بنام صدرِ پاکستان۔۔۔۔اعظم معراج

صدر پاکستان کو کتابوں کے تحفے کے ساتھ بھیجا گیا ایک خط جو اس کتاب میں بھی شامل ہے

محترم ڈاکٹر عارف علوی

(02.10.2019)

صدر پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان
اسلام آباد

السلام علیکم!
جناب صدر صاحب میں آپ کو تحریک شناخت جس کا میں ایک رضا کار ہوں کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے لکھی گئی گیارہ کُتب میں سے دو”دھرتی جائے کیوں پرائے“ اور اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ”نگلیکٹڈ کرسچن چلڈرن آف انڈس“ اور ”شان سبزو سفید“ بھیج رہا ہوں یہ تمام کُتب تحریک شناخت کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے لکھی گئی ہیں۔ یہ تحریک پاکستانی مسیحیوں کی دھرتی سے نسبت آزادی ہند، قیام تعمیر و دفاع پاکستان میں ان کے اجداد اور موجودہ نسلوں کے شاندار کردار کے ذریعے مسیحیوں کی پاکستانی معاشرے میں قابل فخر شناخت کو اجاگر کرنے کی فکری تحریک ہے۔

ساتھ ہی اپنا ایک کھلا خط جو کہ میں نے غیر مسلمان پاکستانیوں کے نام لکھا ہے وہ بھی بھیج رہا ہوں گو کہ میں یہ کُتب آپ کو ماضی میں بالمشافہ مل کر بھی دے سکتا تھا کیونکہ میں این اے 247 کا ایک ووٹر بھی ہوں اور دوران انتخابات آپ سے کئی بار ملاقات بھی ہو چکی ہے۔ لیکن ان دنوں کتاب پیش کرنا مجھے خود نمائی محسوس ہوا کیونکہ میرے لئے اپنی یہ بائیس سالہ جدوجہد خود نمائی سے بڑھ کر خود آگاہی، خود شناسی کا معاملہ بن چکی ہے ۔ آج کل آپ کیونکہ اس ریاست کے سب سے بڑے وفاقی عہدے پر فائز ہیں۔ ” مجھے نہیں پتہ آئین کی روح سے آپ کس حد تک کسی آئینی ترمیم پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس ریاست کی سب سے بڑی وفاقی علامت کے طور پر میرے لئے اس مسئلے کو آپ تک پہنچانا ایک ذمہ داری تھی یہ آپ بہتر سمجھتے ہیں کہ آپ کس طرح میر ے اس کھلے خط میں اُجاگر کئے ہوئے مسئلے کوحل طلب سمجھتے ہیں .اور کس طرح اسے حل کرنے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ آپ کیونکہ صدر پاکستان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی جماعت کے بانی رکن بھی ہیں اس لئے مجھے اُمید ہے اس پر آپ بطور ایک سیاسی مدبر کے بھی سوچ بچار کریں گے اور اپنی سفارشات اپنی حکومت کو دیں گے۔

اس خط میں مَیں نے غیر مسلمان پاکستانیوں پر پچھلے72سال میں مختلف ادوار میں تھوپے گئے انتخابی طریقہ کا تجزیہ کرکے ان کی خوبیوں، خامیوں کو اُجاگر کیا ہے اور اپنے تئیں اس نظام میں تبدیلی کی سفارشات بھی پیش کی ہیں اور یہ سفارشات باقی متعلقہ فورم تک بھی پہنچانے کی کوشش کی ہے باقی آپ کو یہ کُتب اور کھلا خط بھیجنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ آپ اس ریاست کے وفاق کی علامت سب سے بڑے عہدے پرفائز ہیں اور میں جو مسئلہ آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں یہ2017ءکی افراد شماری کے مطابق تقریباً78لاکھ پاکستانی دھرتی کے بچوں کا ہے اور یہ 78 لاکھ مذہبی طور پر اقلیت قرار دیے گئے محب وطن شہری اس فیڈریشن کے ہر انتظامی یونٹ میں آباد ہیں۔

