاحب کتاب ہوجائے اور ادب بھی ایسا تخلیق کرے جو اس کی انفرادیت میں اپنی ایک الگ پہچان  رکھتا ہو۔ظاہر محمود نے قطع و برید میں نکھرتا ایک ایسا مجموعہ پیش کیا ہے جو واقعی آپ کو بہت سی رعنائیوں سے مزین کرتا ہے۔جب آپ افسانہ تخلیق کرتے ہیں تو اپنے اندر کی گھٹن،اضطراب اور خواہش غلبہ پا  لیتی ہے ،نثر کی خلقت اپنی منزل پا ہی نہیں سکتی جب تک مصنف کی روحانی مسافت ہمہ وقت طے نہ ہو رہی ہو، تصنیف میں جان تب ہی پیدا ہوتی ہے جب فروعی باتوں کی بجائے لکھاری کی اپنی ریسرچ ہو ،اسے کھوج لگانے کاجذبہ چین سے بیٹھنے نہ دیتا ہواور وہ تخلیق کرنا چاہتا ہو اور تحقیق کو فروزاں کرنے کے لئے خدمات سرانجام دینا چاہتا ہو۔مجھے ظاہر کی کتاب پڑھ کر خوشی ہوئی اور تحیر بھی کہ اس نے شعبہ کیمیاء سے ہونے کا  حق ادا کردیا ہے،سائنسی،نباتاتی تبدیلیوں کو بھی موضوع کا منبع اور مرکز سمجھا،اس نے اپنے افسانچے بوندا بوندی میں یورپ کی کتنی دلفریب سیر کروائی کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے، انقرہ کی یونیورسٹی کی وہ عکاسی کی کہ دلفریب سے منظر میں ایسے معلوم ہوا جیسے وہیں پہنچ گیا ہوں۔ مجھے ظاہر کے خدا ترسی والے دل کا اتنا اندازہ نہ تھا، جتنا معاشرتی موضوعات پر اس کے قلم کی جنبش اور ان سے نکلنے والے نتیجے اور پیام دیکھ کر ہوا۔ظاہر سندھ کی سیر پر وارفتہ ہوا اور اس کی روح اتنی قدیم تہذیب و ثقافت کی متلاشی تھی کہ سب پتہ لگانا ہے، اس نے کراچی کے موہاٹہ پیلس سے لے کر ہر چھوٹا قصبہ قریہ قریہ گھوما اور دقیق دلائل دھونڈ نکالے وہ آپ کو ایسے شریک سفر کرتا ہے کہ دل کرتا ہے اس کے ساتھ ہی مسکن لگا کر بیٹھ جایا جائے اور ان نستعلیق خیالات کو حقیقت کی نظر سے جانچا جائے۔ اجنبی میں وہ رومانی کیفیات کو ایسے ابھارتا ہے کہ دل گرفتہ ہوئے بغیر رہا نہیں جاتا ،سفید پوش میں وہ جرگے کے فیصلے کرنے والے کی زندگی میں پائی جانے والی اس آزردگی کو چھیڑتا ہے جس سے واقف ہونا ہمیں انسانیت سکھا نے میں معاون ہو سکتی ہے،رن مرید میں وہ تھک کر گھر لوٹنے والے مزدور کی آہ و  زاری بخوبی بیان کرتا ہے۔اماوس کی رات میں سنسناہٹ،تاریکی،بھنبھناہٹ سے بننے والے اس ذہنی خلفشار کا احاطہ کیا ہے جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کیسے ایک رات ذہن کو مفلوج کرسکتی ہے۔اس کتاب کا موجب بننے والا افسانہ ڈھولکی بھی مداریوں کی بے بسی کو بہت منفرد انداز میں ایڈریس کرتا ہے،تو پھر مالشی میں بوڑھے کی بدسکونی اور اس کے صاحبزادے کی لاچاری کو بھی بہت محتاط طریقے سے بیان کرتا ہے۔بات یہاں تک رہتی کہ اس نے صرف جگہیں دیکھ کر ان کے متعلق لکھ دیا تواوسط درجے کی بات تھی لیکن ہمیں اس کتاب میں اس کی تانک جھانک،کتابیں کنگھالنے کا بھی بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے مو ہنجوداڑو سے لے کرخیرپور قلعہ، لینس ڈاؤن پل اور پھر پنجاب کی سیر و سیاحت بمع تحقیق اس کتاب کو ایک مکمل علمی تخلیق ثابت کرتے ہیں پھر اپنے صوبے پنجاب کے اہم مقامات کو بھی قلم سے محفوظ کیا حضرت قنبیط علیہ السلام کی قبر کی  موجودگی کے ابہام پر بہت ناپ تول کر لکھا ہے۔مضامین کو مضمونچہ کہنا چاہیے تھا کیونکہ genre ہی بہت سی رونق کا غماز ہے ان کو اس نے متفرق مضمون کہا ہے اور یہ واقعی متفرق ہیں ان میں آپ کو تاریخ بھی پڑھنے کو ملتی ہے اور وہ بھی ایسے انداز میں کہ غیرمحسوس طریقے سے آپ کی کم علمی کی تطبیق محسوس ہوتی ہے سائینس کے موضوعات،ففتھ میڈیا وار فیئر، ہماری کاہلی پر ایک جامد بحث چھیڑی گئی ہے اس میں فلسفیائی تڑکے بھی ملتے ہیں اور بین الاقوامی امور کی ر یکارڈ درستی بھی پائی جاتی ہے۔اس کا خیال ہے کہ تمدن تہذیب سب بدلتا ہے اور یہ برحق ہے اور یہ بری بات نہیں ہے لیکن وہ خود بھی کچھ معاملات میں بندھا ہے اور کسی ثقافتی تغیّر پر اعتراض اٹھا کر اس کی بابت مخالف مرتکز ہو سکتا ہے۔چکوال سے تعلق رکھنے والے متحرک نوجوان نے ایک گوشہ کچھ یادیں کچھ باتیں کا بھی شامل کیا جس میں اپنی طلسمائی بھولی بسری یادوں کو درج کیا اور ان جگہوں کو بھی جہاں یہ رہا اور وہاں بیتے لمحات کو اس نے ایسے درخشاں باب میں امر کیا کہ ان میں یہ پھر جی سکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply