محترم عزت مآب “بوٹ” صاحب کو عزت دیں۔۔رمشا تبسم

ہم نے جب ہوش بھی نہیں سنبھالا تھا ہمیں ایک ہی نعرہ سیکھایا گیا
پاکستان زندہ باد
پاک فوج پائندہ باد!

یہ وہ نعرہ تھا جس کو تین چار سال کی عمر میں  سکول میں داخل ہوتے ہی صبح اسمبلی میں  بلند آواز میں   لگاتے  تھے اور ہر بار پاکستان اور پاک فوج کا نام لے کر فخر محسوس کرتے تھے اور کرتے ہیں۔اس نعرے کے خلاف بولنے یا محسوس کرنے والوں سے لفظی جنگ کرتے ہوئے لوگ مرنے   مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔

پاکستان تو جیسے تیسے حاصل کر ہی لیا اور پاکستان کی فوج کو پوری دنیا میں نمایاں مقام حاصل ہے۔پاک فوج کی بہادری کے چرچے ہر جگہ ہوتے ہیں۔پاک فوج نے ہمیشہ بہادری کے جوہر دکھائے اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے بے شمار قربانیاں بھی دیں۔اور اکثر بیرونی دشمنوں کو منہ توڑ جواب بھی دیا اور اسی طرح کے کچھ منہ توڑ جواب اور کچھ جنگیں پاکستان کی عوام سے بھی ہوئیں  اور پاک فوج کے کچھ مغرور ملازمین نے وہ صرف عوام سے ہی کی جانے والی جنگیں سو فیصد جیت بھی لیں ،جیسا کہ پاکستان میں 72 سالوں میں لگے بے شمار مارشل لاء کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور جنرل پرویز مشرف جیسے فوج کے ملازم کا مقدمہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ،جس کو ثبوتوں کی بنیاد پر غدار ٹھہرا کر پھانسی کی سزادی گئی  اور اسی کی خاطر عدالت کو جعلی بھی قرار دے دیا گیا ۔مگر پاکستان کی عوام پھر بھی تا قیامت پاک فوج پائندہ باد کا نعرہ لگائے گی اور فوج پر جان نثار کرنے کو تیار رہے گی۔فوج کی پہچان فوج کا کام اور ا ن کی وردی ہے۔فوج کا کوئی سپاہی شہید ہوتا ہے تو اس کا یونیفار بھی عقیدت سے رکھا اور سنبھالا جاتا ہے۔مگر عمران خان جو بدقسمتی سے ہمارے وزیراعظم لگا دیئے گئے ہیں انہوں نے سیاست میں شدید شہرت پانے اور اپنے لئے جائز و ناجائز طریقے سے راستہ بنانا شروع کیا ،اسی وقت سے پاک فوج کی بدنامی کا باعث بھی بننا شروع ہو گئے اور اب اقتدار پر  زبردستی براجمان ہو کر پاک فوج کی شان اور عظمت میں بدنما داغ لگاتے نظر آتے ہیں۔عمران خان کنٹینر پر کھڑے ہوئے تو پاک فوج کے کسی طاقتور شخصیت کو ایمپائرکہہ کر مخاطب کیا اور اس ایمپائر کی طاقت کو اسکی انگلی سے ظاہر کیا۔اور اپنے ماننے والوں کو اشارہ دیا کہ ایمپائر کی انگلی اٹھتے ہی سب ٹھیک ہو جائے گا اور نواز شریف کی منتخب اور جمہوری حکومت کا نا  صرف تختہ اُلٹے  گا بلکہ اقتدار بھی عمران خان کی جھولی میں بھیک کی طرح آ گرے گا ،حالات چاہے جو بھی اشارہ دیتے رہے ہوں بیشتر عوام کو اس ایمپائر کی موجودگی اور اسکی عوام مخالف طاقت کے استعمال پر یقین نہیں تھا۔

وقت گزرتا گیا ،عمران خان کی حکومت آگئی ، اس حکومت کے بننے کا سفر بھی عجیب رہا ،جہاں اکثر تحریک انصاف کی الیکشن کیمپین میں چیف جسٹس ثاقب نثار اور دوسرے بڑے اداروں کے افسران نظر آئے تو کبھی “ڈولفن”, “کرین” اور “جیپ” جیسی خلائی سیاسی جماعتوں سے عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا۔ اسکے علاوہ تحریک انصاف کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں خاص کر مسلم لیگ ن کے بینرز سڑکوں, بازاروں اور دیواروں سے اتار دیے گئے۔جس طرح صرف رہے نام اللہ کا ،اسی طرح صرف رہے سیاسی جماعت عمران خان کی ،نظر آتی رہی۔حکومت میں آتے ہی  وقتاً فوقتاً کبھی اپنی غلط اور ناکام معاشی پالیسیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ہمارے ہر دلعزیز دل و جان ان پر قربان ہمارے اپنے ڈی۔جی۔آئی۔ایس۔پی۔آر صاحب سے بیان تک دلواتے رہے۔کیونکہ ملک پاکستان سب کا ہے اور فوج کے ملازمین بھی اسی ملک کا حصہ ہیں، لہذا ان کا ملک پر بات کرنا جائز ہے مگر ملک کی حکمران جماعت کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا اور میڈیا اور عوام کو  زبردستی مثبت رہنے کی تلقین کرنا قطعی پاکستان کے حق میں نہ تھا۔

آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا معاملہ آیا تو حکومت کی بے جا اور فضول مداخلت سے ہمارے ہیرو اور ہمارے سپہ سالار جن پر جان بھی قربان محترم قمر جاوید باوجوہ صاحب کی شخصیت, کردار اور انکی فوج کی ملازمت کو متنازع بنا دیا گیا ۔حکومت کی  بلاضرورت مداخلت نے یہ تاثر دیا کہ  ہمارے ہیرو جنرل قمر جاوید باوجوہ صاحب ہر صورت  زبردستی عہدے پر قائم رہنا چاہتے ہیں اور اگر ان کو ایکسٹینشن نہ ملی تو ہمارے سپہ سالار اپنی نوکری ختم ہوتے ہی عمران خان کی نوکری بحیثیت  وزیراعظم بھی ختم کر دیں گے۔حالانکہ پاکستان کی باشعور عوام جانتی ہے کہ ایسا کچھ نہیں تھا، ملک کے حالات کی ضرورت تھی کہ  آرمی چیف اپنے عہدے پر قائم رہیں مگر حکومت پاکستان نے نا  صرف سپہ سالار کے کردار کو مشکوک بنایا بلکہ پوری فوج کی بدنامی کا باعث بنی۔مشرف غداری کیس میں حکومت کا عدالتوں کے خلاف شدید غم و غصے نے بھی یہی تاثر  پیدا کیا کہ فوج کی طاقت کے آگے عوام اور حکومت مجبور ہیں اور فوج  زبردستی فیصلہ بدلوانا چاہتی ہے۔حکومت کی جذباتی پریس کانفرنس ،ٹویٹ اور بیانات نے فوج کو ہر معاملے میں گھسیٹا اور اس کو بدنام کیا۔اور ہم پھر بھی خاموش رہے کہ شاید ہمیں سمجھنے میں غلطی لگ رہی ہے۔۔مگر عمران خان اور ان کے وزیر اب پہلے سے شدید طریقے سے ہماری ہر دلعزیز عوام دوست فوج کو بدنام کر رہے ہیں۔جو کہ اب مجھ جیسی معصوم, نازک, کمزور,غریب اور کم عقل عوام کو ہرگز برداشت نہیں۔

حکومتی وزیر فیصل واوڈا کل کاشف عباسی کے پروگرام میں فوج کا ذکر رہے تھے فیصل واڈا صاحب کے پاس فوج کا ذکر کرنے کو نہ انکی بے شمار قربانیوں کی مثالیں تھیں نہ ہی انکی ملک کی سلامتی کی کوششوں کا ذکر بلکہ فوج کا ذکر کرنے کے لئے کچھ تھا تو صرف ایک عدد خوبصورت چمکدار اور اچھے سے پالش کیا ہوا پیارا سا “بوٹ” ۔

Advertisements
julia rana solicitors

عوام یہ منظر دیکھ کر   غصے میں آ گئی کہ ہماری بہادر فوج کو ظاہر کرنا تھا تو ا ن کی ٹوپی,فوج کا ڈنڈا,فوج کا یونیفارم,چلو کوئی ایمپائر کی انگلی ہی سہی یا پھر فوج کی اب تک کی گئی  خدمات کی بات کی جاتی۔مگر فیصل واوڈا نے کسی چیز سے فوج کو ظاہر کیا تو وہ ایک پالش ہوا بوٹ تھا۔واوڈا صاحب نے کہا کہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے معاملے پر تمام جماعتوں خاص کر مسلم لیگ ن اور پی۔پی۔پی نے بوٹ چاٹا ہے۔اور عمران خان کا لائے گئے بل پر رضامندی کا ووٹ ڈال کر ثابت کردیا ہے کہ وہ بھی اس کام میں پیچھے نہیں رہے،اور عمران خان اور انکے ساتھی پہلے سے ہی اسی بوٹ کی عزت کرتے آئے ہیں۔ اس بوٹ کو محترم بوٹ ثابت کرنے کی غرض سے واوڈا صاحب نے اس کو میز پر سجا دیا۔
عوام کل سے شش و پنج میں ہے کہ ہم تو ووٹ کی عزت بحال کرنا چاہتے تھے۔مگر کیا عوام کی حیثیت بس اتنی ہی ہے کہ اسکو میسج دیا جائے کہ آپ بوٹ چاٹ لیں تو آپ ملک اور فوج سے وفادار ہیں؟ کیا فوج کی حیثیت بس اتنی ہے کہ عوام سے ووٹ کی بھیک مانگنے والے بوٹ کو میز پر رکھ کر عوام کی بہادر فوج کو بوٹ سے تشبیہ دیں؟ کیا عوام اور اسکی ہر دلعزیز فوج اتنی کمزور اور مجبور ہے کہ ایک سیاسی جماعت جو حکمران جماعت بھی ہے فوج کا کردار دن بہ دن مشکوک کرتی رہے اور عوام اور اسکی فوج مظلوم بنے تماشا دیکھتی رہے؟ اگر نہیں تو فوج کو اس حکمران جماعت اور اسکے وزیروں اور ارکان کو آڑے ہاتھوں لینا ہو گا ۔
اور اگر فوج اور اسکی عوام مجبور ہیں تو فوج ہمیں خود کہہ دے کہ انکی معصوم عوام نے فوج کی بہادری کی نہیں بلکہ صرف بوٹ کی عزت کرنی ہے اور جیسا کہ فیصل واوڈا صاحب نے اشاروں میں بات کی کہ  تحریک انصاف شروع سے ہی بوٹ چاٹ رہی ہے اور باقی جماعتیں اب چاٹنا شروع ہوئی ہیں تو عوام کو بھی بتا دیا جائے کہ  عوام نے بھی بوٹ چاٹنے ہیں کہ نہیں؟ کیونکہ ہماری زندگی کا مقصد صرف اور صرف فوج سے محبت اور انکی بہادری کو ماننا ہے۔ہمیں جو حکم دیا جائے گا ہم وہی ماننے پر رضامند ہیں خواہ محبت میں یا مجبوری  میں۔اگر بوٹ کو عزت دو حکومت اور فوج کا مشترکہ اعلان ہے تو بھی قبول ہے۔اور اگر بوٹ کی کوئی حیثیت نہیں تو ہم ایسی غیر سنجیدہ افراد کی غیر سنجیدہ حرکات پر فوج کے جواب کے منتظر ہیں۔
فیصل صاحب کا انتہائی غیر سنجیدہ رویہ قابل مذمت ہے۔میں بظاہر ایک شخص یا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ادنیٰ سی فرد۔۔یہ مطالبہ کرتی ہوں فوج اپنا وقار قائم رکھنے کی خاطر اس طرح کے افراد کو آڑے ہاتھوں لے اور حکومت وقت کی اپنے متعلق ہونے والی غیر سنجیدہ گفتگو اور کاروائیوں کو قابو کرے۔فوج کا فرض ہے کہ حکومت وقت کو یہ بات سمجھائے کے فوج اپنا دفاع خود کر سکتی ہے اور اپنی طاقت کا بخوبی استعمال کرتی آئی  ہے اور آگے بھی کرے گی لہذا حکومت وقت فوج سے بِلا ضرورت ہمدردی یا تعاون کا دکھاوا کر کے فوج کے وقار کو مزید ٹھیس نہ پہنچائے۔ہم فیصل واوڈا کا فوج کو بوٹ سے تشبیہ دینے پر پاک فوج کے جواب کے تا عمر منتظر رہیں گے۔
آخر کار
پاکستان زندہ
پاک فوج پائندہ باد

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply