لوہڑی ہمارا تہوار۔۔نوشی بٹ

دنیا کے بیشتر مملک میں مختلف تہوار منائے جاتے ہیں۔
مذہبی تہواروں کے علاوہ جو تہوار ہیں ان میں پنجاب کے بہت سے  ایسے تہوار ہیں جو  مختلف موسموں کی مناسبت سے منائے جاتے ہیں۔جیسے ویساکھی بسنت اور لوہڑی۔بلاشبہ پچھلے کچھ عرصے سے ان کے منانے میں وہ جوش و خروش نہیں ہے۔ ہماری نئی نسل کو تو ٹھیک سے ان موسمی تہواروں بارے  معلوم  بھی نہیں ہے۔لیکن دوسری طرف ہمارے کچھ نوجوان ایسے ہیں جو اپنی دھرتی ماں سے جڑے ہیں۔اور انہوں نے کسی نہ کسی حوالے سے ان تہواروں کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ایسے ہی 11 جنوری کو لاہور میں لوہڑی کا تہوار منانے کی دعوت ملی۔نوجوان دوست جو لال ہڑتال کے نام سے تھیٹر بھی کرتے ہیں، ان کے ساتھ سینئر دوستوں نے لوہڑی کی تقریب کا انتظام کیا ہوا تھا۔

جوئیہ صاحب اس ایونٹ کے آرگنائزر تھے۔ جن کا تعلق عوامی ورکر پارٹی سے  ہے۔اور قصور  کےرہائشی ہیں ۔انہوں نے بلاشبہ بہترین انتظام کر رکھا تھا۔۔میں خلاف معمول پورے آٹھ بجے پہنچ گئی۔ورنہ میں لیٹ لطیف ہوں اکثر  تاخیر  ہو جاتی ہے  کہیں بھی پہنچنے میں ۔بیٹھنے کا انتظام کھلی جگہ کیا گیا تھا ،جہاں پر درمیان میں جگہ بنا کر کافی بڑے الاؤکو سلگانے کی تیاری ہو رہی تھی۔آگ کے ارد گرد لوگ بیٹھ گئے۔سب دوستوں کو آپس میں پنجابی بولنے کا کہا گیا جسے سب نے خوشی خوشی مان لیا کہ اپنی ماں جائی بولی کسے پسند نہیں۔افضل ساحر نے لوہڑی کا پس منظر انتہائی خوبصورتی سے بیان کیا۔بابا نجمی،سلیم البیلا۔کینیڈا سے چہل کور اور دوسرے کئی دوستوں نے محفل کی شان بڑھائی۔مہمانوں کی تواضع لوہڑی کے تہوار کے حساب سے مونگ پھلی،ریوڑیوں،املوک،مرونڈے اور چائے سے کی گئی۔چائے کے ساتھ گڑ کی ڈلی بھی دی گئی۔دلا بھٹی کی بہادری کو یاد کیا گیا۔مذہبی رواداری اور مل جل کے  ایک  دوسرے کے ساتھ رہنے ،تہوار منانے پہ بات کی گئی۔وطن عزیز میں جہاں انتہاپسندی اور خوف کے سائے ہیں۔اس طرح محبت بھری تقریبات کی اشد ضرورت ہے۔پنجاب واسی محبت سے بھرے لوگ ہیں۔محبت بانٹ کے خوش رہتے ہیں۔مگر پچھلے کچھ عرصے سے نفسانفسی اور معاشی بدحالی نے لوگوں کو محدود کر دیا ہے۔ایسے میں اس طرح کی روایات کو زندہ رکھنے والے لوگ قابل ستائش ہیں۔
الاوؤکے ارد گرد دربوکے کی تھاپ پہ سب نے بھنگڑا ڈالا۔سلیم البیلا اور ساتھی نے اپنی پرفارمینس سے لوگوں کے لبوں پہ ہنسی سجائی۔بابا نجمی نے اپنی شاعری سے محظوظ کیا۔انوش اور اسامہ نے اپنی بہترین پرفارمنس سے مزیّن ایک ڈرامہ پیش کیا، جس نے تقریب کو چار چاند لگادیے۔کچھ لوگوں نے گانے سنائے۔غرض کہ یہ تقریب بے حد محبت بھری تھی۔جس میں اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں سے محبت کا احساس تھا۔

رات بارہ بجے تقریب کا خوشگوار اختتام ہوا۔اور سب اگلے سال لوہڑی دوبارہ منانے کی امید پہ گھروں کو روانہ ہوئے۔

اپنی تہذیب اپنے تہواروں اور اپنی دھرتی ماں سے جڑئیے۔کیونکہ یہی آپ کا اصل ہے۔اپنی ماں بولی کو بولنے میں شرم کیسی۔کیا کبھی انگریز کو دیکھا کہ وہ انگریزی بولتے ہوئے شرم محسوس کرے۔اپنی زبان اپنی بولی کو اپنی پہچان بنائیں۔اپنی پہچان پہ شرمندہ ہونے کی بجائے فخر کرنا سیکھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply