• صفحہ اول
  • /
  • گوشہ ہند
  • /
  • ایک ہندو دوست کا اپنی قوم سے خطاب /تحریر: شیام میرا سنگھ: ہندی سے ترجمہ:/اشعرنجمی

ایک ہندو دوست کا اپنی قوم سے خطاب /تحریر: شیام میرا سنگھ: ہندی سے ترجمہ:/اشعرنجمی

این آر سی کی حمایت میں بولنے سے پہلے ایک بار اپنا مطالعہ درست کر لیجیے۔ خود مرکزی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اس ملک میں:

(1) 30 کروڑ لوگ بے زمین ہیں یعنی ان کے پاس کوئی زمین نہیں ہے ۔(یہ اعداد و شمار ارون جیٹلی نے پارلیامنٹ میں بتایا تھا جب وہ ‘PMMY ،پردھان منتری مُدرا یوجنا’ لاگو کررہے تھے) سوال اٹھتا ہے کہ جب 30 کروڑ لوگوں کے پاس زمین نہیں ہے تو وہ کس زمین کے کاغذات NRC میں پیش کریں گے؟

(2) 170 لاکھ لوگ بے گھر ہیں، یعنی ان کے پاس رہنے کے لیے گھر ہی نہیں ہے؛ کوئی فٹ پاتھ پر سوتا ہے، کوئی جھگی جھونپڑی بنا کر، کوئی فلائی اوور کے نیچے اور کوئی ‘رین بسیرا’ میں۔ ایسا میں نہیں کہہ رہا ، مرکزی سرکار کی جانب سے سروے کرنے والا ادارہ NSSO کہہ رہا ہے۔ اب اگر ان لوگوں کے پاس مکان ہی نہیں ہے تو کیا وہ ان فٹ پاتھ یا فلائی اوور کے کاغذات NRCمیں دکھائیں گے کہ وہ کون سے فٹ پاتھ پر یا کس فلائی اوور کے نیچے سوتے ہیں؟

(3) اس دیش میں 15 کروڑ خانہ بدوشوں کی آبادی ہے۔آپ نے شاید بنجارے، گاڑیا لوہار، باوریا، نٹ، کال بیلیا، بھوپا، قلندر، بھوٹیال وغیرہ کے نام سنے ہی ہوں گے۔ ان کے رہنے ٹھہرنے کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا؛ آج اِس شہر میں تو کل اُس شہر میں۔ جب ٹھکانہ ہی نہیں تو کون سے کاغذات؟ ایک دو بکریاں اور اوڑھنے بچھانے کے کپڑوں کے سوائے ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ تو کیا امیت شاہ ان کی بکریوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کرکے بتائیں گے کہ ہارمونیم کی طرح ان کے باپ ،بکری بھی وراثت میں چھوڑ کر مرے تھے؟

(4) اس دیش میں 8 کروڑ 43 لوگ آدیباسی ہیں جن کے بارے میں خود سرکار کے پاس ناکافی اعداد و شمار ہوتے ہیں (مردم شماری :2011)۔

(5) آخر میں سب سے اہم بات یہ کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1970 میں ملک کی شرح خواندگی 34 فیصد تھی یعنی 66 فیصد لوگ ان پڑھ تھے، بالفاظ دیگر اس ملک کے 66 فیصد اجداد اور بزرگوں کے پاس لکھائی پڑھائی کا کوئی دستاویز ہی نہیں ہے۔ آج بھی تقریباً 26 فیصد یعنی 31 کروڑ لوگ ان پڑھ ہیں، جب اسکول ہی نہیں گئے تو انھوں نے مارک شیٹ کس بات کی رکھی ہوگی؟

تو بات یہ ہے میرے دوستو! اپنے اندر کے کٹرپن کو تھوڑا ڈھیلا کیجیے اور اپنے گاؤں، شہر کے سب سے کمزور پچھڑے لوگوں کے گھر وں پر نظر دوڑائیے اور سوچیے کہ ان کے پاس ان کے دادا ، پردادا کے کون کون سے کاغذات رکھے ہوں گے؟ کیا شہریت ثابت نہ کرپانے کی صورت میں ان کے پاس اتنی دولت ہوگی کہ یہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپنا مقدمہ لڑسکیں؟

چنانچہ این آر سی جیسا غیر ضروری، فضول اور توہین آمیز قانون صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے، اس بات کو آپ جتنی جلدی سمجھ پائیں،اچھا ہوگا۔ آسام میں بھی جو ہندو شروعات میں بہت پھدک رہے تھے، وہی این آر سی لاگو ہونے کے بعد اپنے ہی دیش میں ‘گھس پیٹھیے’ ہوگئے ہیں۔ وہ بھی شروعات میں کہہ رہے تھے کہ آسام میں ایک کروڑ گھس پیٹھیے ہیں، جب کہ 19 لاکھ لوگ ایسے نکلے جو دستاویز کی بنیاد پر اپنی شہریت ثابت نہ کر پائے، اس میں بھی 15 لاکھ تو ہندو ہی ہیں، اب وہی ہندو این آر سی کے نام سے بھی کانپتے ہیں اور اسے رد کرنے کی آواز اٹھا رہے ہیں۔

ہمارے ٹیکس کے پیسے جو غارت ہوئے سو ہوئے لیکن ہاتھ کیا آیا؟ غریب سے غریب آدمی کو اپنا سارا کام دھندا چھوڑ کر وکیلوں کے چکر لگانے پڑے، سر درد جھیلا، بے عزتی برداشت کی اور آخر میں ایک بھی آدمی آسام سے باہر نہیں گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ کے دماغ میں یہ چھوٹی سی بات آخر کیوں نہیں گھستی کہ سرکار آپ ہی کے ٹیکس کے پیسوں سے ملک میں سرکس کرانے جا رہی ہے جہاں جانوروں کی طرح آپ کو بھی لائن میں لگ کر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ آپ ہندوستانی ہیں۔ لائن میں لگنے کے سوا کیا آپ کے پاس کوئی دوسرا کام باقی نہیں بچا؟ کبھی آدھار کارڈ کے لیے لائن، کبھی نوٹ بدلنے کے لیے لائن، کبھی جی ایس ٹی نمبر کے لیے لائن اور اب خود کو اس ملک کا شہری ثابت کرنے کے لیے لائن۔سرکار کس کے لیے بنائی تھی؟ لائن میں لگنے کے لیے ؟ کیا کالا دھن، اسکول، یونیورسٹی، روزگار، اسپتال ؛ سب کام نمٹ گئے؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply