یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے/ڈاکٹر سلیم خان

قرآن کریم میں کہیں حضرت ابراہیم کی نوعمری نظر آتی تو کہیں وہ سن رسیدہ دکھائی دیتے ہیں اور پھر درمیانی عمر کے واقعات بھی ہیں ۔ کبھی بغاوت واطاعت کے پرکیف مناظر سامنے آتے ہیں تو کبھی دعوت و معرفت کی حسین وادیوں سے گزر ہوتا ہے۔ بچپن کا ایک دلچسپ منظر ملاحظہ فرمائیں۔۔۔
’’ابراہیمؑ کا واقعہ یاد کرو جبکہ اُس نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا :کیا تو بتوں کو خدا بناتا ہے؟ میں تو تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں “۔
اس حق گوئی وبیباکی کا انعام ان کو یہ ملا کہ
’’ابراہیمؑ کو ہم اِسی طرح زمین اور آسمانوں کا نظام سلطنت دکھاتے تھے اور اس لیے دکھاتے تھے کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے‘‘ ۔
اس دور میں بتوں کے علاوہ چاند ستاروں کو بھی معبود سمجھا جاتا تھا ۔ اللہ رب العزت نے ان کی حقیقت سے بھی اپنے بندے کو واقف کردیا۔ معرفت کے یہ مراحل بھی دیکھیں ۔۔

’”چنانچہ جب رات اس پر طاری ہوئی تو اُس نے ایک تار ا دیکھا کہا یہ میرا رب ہے مگر جب وہ ڈوب گیا تو بولا ڈوب جانے والوں کا تو میں گرویدہ نہیں ہوں ۔ پھر جب چاند چمکتا نظر آیا تو کہا یہ ہے میرا رب مگر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا اگر میرے رب نے میر ی رہنمائی نہ کی ہوتی تو میں بھی گمراہ لوگوں میں شامل ہو گیا ہوتا ‘‘۔
معرفت کی عظیم چوٹی کو سر کرنے بعد آپ ؑ کسی گوشے میں نہیں جابسے بلکہ اپنی قوم کے سامنے علی الاعلان برأت کا اظہار فرمایا۔۔
’’ پھر جب سورج کو روشن دیکھا تو کہا یہ ہے میرا رب، یہ سب سے بڑا ہے مگر جب وہ بھی ڈوبا تو ابراہیمؑ پکار اٹھا “اے برادران قوم! میں اُن سب سے بیزار ہوں جنھیں تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو۔میں نے تویکسو ہو کر اپنا رخ اُس ہستی کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ” ۔

دعوت کے بعد اب بغاوت کا نظارہ کریں ۔ حضرت ابراہیم ؑ کی بت شکنی کو لوگ نوجوانی کا جوش کہہ کر ہلکا کرسکتےتھے اس لیے رب کائنات نے اس واقعہ کی تمہید اس طرح بیان فرمائی کہ ۔۔
’’ اُس سے بھی پہلے ہم نے ابراہیمؑ کو اُس کی ہوش مندی بخشی تھی اور ہم اُس کو خوب جانتے تھے‘‘۔
یعنی حضرت ابراہیم ؑ کی بت شکنی ہوش و حواس کے ساتھ کیا جانے والاایک سوچا سمجھا اقدام تھا۔ بت شکن ابراہیم ؑ کے تیور قرآن حکیم اس طرح بیان ہوئے ہیں ۔۔
’’یاد کرو وہ موقع جبکہ اُس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ “یہ مورتیں کیسی ہیں جن کے تم لوگ گرویدہ ہو رہے ہو؟”انہوں نے جواب دیا “ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے” اس نے کہا “تم بھی گمراہ ہو اور تمہارے باپ دادا بھی صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے؟”انہوں نے کہا “کیا تو ہمارے سامنے اپنے اصلی خیالات پیش کر رہا ہے یا مذاق کرتا ہے؟”چنانچہ اس نے اُن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور صرف ان کے بڑے کو چھوڑ دیا تاکہ شاید وہ اس کی طرف رجوع کریں ۔ قوم نے جب واپسی کے بعد پوچھا “کیوں ابراہیمؑ، تو نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے؟” تو اُس نے جواب دیا “بلکہ یہ سب کچھ ان کے اس سردار نے کیا ہے، اِن ہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں ” یہ سُن کر وہ لوگ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور (اپنے دلوں میں ) کہنے لگے “واقعی تم خود ہی ظالم ہو”۔

ابراہیم ؑ اپنی قوم سے جو اعتراف کرانا چاہتے تھے اس میں کامیاب ہوگئے مگر منکرین حق نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کے بجائے اس کو کچل دیا ۔ ’اورکہا “جلا ڈالو اس کو اور حمایت کرو اپنے خداؤں کی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے” ہم نے کہا “اے آگ، ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیمؑ پر” وہ چاہتے تھے کہ ابراہیمؑ کے ساتھ بُرائی کریں مگر ہم نے ان کو بُری طرح ناکام کر دیا‘‘۔ اس واقعہ میں جہاں دعوت اور اس کا ردعمل کی بیان ہے وہیں داعیان ِ حق کے لیے بشارت بھی ہے۔ اس معجزے کو زمان و مکان کی قید سے آزاد کرکےعلامہ فرماتے ہیں ۔۔
؎ آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا

نوعمری میں علمِ بغاوت بلند کرنے والے ابراہیم ؑ نےکبرسنی میں بے مثال اطاعت کا نمونہ پیش کیا۔ بچپن میں حضرت ابراہیم ؑکاپالہ اللہ کاباغی باپ سے پڑا تھا مگر سن رسیدہ ابراہیم ؑ کے ساتھ نہایت مطیع و فرمانبردار بیٹا تھا جو اس کی اپنی دعا کا ثمر تھا ۔ قرآن مجید میں حضرتِ ابراہیم کی دعا اس طرح درج ہے کہ ’’اے پروردگار، مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو” ۔ آگ کی آزمائش سے نکلنے کے بعد ہجرت سے قبل کی گئی دعا کو اللہ تعالیٰ نے ایک طویل عرصے کے بعد شرف قبولت سے نوازہ اورجواب میں فرمایا ’’ ہم نے اس کو ایک حلیم (بردبار) لڑکے کی بشارت دی‘‘۔انبیائی مشن کو آگے بڑھانے کے لیے جو پسر مانگا تھا وہ بڑھاپے میں ملا ۔ فرشتوں نے بشارت دی تو’’ابراہیمؑ کی بیوی بھی کھڑی ہوئی تھی وہ یہ سن کر ہنس دی پھر ہم نے اس کو اسحاقؑ کی اور اسحاقؑ کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی۔ وہ بولی “ہائے میری کم بختی! کیا اب میرے ہاں اولاد ہوگی جبکہ میں بڑھیا پھونس ہو گئی اور یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہو چکے؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے” ۔فرشتوں نے کہا “اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو؟ ابراہیمؑ کے گھر والو، تم لوگوں پر تو اللہ کی رحمت اور اُس کی برکتیں ہیں ، اور یقیناً اللہ نہایت قابل تعریف اور بڑی شان والا ہے” ۔

حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے اسحاق ؑ سے قبل اسماعیل ؑ سے نوازہ جسے آپؑ نے اپنے رب کے حکم سے مکہ مکرمہ میں آبادکرتے ہوئے دعا کی ’’ پروردگار، میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے پروردگار، یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں ، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو اِن کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں ‘‘۔ اس سے پہلے کہ دعا قبول ہوتی ایک بہت بڑی آزمائش ان پدرو پسر کی منتظر تھی۔ یہ آزمائش آگ میں ڈالے جانے سے بھی زیادہ شدید تھی اس لیے کہ انسان اولاد کواپنی ذات سے زیادہ چاہتا ہے اور اس کی خاطر جان کی بازی لگا دیتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو (ایک روز) ابراہیمؑ نے اس سے کہا، “بیٹا، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں ، اب تو بتا، تیرا کیا خیال ہے؟” اُس نے کہا، “ابا جان، جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالیے، آپ ان شاءاللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘۔

اس موقع پر علامہ اقبال سوال کرتے ہیں
؎ یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی؟

Advertisements
julia rana solicitors

قرآن ِ حکیم کے مطابق ’’ جب اِن دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیمؑ نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیااور ہم نے ندا دی کہ “اے ابراہیمؑ تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا اور اس کی تعریف و توصیف ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں میں چھوڑ دی ۔سلام ہے ابراہیمؑ پر ‘‘۔ ویسے تو ابراہیم ؑ تمام عمر یکے بعد دیگرے آزمائشوں سے گزرتے رہے لیکن نہ کبھی حرف شکایت زبان پر لایا اور نہ ایک لمحہ کے لیےبھی اپنے فرض سے غافل ہوئے اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں عظیم بشارت دی ’’یاد کرو کہ جب ابراہیمؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزما یا اور وہ اُن سب میں پورا اتر گیا، تو اس نے کہا: “میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں ‘‘۔ ابراہیمؑ نے عرض کیا: “اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟‘‘ اس (اللہ) نے جواب دیا: “میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے”۔ اللہ کا وعدہ چونکہ ظالموں کے لیے نہیں ہے اسی لیے امت مسلمہ آج امامت کے بجائے مغلوبیت کا شکار ہے لیکن اگر ہم اپنا فرض منصبی ادا کرنے پر کمر بستہ ہوجائیں تو عالم انسانیت کی قیادت و سیادت کے مقام پر پھر سے فائز کیے جائیں گے اس لیے کہ بقول اقبال ؎ صنم کدہ ہے جہاں اور مرد حق ہے خلیل یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لا الہ میں ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply