محسن داوڑ سے خصوصی انٹرویو

حالیہ پشتون سیاست میں پشتون تحفظ مومنٹ ایک اہم فیکٹر ہے، اور اسی پی ٹی ایم کا ایک بہت اہم کردار محسن داوڑ ہیں۔ نقیب اللہ محسود سے شروع ہونے والی تحریک نے بہت تیزی سے ایک پشتون قومی تحریک کا روپ دھارا اور اسی تحریک میں ایک خوبصورت پڑھا لکھا وکیل اہم لیڈر بن کر ابھرا جس نے اس تحریک کے پیغام کو پھیلانے میں کردار ادا کیا۔ پی ٹی ایم کی واضح پالیسی کے برعکس اس نے الیکشن لڑا اور پارلیمان میں پہنچا۔ جی ہاں، محسن داوڑ، ایم این اے۔

محسن داوڑ نے پارلیمان میں اپنی تقریروں کے ذریعے ثابت کیا کہ وہ حادثاتی لیڈر نہیں ہیں۔ پھر مختلف قومی و بین الاقوامی فورمز پہ انکی گفتگو متاثرکن رہی۔ کچھ عرصے سے پی ٹی ایم میں اختلافات کی خبریں گردش میں ہیں اور دبی دبی آواز میں پی ٹی ایم میں موجود دھڑا بندی و دیگر مسائل پہ اشارے سامنے آ رہے ہیں۔ ایسے میں “مکالمہ” نے محسن داوڑ صاحب سے انٹرویو کی درخواست کی۔ معروف پشتون دانشور اور پشتون سیاست پہ اہم مبصر، رشید یوسفزئی نے کمال مہربانی کرتے ہوے نا صرف مکالمہ کیلئیے اس انٹرویو کو ارینج کیا بلکہ انٹرویو میں بطور موڈیریٹر شرکت بھی کی۔ مکالمہ ہمیشہ سے اس موقف کا حامی رہا ہے کہ مختلف سوچوں اور موقف کے درمیان مکالمہ ہی وہ پل ہے جو خلیج بھی پاٹ سکتا ہے اور کوئی حل بھی نکال سکتا ہے۔ چیف ایڈیٹر انعام رانا کے ساتھ قریب دو گھنٹے کے اس اہم ترین انٹریو میں آپ کو محسن داوڑ کی ذات، انکی سیاست و نظریات اور پی ٹی ایم کی سیاست کے متعلق چونکا دینے والی باتوں سے واسطہ پڑے گا۔

محسن سے سیاسی سوالات تو سب ہی کرتے ہیں مگر ہم نے سوچا کہ محسن کی ذاتی زندگی کو بھی سامنے لائیں۔ سو میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ پشتون سیاست کا چہرہ بن چکے ہیں مگر آپ کی ذات اک اسرار میں ہے حتی کہ وکی پیڈیا بھی ادھورا ہے، کچھ اپنے متعلق تو بتائیے۔ اس پہ محسن کھلکھلا کر ہنسے۔

محسن داوڑ: بات یہ ہے کہ میرے متعلق کافی کچھ بس کہہ دیا جاتا ہے۔ وکی پیڈیا پیج ہی کی مثال لیں تو جانے کس نے بنایا اور کیا کیا بھر دیا۔ حتی کہ میرے والد کا نام جاوید اقبال لکھ کر بچوں کے مشہور قاتل جاوید اقبال کا لنک دے دیا گیا ہے۔ حقائق یوں ہیں کہ میرا شمالی وزیرستان سے تعلق ہے۔ میرے پردادا قبیلے کے سردار تھے۔ میرے بڑے اسلامیہ کالج میں پڑھے۔ میرے پردادا انڈین نیشنل کانگریس میں رہے۔ حالانکہ اس وقت زیادہ تر ملک و خوانین مسلم لیگ کا حصہ بن گئے تھے۔

میرے والد سول سروس میں تھے تو میں پورے صوبہ پختونخواہ میں رہا ہوں۔ میں سٹوڈنٹ لائف سے ہی سیاست کا حصہ رہا، میں نے گومل یونیورسٹی سے وکالت اور ایم بی اے کیا اور اس دوران پشتون سٹوڈنٹ فیڈریشن کا حصہ رہا، صدر رہا۔ پھر اے این پی سے وابستہ صوبائی صدارت کیلئیے بھی امیدوار ہوا مگر پارٹی کے خوانین کی وجہ سے ہار گیا۔ پھر ہم نے نیشنل یوتھ آرگنائزیشن بنائی، جسکا میں ترجمان اور پھر صدر بنا، اسکی تنظیم سازی ہم نے سارے پاکستان میں کی۔ لیکن افسوس پارٹی کو نئی لیڈر شپ کا امکان کھٹک گیا۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں اور ابھرنے والے ورکرز کے پر کاٹ دئیے جاتے ہیں۔ شاید اسی لئیے مجھے اس تنظیم سے نکال دیا گیا۔ اب تو خیر وہ تنظیم ہی ختم ہو گئی۔ اور پھر سیاسی سفر مجھے پشتون تحفظ موومنٹ تک لایا۔

اس موقع پر رشید یوسفزئی  کی حس شرارت جاگی اور انھوں نے محسن کی رومانوی زندگی سے متعلق سوال کیا۔ مگر محسن میری اور رشید کی کوششوں کے باوجود طرح دیتے رہے۔

محسن۔ دراصل جو ہماری تربیت تھی وہ روایتی تھی، یونیورسٹی گئے تو سیاست میں آ گئے اور پھر گومل یونیورسٹی میں تو ویسے ہی قبائلی ماحول تھا۔ دوسرا اپنی سیاست کا ڈیکورم رکھنے کیلئیے رنگین مزاجی سے دوری رکھنا ضروری تھا کیونکہ وہ ہماری سیاست پہ سوال اٹھاتا۔

رشید: عشق و نوجوانی تو لازم و ملزوم ہیں، عشق چھو کر بھی نا گزرا؟

محسن: (شرمیلے انداز میں ہنستے ہوے بولے) یار دراصل مجھے ہمیشہ سے بیوٹی ود برین (حسن و ذہانت کا امتزاج) پسند تھا جو ملا ہی نہیں۔

محسن سے فیملی سے متعلق سوال کئیے تو محسن کا اک نیا رخ سامنے آیا۔

محسن:۔ میری ایک بیٹی ہے، سات ماہ کی۔ بیگم دور کی رشتہ دار ہیں اور انھوں نے سائیکالوجی میں ماسٹر کیا ہے۔ وہ سیاسی طور پہ اتنی ایکٹو نہیں ہیں۔ میرے اصرار پہ بس ٹوئٹر اکاونٹ بنایا مگر اس سے بس مجھے ہی ریبٹویٹ کرتی ہیں۔ تو ان سے کہا ہے اپنی فیلڈ میں ہی مزید کچھ کیجئیے۔ میں بالکل بھی روائتی مرد نہیں۔ اپنی بہنوں اور بیوی کو انکریج کرتا ہوں۔ بہنیں جاب کرتی ہیں اور خواہش ہے کہ بیگم باہر جا کر مزید تعلیم حاصل کرے۔

محسن کیونکہ سیاسی شخصیت ہیں تو انٹرویو کو لامحالہ سیاست کی جانب ہی آنا تھا۔

انعام:۔ پشتون پنجابی کے بعد دوسرا بڑا سٹیک ہولڈر ہے۔ تو یہ کافی مشکل ہے سمجھنا کہ آخر وہ کیا پشتون مسلئہ ہے جو اپ کی سیاست کی بنیاد ہے۔؟

محسن:۔ پشتون جتنا بھی بڑا ہو، یا سندھی جس نے پاکستان پہ حکومت بھی کی یا بلوچ، جتنے بھی بڑے بن جائیں یہ پنجاب کی برابری نہیں کرتے چنانچہ غلبہ کی نفسیات موجود ہے۔ پھر بجلی و تمباکو کی رائلٹی وغیرہ اور ٹیکس کے فرق موجود ہیں۔ لیکن وار ان ٹیرر کی وجہ پشتون جتنا متاثر ہوا اور جیسے ہمارے علاقے کو مس یوز کیا گیا، اس نے احساس محرومی کو بڑھایا ہے۔ یہی مسلئہ بلوچ کا بھی تو ہے۔ پوری وار اکانومی ہی ہمارے خطے پہ منحصر تھی۔ یہاں اپنی پراکسیز بنائی گئیں، جنگ کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں استحصال ہوا۔ وہ شمالی وزیرستان جس کے بارے میں اجمل خٹک کہتے تھے کہ “پشتون نیشنل ازم یہاں کمزور ہو جاتا ہے”، وہ علاقہ جو جشن آزادی مناتا تھا، وردی پہنے فوجی سے پیسے نہیں لئیے جاتے تھے، اب وہاں مختلف جذبات ہیں۔ میں مثال دوں گا کہ بھارت کے خلاف جلسے کیلئیے اب یہاں لوگ نہیں مل پاتے اور پولیس و ایف سی والو کو سادے کپڑے پہنا کر ریاست کے حق میں جلوس نکالا جاتا ہے۔ لوگوں کو اپنے مفاد کی خاطر، افغانستان کو کنٹرول کرنے کیلئیے ہمارے علاقے میں جو کچھ کیا گیا اس نے عوام کو ریاست سے دور کر دیا۔

“باجوہ ڈاکٹرائن” کا شہرہ تو بہت سنا ہے، اسٹبلشمنٹ بھی کہتی ہے کہ ہم پالیسی بدل چکے ہیں مگر ہمیں وہ نظر نہیں آتا۔ ابھی بھی افغانی سیاست پہ بیانات دئیے جاتے ہیں، طالبان کو سپورٹ دی جاتی ہے، صحافیوں کے ذریعے طالبان کو پاپولر قرار دیا جاتا ہے۔ اتنے پاپولر ہوتے تو وہ انتخابات کے خلاف کیوں ہوتے۔ اگر طالبان ہمارے لئیے برے تو افغانیوں کیلئیے اچھے کیوں؟ سو دل سے بدلنا ہو گا۔ یہ ہی پالیسیز ہیں جنھوں نے احساس محرومی پیدا کیا۔

انعام: محسن صاحب یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ وہ محسن داوڑ جو کبھی ڈرون حملوں تک کا حمایتی تھا اب فوج کی موجودگی پہ سوال کیوں اٹھاتا ہے۔

محسن: آپ نے بہت اچھا کیا یہ سوال کیا۔ جس وقت میں نے یہ کہا اس وقت طالبان کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھا سکتا تھا۔ میں نے طالبان کے خلاف ہر طرح سے آواز اٹھائی تھی۔ مجھے بتائیے کہ ان طالبان کے خلاف پھر کاروائی کر کون سکتا تھا۔ سو میں نے آپریشن کی حمایت کی۔ میں آج بھی اس ٹوئیٹ پہ قائم ہوں۔ آپ اسکا پس منظر سنئیے۔ میں نے ایک مباحثے کے دوران پی ٹی آئی کے ایک شریک جو ڈرون حملوں کے خلاف بات کر رہے تھے، ان کے سامنے ڈرون حملوں کی حمایت کی تھی۔ میرا موقف تھا کہ تاجک و دیگر اقوام نے ہمارا باڈر کراس کر کے ہماری خودمختاری پہ پہلے حملہ کیا تھا نا کہ ڈرون نے۔ ہوتا یہ ہے کہ اس بات کو پس منظر کے بنا بیان کیا جاتا ہے۔

اس موقع پہ ہم نے پشتون تحفظ مومنٹ کے بارے میں بات مناسب سمجھی۔ پوچھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ نقیب اللہ کے قتل پہ ہونے والے اک چھوٹے سے احتجاج کو پوری تحریک بنانے میں آپ کا اور “حسین حقانی” کا بہت بڑا ہاتھ ہے؟

محسن: دیکھئیے یہ وضاحت پہلے کر دوں کہ حسین حقانی سے آج تک فقط دو ملاقاتیں ہیں۔ میں پی ٹی ایم سے قبل کانفرنس میں لندن گیا تھا سو ایسی بات کی جاتی ہے۔ وہاں کافی لوگ تھے البتہ میرے صوبے سے میں ہی تھا۔ پھر دوسری ملاقات امریکہ میں ان سے ایک ایسی ہی تقریب میں ہوئی۔ آپ یاد رکھئیے کہ یہ احتجاج فقط محسود قبائل نے شروع کیا تھا بطور قبیلہ۔ ایم ٹی ایم (محسود تحفظ موومٹ) نے یہ احتجاج نہیں بلایا تھا البتہ انھوں نے ہم سے رابطہ کیا حمایت کیلئیے سو ہم نے اپنے لوگوں (نیشنل یوتھ آرگنائزیشن) سے کہا کہ وہ ساتھ دیں۔ رفتہ رفتہ یوں ہوا کہ وہاں اتنے مختلف علاقوں کے لوگ جمع ہو چکے تھے کہ میرا خیال تھا کہ اب یہ محسود تحفظ سے پشتون تحفظ مومنٹ بن گئی ہے۔ سو این وائی یو کے لڑکوں نے سٹیج سنبھالا۔ محسود قبائل کے مشران اور منظور پشتین جب وزیراعظم سے ملے اور احتجاج ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو میرا موقف مختلف تھا کہ راتوں رات واپس نا جاو ورنہ قوم کو غلط پیغام جائے گا۔ وہاں تلخ کلامی ہوئی اور وہ قبائل اپنے کنٹینر بھی لے کر چلے گئے۔ پھر ہمارے لڑکوں نے ہی سٹیج سنبھال کر یہ بات آگے چلائی۔
آپ یاد رکھئیے کہ اپرائزنگ کو شکل تو دی جا سکتی ہے، پیدا نہیں کیا جا سکتا۔

انعام: “لر و بر”، “دہشت گردی کے پیچھے وردی” جیسے نعرے کیا غلط پیغام نہیں دیتے رہے؟

محسن: دیکھئیے یہ “لر و بر” کا نعرہ ہم ہمیشہ سے لگاتے ہیں۔ اے این پی میں بھی لگاتے تھے۔ اور ویسے بھی ہماری قومیت افغان ہے، پٹوار خانے میں، پاکستان کے ڈومیسائل میں بھی آج تک ہم اپنی قوم افغان ہی لکھتے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ یہ لوگ وہاں آگ لگائیں اور تپش یہاں نا آئے۔ ہمارا مستقبل مشترکہ ہے، ہمارا مذہب و زبان افغانستان سے مشترکہ ہیں۔ پاکستان پہ دو جنگیں ہندوستان نے مسلط کیں مگر یہ والا باڈر پریشانی کا باعث نا بنا مگر ہم نے اپنی بیوقوفی سے یہ باڈر گرم کیا۔ ہمارے اس مشترکہ ورثے کو پاکستان کے فائدے کیلئیے استعمال کیا جانا چاہیے تھا، مگر ہم نے تو طے کر رکھا ہے کہ دشمنی کرنی ہے جو ممکن نہیں ہے۔

انعام۔ سو اپ کے خیال میں ڈیورنڈ لائن ایک موثر شے نہیں ہے؟

محسن: دیکھئیے کرزئی نے کہا تھا میں نا اس لائن کو مانتا ہوں نا چھیڑتا ہوں۔ تو کیوں ہم نے قسم ہی اٹھوانی ہے۔ یہ لائن تھی مگر سافٹ باڈر تھا۔ جیسے آج یورپ کے باڈرز ہیں۔ امریکہ میں بھی کینڈا و امریکہ کے باڈر پہ رہنے والے آزادانہ ایک دوسرے کی جانب جاتے ہیں۔ افغانستان آپکی سلامتی کیلئیے کوئی خطرہ تو نہیں تھا، بس یہ ایک تاریخ کلیم ہی تھا۔ اگر ہم یہ دشمنی پیدا نا کرتے تو شاید یہ مسلئہ حل بھی ہو چکا ہوتا۔

انعام:۔ فارن میڈیا نے پی ٹی ایم کو بہت کوریج دی، اس سے بھی بہت شکوک جنم لیتے ہیں۔

محسن:۔ دیکھئیے وہ کوریج کیوں نا دیں۔ ایک اتنی بڑی تحریک اٹھی، پہلی بار پاکستان میں فوج کے کردار پہ سوال اٹھایا گیا ہے تو اتنی اہم خبر وہ کیوں کور نا کرتے۔ ہمارا میڈیا تو بلیک آوٹ کر رہا تھا بلکہ بدنام کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایک گدھے بلی کی موت پہ تو پروگرام ہو سکتے ہیں مگر ہمارے لئیے میڈیا بلیک آوٹ کرتا رہا تو پھر انٹرنیشنل میڈیا کی توجہ اس پہ آنی ہی تھی۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ اس میں کوئی سازش نہیں ہے۔ ہاں یہ لازم نہیں کہ پاکستانی میڈیا کی مانند انٹرنیشنل میڈیا بھی آئی ایس پی آر کے مطابق ہی چلے۔

انعام:۔  کیا اپ کو لگتا ہے کہ پی ٹی ایم اپنا پیغام پہنچانے میں ناکام رہی۔ بالخصوص پنجابی کو ہی کالیا و دیگر گالیاں دے کر۔

محسن: کالیا جو علی وزیر کہتے ہیں، وہ پنجابی خود بھی تو کہتے ہیں۔ یہ تو امیتابھ کی فلم کا ڈائلاگ ہے “تیرا کیا ہو گا کالیا”۔ البتہ اسکے غلط پیغام کی وجہ سے ہم نے علی وزیر کو اس سے روک دیا۔

انعام:۔ آپ بھی تو “پنجابی میلے” نے مجھے پکڑا جیسی باتیں کرتے ہیں۔

محسن:۔ نہیں میں نے فقط یہ کہا کہ مجھے پکڑنے والا میلا سا تھا اور مجھے گالیاں دے رہا تھا پنجابی میں۔ میں ٹوئٹ پہ قائم ہوں تو کبھی اس بات سے بھی نا مکرتا۔ وہ بلوچی ہوتا تو میں بلوچی کہتا۔ ہاں فوج کے خلاف تو پنجاب میں بھی نعرے لگتے ہیں۔

انعام: جب اپ “پنجابی فوج”، “پنجابی استعمار” جیسی بات کریں گے تو تعصب کا تاثر تو جائے گا۔

محسن:۔ اپریسڈ قوم متعصب ہو ہی نہیں سکتی۔ البتہ اگر وہ شکوہ بھی کرے تو اسے تعصب نہیں شکایت سمجھنا چاہیے۔ اور ہمارے لفظ پکڑ کر ایسی باتیں کی جاتی ہیں۔ ہم قطعا متعصب نہیں۔

انعام:۔ ہم واپس پی ٹی ایم کے پاکستان بھر میں پیغام پہنچانے میں ناکامی پہ بات کرتے ہیں۔

محسن: ہاں میں یہ مانتا ہوں کہ اس میں ہم سے بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں۔ ہم تنظیمی ڈھانچے کے بنا کام کرتے رہے۔ ہم شروع ہی سے اٹیک موڈ میں کام کرتے رہے اور پھر دوسری جانب سے ری ایکشن آتا تھا، لڑکے گرفتار ہو جاتے تھے اور بجائے پیغام پھیلانے کے ہم لڑکے چھڑانے پہ انرجی لگاتے رہے۔

دوسرا یاد رکھئیے پی ٹی ایم کا پیغام بہت محدود تھا۔ میرا موقف ہمیشہ سے یہ تھا کہ ہمیں پیغام بڑا کرنا چاہیے اور عوام تک جانا چاہیے مگر ہم یہ بھی نا کر سکے۔ اسٹریٹیجی بھی مناسب نا تھی اور پھر کنفرنٹیشن، تو ہم بہت جگہوں پہ پیغام نا پھیلا سکے۔

انعام: کچھ باتیں بہت سرگوشیوں میں تھیں مگر اب منظور اور اپ کے اختلافات کی خبریں، پی ٹی ایم میں تقسیم کی خبریں کھل کر سامنے آ رہی ہیں۔ کیا آپ تائید کریں گے؟

محسن: میں تائید تو نہیں کرتا ہاں ہمارے میں نکتہ نظر کا اختلاف ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایک براڈ پروگرام ہو عوام تک جانے کیلئیے۔ کیونکہ چار مسلئے جیسے مائنز یا کرفیو پورے پاکستان کا مسلئہ نہیں ہیں۔ لوگوں تک بڑے پروگرام کے ساتھ جانا ہو گا اور سیاسی تنظیم کے ساتھ۔ منظور اس سے متفق نہیں اور یہ ہی بس ہمارا اختلاف ہے۔

انعام: کئی لوگ، پی ٹی ایم کے اندر بھی یہ کہتے ہیں کہ منظور کی جدوجہد سے، پی ٹی ایم کی کاوش سے اگر کوئی فائدہ اٹھا گیا تو وہ اپ ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے؟

محسن: دیکھئیے میرے الیکشن پہ سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ میرا پہلے دن سے یہ نظریہ ہے کہ ہمیں الیکشن لڑنا چاہیے تھا یا کم از کم روکنا نہیں چاہیے تھا۔ پی ٹی ایم نے یہ فیصلہ کر لیا کہ جو الیکشن لڑے گا وہ کور کمیٹی کا ممبر نہیں رہے گا۔ ہم الیکشن میں گئے۔ یہ طے پایا تھا کہ ہم کور کمیٹی میں نہیں رہیں گے مگر یہ بات پبلک نہیں ہو گی۔ لیکن پی ٹی ایم سے ہی شرارت کی گئی اور کہا گیا کہ ہم پی ٹی ایم کا حصہ نہیں رہے۔ اس بیان کو جمیعت نے میرے خلاف استعمال کیا۔ منظور نے بھی یہ کہا کہ جو الیکشن لڑ رہے ہیں وہ خود سے لڑ رہے ہیں۔ لیکن میں ایم این اے بن گیا۔

اگر میں نے اپنے فائدے ہی کیلئیے تحریک کو استعمال کرنا ہوتا تو ملنے والی آفرز کا فائدہ اٹھاتا۔ مجھے کوئی وزیراعظم تو نا بناتا۔ زیادہ سے زیادہ وزیر ہی بن سکتا تھا۔ مجھے کیا بتاؤں کیا کیا آفرز ہوئی۔ وزارت کی آفر دی گئی پہلے ہی انتخاب پہ۔ اگر مفاد پرست ہوتا تو فائدہ اٹھا لیتا۔ اگر میں الیکشن نا بھی لڑتا تو بطور وکیل اس علاقے میں پریکٹس کر کے ہی بہت فائدہ اٹھا لیتا۔ مگر ہم نے ہمیشہ تحریک کے فائدے کیلئیے کام کیا۔ پی ٹی ایم بنا کسی تنظیمی ڈھانچے کے اگر اتنا عرصہ چل گئی ہے، ہمارے کام کی ہی وجہ سے ہے۔ ہم نے اپنے انتخاب کو تحریک کیلئیے استعمال کیا۔ خڑکمر کے واقعہ کو دیکھ لیں ہم نے جان تک ہتھیلی پہ رکھ دی۔

انعام: یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے اپ کو باقاعدہ لیڈر بنایا ہے۔ پھر ہری پور جیل میں اپ کی ایک اہم شخصیت سے ملاقات کا بھی چرچا ہے۔ یہ تاثر ہے کہ اپ کو پی ٹی ایم کو کمزور کرنے کیلئیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

محسن: یہ کچھ لوگ یہ باتیں کرتے ہیں۔ کہنے کو تو میرے پاس بھی پھر بہت مواد ہے مگر میں پبلکلی یہ باتیں کرنا ہی نہیں چاہتا۔ ویسے اسفند یار اور مولانا فضل الرحمان سمیت سب کا پی ٹی ایم پہ بھی تو یہ ہی الزام تھا کہ اسٹبلشمنٹ نے اسے ہمیں کمزور کرنے کیلئیے بنایا ہے۔ اگر یہ مفروضے ماننے ہیں تو پھر تو منظور کو بھی، علی وزیر کو بھی اسٹبلشمنٹ ہی نے بنایا ہے۔
جہاں تک ہری پور جیل والی بات ہے، میں اور علی وزیر اکٹھے تھے۔ کون سی ملاقات ہوئی؟ اور اگر ہوئی بھی تو تو کیا بات ہوئی؟ وہ پی ٹی ایم جو خڑکمر کے بعد کولیپس کر چکی تھی، اس کو دوبارہ کھڑا کس نے کیا؟ دو بڑے جلسے ہوے ہیں بنوں اور میران شاہ، سب جانتے ہیں کہ ان کو بڑا جلسہ کس نے بنایا۔ میں نے ہی کردار ادا کیا تھا۔ پی ٹی ایم تو ہائبرنیشن میں چلی گئی تھی۔
یاد رکھئیے لیڈر ہوتے ہیں بنائے نہیں جاتے۔ ویسے بھی میں تو کہتا ہوں اگر اسٹبلشمنٹ لیڈر بنائے بھی تو “نیریٹو”(بیانیہ) دیکھنا ہے۔ فوج نے نواز شریف بنایا مگر اس نے موٹروے بھی تو بنائی۔ ایک سوال کے جواب میں میں نے کراچی میں کہا تھا کہ اگر پی ٹی ایم واقعی فوج نے بنائی بھی ہے تو اس نے پشتون قوم کو آواز تو دی۔ یہ تو بہت اچھا ہوا۔ آپ شروع سے اب تک میری تقاریر دیکھ لیں، باقی سب کی بھی دیکھ لیں، آپکو سمجھ آ جائے گا کہ کون کمپرومائزڈ ہو گیا اور کون نہیں ہوا۔

