کتاب دوستی ۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

قرونِ وسطی میں کتاب کو مقدس مانا جاتا تھا کہ اسے ہاتھ سے لکھا جاتا تھا۔ بعض اوقات کسی ایک کتاب کی تکمیل میں پوری زندگی صَرف ہو جایا کرتی تھی، گویا کہ کتاب کےاوراق پر سیاہی نہیں بلکہ زندگی کا لہو پرویا جاتا تھا ۔نتیجے ميں مطالعے کو ایک مقدس عمل تصور کیا جاتا تھا۔ آج کتاب کا لکھنا، چھاپنا اور خریدنا نہایت آسان ہو چکا۔ مزید یہ کہ انٹرنيٹ کی بدولت کتاب اب ٹھوس اوراق تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کی کئی مختلف شکلیں موجود ہیں ۔ رسائی اور دستیابی جہاں ایک طرف سہولت لائی  ہیں، وہيں کتاب کے تقدس پر بھی ضرب پڑی ہے۔ آج ایک عام قاری کتاب کو جنرل نالج کیلئے  پڑھتا ہے، کسی دانشور نے اس ”جنرل نالج” والی نفسیات کو جمالیات کی بیہودگی کا نام دیا ہے جو کہ بالکل درست ہے۔ ایسے قاری کسی حد تک خطرناک بھی ہیں کہ اسی ”جنرل نالج“ کو بنیاد بناتے ہوئے کسی بھی موضوع پر وہ ایک راۓ قاٸم کرتے ہیں جسے سننے کے بعد کوٸی بھی ذی شعور انسان بلند فشارِ خون کی ادویات لیے بغير نہیں رہ سکتا۔ یہی”مفکر“ اب رائے   زنی کے نام پر اجتماعی انسانی شعور پر دولتیاں مارتے دکھائی  دیتے ہیں۔

تاریخِ عیسائیت کی ابتدائی صدیوں میں تنہا یا خاموش قاری کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ، عوام الناس ایسے شخص کے مطالعے کو جادو ٹونے کے حصول کی سعی گردانتے تھے، یہی وجہ ہے کہ عیسائی  عبادت گاہوں میں انجیلِ مقدس و دیگر دعاؤں کو ہمیشہ باجماعت اور با آوازِ بلند پڑھایا اور سنایا جانے لگا کہ فرد سیاق و سباق ، شانِ نزول اور تقابلی جاٸزے کے بغیر کتاب پڑھتے ہوئے کسی ایسی رائےپر نہ جا پہنچے جو سماج کی روایات پر وار کرے۔ آج چونکہ کتاب فرد کے تکیے تلک آن پہنچی ہے تو کچھ حیرت نہیں کہ کچے ذہن کے بچے جمہورے ہر کتاب سے اپنی مرضی اور پسند کا نتیجہ اخذ کرتے ہوئے  میدانِ دانشوری کے ”جادوگر“ بنے بیٹھے ہیں۔

جو افراد زندگی کے مختلف ادوار میں اپنی عمر کے تقاضوں مطابق کتاب پڑھتے آئے ہیں، جیسے بچپن میں جاسوسی کہانیاں، لڑکپن میں رومینٹک ڈائجسٹ وغیرہ، ان میں سنجیدہ کتب کو لے کر تجزیہ کرنے اور رائے قائم کرنے کی صلاحیت بہتر ہوا کرتی ہے، لیکن وہ جنہوں نے اخباری مکالموں سے سیدھا ضخیم لٹریچر پر چھلانگ لگائی، وہ اکثر اپنی دانست کے جال میں پھنس جاتے ہیں، ایسے افراد وسیع المطالعہ ہو سکتے ہیں لیکن وسیع النظر نہیں ہوتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بچہ کبھی بھی کتاب کی طرف رغبت نہیں رکھتا، کیونکہ اس کی فطرت دوسرے جانداروں کی طرح خالص جبلت پر ہوتی ہے، اسے جبلی فطرت سے سماجی تہذیب کی طرف لانے کیلئے کتاب کی طرف رغبت دلانا ضروری ہے، اس کیلئے  پہلی شرط گھر میں کتابوں کی موجودگی ہے، دوسری شرط بچے کی نفسیات کو مجروح کئے بغیر اس کا کتاب سے تعارف کروانا ہے، آج دنیا میں ترقی، روشن خیالی، تعمیر و تخلیق، سائنس و ادب، کاروبار و صنعت کاری ،غرض کسی بھی شعبے کو ہاتھ لگائیں تو سامنے آپ کو کوئی نہ کوئی یہودی کھڑا نظر آئے گا، اس کی واحد وجہ ان کا کتاب سے رشتہ ہے، اسرائیل ابھی کل کی بات ہے وگرنہ یہودیوں کا کبھی کوئی وطن نہیں رہا، زمینی ٹکڑے کے خلا کو انہوں نے کتاب سے پُر کیا، کتاب ہی ان کا وطن ہے، قدیم یہودی مائیں اپنے بچوں کو کتاب سے متعارف کرانے کیلئے تورات کی بیرونی جِلد کے چمڑے پر شہد کے چند قطرے انڈیلا کرتی تھیں کہ بچہ شہد چاٹنے کے لالچ میں کتاب ہاتھ میں لے گا، کتاب دوستی کی روایت یہودی خاندانوں کا آج بھی خاصہ ہے اور نتائج ہمارے سامنے ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply