زلزلہ۔۔رحمٰن شاہ

تب میں تقریباً پانچ سال کا تھا۔ اُس صبح میں اور میرے دو بھائی نصرت اور خطاب، ہم اک بھیڑ کے بچے کو لئے گھر سے تقریباً بیس قدم کی مسافت پر جو ندی نما دریا اُوپر وادی کے پہاڑوں سے ہوتا ہوا  ہمارے گھر سے قریب سے جاتا تھا، جس سے اُس طرف تھوڑا سا  میدان تھا،اور اُس سے پرے اک پہاڑ اوپر کی طرف بلند ہوتا تھا۔ میں اور میرے دو بھائی اُس دریا کے قریب بھیڑ کے بچے کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ مجھے یاد ہے، میرے دونوں بھائیوں نے سفید پلاسٹک کے جوگر نما جوتے پہنے تھے  اور وہ جوتے نئے تھے  چونکہ میں تب بہت چھوٹا تھا اس لئے میں نے روزہ نہیں رکھا تھا۔۔ اور مجھے اچھی طرح یاد ہے  کہ تب میرے ہاتھ میں اک بسکٹ کا پیکٹ تھا  جو میں خود کم کھاتا اور بھیڑ کے بچے کو زیادہ کھلاتا، پر وہ نہ کھاتا۔۔ کیوں کہ اسکی غذا گھاس تھی۔۔

میری وادی کے سب لوگ اپنے کاموں میں محو تھے۔ مکئی کی فصل پک چکی تھی، پر فی الوقت کاٹی نہیں تھی، جو گھرانے اپنے جانوروں کے ساتھ پہاڑوں کی چراگاہوں کی طرف اپنے جانوروں کو چرانے گئے تھے  وہ سب گھرانے واپس آگئے تھے  کیوں کہ سردیاں شروع ہوچکی تھیں۔

تھوڑی دیر دریا کے کنارے کھیلنے کے بعد ہم دو بھائی  واپس گھر کی طرف آرہے تھے، پر میرا تیسرا بھائی نصرت وہاں ہی رک گیا وہ نہیں آیا۔۔۔ ہم ابھی گھر سے تھوڑے دور تھے، تقریباً پانچ قدم دور تھے  اور اُسی وقت زمین نے ایسا جھٹکا کھایا کہ ہمارے گھر کی دیوار جو مجھے نظرآرہی تھی وہ گر گئی۔۔۔ ہر جانب سے چیخوں کی آوازیں آنے لگیں ،میرے قریب جو پتھر کی عارضی دیوار بنی تھی  وہ گرگئی۔۔ہمارے گھرکے پیچھے جو ہمارے رشتہ دار رہتے تھے، انکی اک بوڑھی دادی  برآمدے میں چیختی رہیں  کیونکہ زمین وقفے وقف سےجھٹکے کھاتی رہتی۔ اُدھر میرا بھائی جو ہمارے ساتھ نہیں آیا تھا ، دریا کے قریب جو پہاڑتھا وہاں سے اِ ک بڑا پتھر اُس کے پاؤ ں پرگرگیاتھا۔اور وہ اٹھنے سے قاصرتھا۔۔۔میرے بھائی کا پاؤں اس قدر خو ن آلودہ تھا  کہ اگردیکھتے تو کلیجہ منہ کو آتا۔

میری ماں اُس وقت گھر میں نہیں تھی، وہ دریا سے پرے جو پہاڑ تھا  اس میں ہماری بکریاں کھوگئیں تھیں،انہیں ڈھونڈنے گئی تھی۔میرا اک بھائی جو گئی شب ہی آیا تھا وہ گھرمیں سورہا تھا۔پر خدا کےفضل سے بخیریت گھر سے نکلا۔ میری بھاوج اوراُس کےساتھ دوتین اورعورتوں نے ملکر میرے بھائی نصرت کے پاؤں سے وہ پتھر ہٹانا چاہا  پر وہ اتنا بھاری تھا  کہ نہ ہٹا۔۔۔ آخر وہاں کھڑے رہنے میں اُن کیلئے بھی خطرہ تھا۔۔ اس لئے وہ میرے بھائی کو وہاں چھوڑ کر خود آگئیں۔

باقی ادھر سب نے مل کر ہمارے گھر کے پیچھے جو میرے مامو ں کی مکئی کی فصل تھی اسے اک جگہ سے کاٹ کر وہاں عارضی پڑاؤ  ڈال دیا۔۔۔ میرا سب سے بڑا بھائی جسکی ہمارے گھر کےساتھ ہی اک چھوٹی سی  دکان تھی۔۔ وہ بنہ بازار میں سودا خریدنےگیا تھا۔ میرا اک اور بھائی اُس  صبح اسلام  آباد  کام کیلئے روانہ  ہوا تھا۔۔۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ میرے وہ دونوں  بھائی  ہر خطرے سے  محفوظ رہے۔ جب ہم نے کھیتوں میں خانہ بدوشوں کی طرح عارضی پڑاؤ ڈالا تھا، تب خدا کا ہم پر اک اور احسان ہوا۔۔۔ تب میرا بھائی نصرت مجھے ہماری جانب آتا دکھائی دیا،اور یہ سچ میں خدا کا اک کرم تھا۔ اسکی زخمی ٹانگ لٹک رہی تھی  اور خون مسلسل بہہ رہا تھا۔۔۔ وہ مسلسل آہیں بھر رہا تھا۔۔۔چیخ رہا تھا۔۔چِلّا رہا تھا۔۔۔ اور لنگڑاتا ہوا ہماری جانب آرہا تھا۔اُسکے زخمی پاؤں کا وہ سفید پلاسٹک کا جوگر نما جوتا وہاں کہیں دریا کے قریب رہ گیا تھا۔

میری ماں بھی ہر خطرے سے  محفوظ رہی۔اور جب وہ دریا کے قریب سے غموں میں ڈوبی ہوئی آرہی تھی   تو تب انہیں اک اور غم نے گھیر لیا۔۔۔ خون آلود پتھر کے پاس اک  جوتا خون کے لوتھڑوں سے بھرا پڑا تھا۔۔۔ ذرا سوچیں۔۔ اُس ماں کے دل پر کیا گزری ہوگی؟

آج جب ماں جی ذہن میں وہ لمحات لاتی  ہیں۔۔ اُس  خون آلودہ جوتے کے بارے میں سوچتی ہیں تو ہم سے یہی کہتی ہیں۔ ” جب میں نے وہ خون آلود جوتا دیکھا۔۔ تو میرے ذہن میں یہی وسوسے،یہی خیالات گردش کر رہے تھے  کہ اک ببٹا تو اللہ نے مجھ سے لے لیا۔۔ لیکن وہ خطاب ہے یا نصرت ،پتہ نہیں۔۔۔

اپنے گھر کے پیچھے مکئی کے کھیت میں پڑاؤ کے دوران اُس چھوٹی سی جگہ میں بہت سارے لوگ جمع تھے۔۔ ہمارے اور پڑوسی بھی وہاں جمع تھے۔۔ سب نے اپنے جانور وہاں قریب ہی باندھ لئے تھے۔۔
میرے بھائی نصرت کے پاؤ ں پر جڑی بوٹیوں سے مرہم بنا کر لگایا تھا،پر اسے سکون نہ ملتا  اور وہ مسلسل چیخ و  پکار کرتا رہتا ۔

میری وادی سے کسی قسم کا کوئی ٹیلیفونک رابطہ  کرنا ممکن نہ تھا۔۔ بلکہ وہاں تو کوئی موبائل نام کی چیز جانتا ہی نہ تھا۔ میری وادی میں تقریباً تین چار لوگ جن میں بچے بھی تھے، زلزلے سے مر چکے تھے۔۔۔ اور یادرہے کہ زلزلے کے جھٹکے وقفے وقفے سے آتے، ہم سے اُس طرف جو کِیما پہاڑ ہے۔۔ اس کی چوٹی کے قریب جو ملحق چٹانیں تھیں، زلزلے کی وجہ سے وہاں اک سنگ شار وجود میں آگئی تھی اورجب زلزلے کے جھٹکے سے وہاں سے پتھر گرتے  اوراُس سے ایسا دھواں اٹھتا کہ اس سے فضاء دھندلی اور سوگوارہوجاتی۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور اُس شام۔۔۔ مکئی کے کھیت میں جو اک تمبو ایستادہ تھا  اوراُس ایک تمبو میں تقریباً چار پانچ گھرانے تھے اور باہر تیز موسلا دھار بارش برس رہی تھی۔ ہم سب صبح سے بھوکے تھے، کھاناپکانا کیلئے آگ جلاتے  توبارش سے بجھ جاتی۔۔۔ اور اس دوران سب غم  میں ڈوبے ہوئے،شالوں سے خود کو گرم رکھتے    اور قریب ہی میرا بھائی نصرت چار پائی پر پڑا آہیں بھر رہا تھا۔۔
اور اُس شبِ غم کی سحر بھی بڑی دیر سے ہوئی۔۔۔
اور پھر۔۔۔
اگلے تین دنوں تک حکومت کو ہماری وادی کیا، پوری الائی تحصیل کا پتہ نہ تھا  کہ یہاں بھی انسان رہتے ہیں۔۔۔ سب کی توجہ مظفرآباد اور بالاکوٹ کی طرف تھی۔

Facebook Comments

Rehman Shah
سید رحمان شاہ۔۔۔ ایک لکھاری۔۔۔ سفرنامہ نگار۔۔۔ طنز و مزاح نگار۔۔۔۔ تبصرہ نگار۔۔۔۔ اور سب سے بڑی بات۔۔۔۔ فطرت پسند۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”زلزلہ۔۔رحمٰن شاہ

Leave a Reply