انعام: آپ نے اعتراف کیا کہ خڑکمر کے بعد پی ٹی ایم ہائبرنیشن میں چلی گئی تھی۔ کیا ہم اسے بطور لیڈر منظور پشتین کی ناکامی کہیں گے؟

محسن: میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ ناکامی مگر یہ ضرور کہوں گا کہ “بحران چاہے جیسا بھی ہو لیڈر کا اصل امتحان ہوتا ہے”۔ میں خڑکمر میں گر گیا اور زخمی ٹخنے سے خون بہنے لگا۔ لوگوں کو لگا کہ مجھے گولی لگی ہے۔ میں نے محفوظ جگہ پہنچ کر والدہ کو فون کر کے خیریت کی اطلاع دی۔ لوگ خوفزدہ تھے، میرے پاس آپشن تھا کہ میں چھپ جاتا مگر پھر لوگوں کے خوف میں اضافہ ہوتا۔ سو میں چار بجے تک مختلف حجروں میں چھپا رہا، لوگوں نے مجھے ڈرایا مگر میں نے فیصلہ کیا کہ روڈ پر نکلوں گا۔ میں باہر نکلا اور ڈرا نہیں۔

انعام: چلئیے میں سوال یوں کرتا ہوں کہ کیا منظور پشتین خڑکمر کے بعد قائدانہ کردار کی توقعات پہ پورا نا اتر سکے؟

محسن: دیکھئیے میں نے تو جو کہنا تھا آپکو وہ کہہ دیا۔ لیڈر شپ کا امتحان بحران ہوتا ہے۔ میرے پاس اگر دو سو لوگ بھی باہر سے آ جاتے تو میں پلڑا بدل دیتا۔ لیکن وہ بیرونی سپورٹ نا مل سکی۔ میں مایوس تو نہیں ہوا، کبھی نہیں ہوتا، نا دکھ ہوا۔ کیونکہ میں یہ ایکسپیکٹ کر رہا تھا۔ پھر مجھے پیغام دے دیا گیا کہ ہم نہیں آ سکتے۔

پھر یوں ہوا کہ فورا ہی فوجیوں سمیت جرگہ آ گیا کہ اپ لوگ ایک ہفتے تک احتجاج نا کرو ہم مسلئہ حل کرتے ہیں۔ لیکن میں جانتا تھا اگر میں نے یہ بات مان لی تو الزام لگے گا کہ گرفتاری سے بچنے کیلئیے شہدا کا خون بیچ دیا۔ جنکی طرف اپ نے اشارہ کیا وہی لوگ یہ بات کرتے۔ میں جانتا تھا کہ لوکل احتجاج مشکل ہو گا البتہ اگر باہر سے مدد آ جائے تو میں صورتحال بدل لوں گا۔ مگر منظور کی جانب سے پیغامات آئے کہ وہ نہیں آ سکتے اور وہ پیغام لیک آوٹ ہو گئے۔ اسی وجہ سے فوجی قیادت پھر کانفیڈنٹ ہو گئی کہ انکو باہر سے کوئی سپورٹ نہیں ملے گی۔

انعام:۔ یہ بات بہت پھیلی ہے، کیا واقعی محسن داوڑ ایک سیاسی پارٹی بنا رہے ہیں؟

محسن: میرا شروع سے موقف ہے کہ میں پارلیمانی سیاست میں یقین رکھتا ہوں۔ فی الحال ہم نے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا۔ جب فیصلہ ہو گا تو پوری دنیا دیکھے گی۔ رہا ارادہ تو پھر مستقبل کا کیا پتہ چلتا ہے۔

انعام: چلئیے “اگر” پارٹی بنتی ہے تو محسن داوڑ فقط ایک پشتون لیڈر ہو گا یا قومی؟

محسن: مسائل تو ہر جگہ ہیں۔ بلوچوں میں پشتونوں سے بھی زیادہ، سندھیوں میں بھی، پنجابیوں میں بھی، سب جگہ ہیں۔ معاشی مسائل ہر جگہ ہیں۔ پنجاب کا مزدور اپنی محرومی کی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ پارٹی فی الحال تو نہیں بنی مگر جب بنی تو پھر مکمل ریسرچ ہو گی کہ مسائل کیا ہیں اور حل کیا ہو گا، ایک پروگرام تو دینا ہو گا۔

انعام: کیا آپ ان تمام مسائل بالخصوص پشتون مسائل کا حل پاکستان کی ریاست اور اسکی حدود کے اندر سمجھتے ہیں؟

محسن: جی بالکل۔ ہم پارلیمان میں ہیں، اسکا اور کیا مطلب ہے؟ میں تمام مسائل کا حل پاکستان کی موجودہ جغرافیائی حدود کے اندر ہی چاہتا ہوں۔ اور انکا حل ممکن ہی ایسا ہے۔

انعام:۔ آپ کی تقاریر بطور لیجئسلیٹر بہت پختہ ہیں، اپ کی سیاسی سوچ دور رس ہے۔ سو اپ کے خیال میں اگلے دس بیس برس میں پشتون علاقوں کے مسائل میں کمی آئے گی یا اضافہ ہو گا؟

محسن: اسکا بہت دارومدار ریاست کی پالیسیز پہ ہے۔ اگر تو موجود پالیسیز ہی رہیں تو مسائل میں شدید اضافہ ہو گا۔ لیکن اگر بدل گئے تو تبدیلی آئے گی۔

انعام: پشتون علاقوں میں اے این پی، پیپلز پارٹی، مذہبی جماعتیں اور پھر پی ٹی آئی بھی موجود ہے جسے مسلسل دوسری بار عوام نے اقتدار تک پہنچایا ہے۔ کیا واقعی ان سب کے باوجود کوئی ایسا خلا موجود ہے پشتون سیاست میں جو اپ کی ممکنہ پارٹی پورا کرنا چاہے گی؟

محسن: سکوپ اس لئیے ہے کہ پارٹیز کمپرومائزڈ ہو چکی ہیں۔ دوسرا موجودہ دور میں وراثتی سیاست کے خلاف جذبات ہیں۔ فقط اس بنا پہ سیاست کے اپ کسی کے بیٹے یا بیٹی ہیں، یہ مزید نہیں چل سکتا۔ نئی نسل اسے نہیں مانتی۔ پھر خلا یہ ہے کہ ورکرز میں اتنا شعور آ چکا ہے کہ اسکی لیڈرشپ کیا چاہتی ہے۔ وہ اپنے لیڈر کے مفاد کو دیکھ کر ایک حد سے آگے جاتا ہی نہیں سوائے اسکے کہ سیاست نظریات کی بنیاد پہ ہو اور ورکر کے پاس اونر شپ ہو۔ اسے پتہ ہو کہ وہ ممبر بنا ہے تو محنت کر کے پارٹی لیڈ بھی کر سکتا ہے۔ یہ خلا پر کرنا ضروری ہے کیونکہ اسکے بنا اپ اتنی مضبوط فوج کو اسکے اصل کردار تک محدود نہیں کر سکتے۔

وہ انٹرویو جس کیلئیے بیس منٹ کا وقت طے ہوا تھا، قریب دیڑھ گھنٹہ جاری رہا۔ محسن داوڑ کا تاثر اس سے بہت مختلف رہا جیسا کچھ حلقوں کی جانب سے بنایا گیا تھا۔ پڑھا لکھا، تلخ سوالات کا جواب بھی تحمل سے دینے والا اور اپنی بات کو دلیل کے ساتھ ابلاغ کرنے کی صلاحیت سے بھرپور۔ وکالت اور پھر سیاست نے انکو بین السطور بات کرنے کا ماہر بنا دیا ہے۔ پی ٹی ایم اور منظور پشتین سے کیا انکے اختلافات ہیں؟ کیا وہ ایک سیاسی پارٹی بنانے جا رہے ہیں؟ ان سوالوں کا بہترین جواب آپ کو بین السطور ہی ملے گا۔ “اگر” محسن داوڑ واقعی ایک سیاسی پارٹی بناتے ہیں تو یقینا یہ پاکستان کی قومی سیاست میں ایک خوش آئیند اضافہ ہو گا۔

مرتبہ: انعام رانا

Advertisements
julia rana solicitors london

خصوصی شکریہ: رشید یوسفزئی

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”محسن داوڑ سے خصوصی انٹرویو

  1. یہ انٹرویو پی ٹی ایم۔کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے۔ مجسن داوڑ نے اپنی پارٹی کا چٹھا کٹھا کھول کے رکھ دیا۔

Leave a Reply