لہٰذا ان میں سے کسی بھی فرد سے سیاسی، انسانی و شہری حقوق کی ناانصافی ملک بھر میں محسوس کی جاتی ہے اور سوشل میڈیا کی بدولت دنیا بھر میں سنی اور دیکھی جاتی ہے اور پھر ہر کوئی اسے اپنے نقطہ نظر اور زاویہ نظر سے دنیابھر میں پھیلاتا ہے جس سے یقیناً ریاست کی اور حکومت پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے۔ جو کہ ریاست اور شہری کے عمرانی رشتے کو کمزور کرتی ہیں کیونکہ موجودہ دور میں ایک کامیاب ریاست کے لئے یہ بھی ایک معیار سمجھا جاتا ہے کہ کوئی ریاست اپنی جغرافیائی لسانی، مذہبی یا کسی بھی قسم کی اقلیت بچوں، خواتین کے بنیادی شہری انسانی حقوق کا کتنا خیال رکھتی ہے۔

اوپر بیان کی گئی گیارہ کُتب میں سے پہلی کتاب ”دھرتی جائے کیوں پرائے“ جس کا انگریزی ترجمہ میں آپ کو بھیج رہاہوں ۔ اور یہ کتاب پاکستانی مسیحی کی پاکستانی معاشرے سے معاشرتی بیگانگی کے سوال کو کھوجتی ہے یہ کتاب انِ سماجی رویوں کی کہانی ہے، جس کا سامنا وادی  ء سندھ (موجودہ پاکستان) کا بیٹا ہزاروں سال سے کرتا آرہا ہے، اِس سماجی استحصال کے ردعمل میں سندھ واسیوں کی موجودہ نسل کے ایک گروہ (مسیحیوں) نے جو سماجی رویے اپنالیے ہیں، کتاب میں انھیں ہی موضوع بنایاگیا ہے ۔ اس کتاب میں دو نہایت تاریخی دستاویز ایس پی سنگھا کی پنجاب اسمبلی میں آخری تقریر اور جوگندر ناتھ منڈل کا استعفیٰ بھی شامل ہے یہ گجرات یونیورسٹی میں انگریزی زبان میں ترجمے کیلئے بطور ایم فل پروجیکٹ منتخب ہوئی Neglected Christian Children of Indus کے نام سے اسے انگریزی روپ دیا گیا۔ یہ کتاب پاکستانی مسیحیوں کو پاکستانی معاشرے میں درپیش مسائل دستیاب مواقعوں اور کمزوریوں و توانائیوں کا تخمینہ اور مکمل تجزیہ طکمخ کرتی ہے۔ اس کتاب کا دیباچہ عہد حاضر کے مشہور خاکہ و افسانہ نگار عرفان جاوید نے لکھا ہے اورآپ کو یہ بات لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ عرفان جاوید صاحب نے سینیٹ کیتھرین والا وہ واقعہ بھی اس دیباچے میں بڑی تفصیل سے لکھا ہے، جو آپ بین المذاہب ہم آہنگی کے تناظر میں ایک دو دفعہ ٹیلی ویژن پروگرام پر بیان کر چکے ہیں۔ دوسری کتاب ”شان سبزو سفید“ آپ کو بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کتاب میں درج معلومات بھی بین المذاہب و سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے بہت کام آ سکتی ہیں۔ یہ کتاب دفاع پاکستان میں مسیحیوں کی 70 سالہ تاریخ بیان کرتی ایسی تاریخی دستاویز ہے جو86مسیحی شہداءکی مکمل فہرست کے ساتھ ان میں سے کئی کی ایمان افروز داستانوں اور افواج پاکستان کے5 دو ستارے22 ایک ستارے والے مسیحی جرنیلوں کے ساتھ7ستارہ جرات 3تمغہ جرات 9ستارہ بسالت11تمغہ بسالت اور حیدران کے5مسیحی ساتھیوں 3اعزازی شمشیریافتگان کے علاوہ شہداء، غازیوں اور محافظوں کی ایمان افروز داستانوں پر مبنی یہ کتاب نہ صرف مسیحیوں کی موجودہ اور آنے والی نوجوان نسلوں میں شہداءکے لہو ، غازیوں ،محافظوں کی جرات کی بے مثال داستانوں سے عزم و حوصلہ وطن پرستی پیدا کررہی ہے بلکہ پاکستانی قوم میں بین المذاہب اور معاشرتی ہم آہنگی کا سبب بھی بن رہی ہے۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ کرسچین ڈیفنڈرز آف پاکستان کے نام سے زیر اشاعت ہے۔

لہٰذاآپ سے گزارش ہے کہ ”شان سبزو سفید “میں درج معلومات پاکستانی معاشرے میں پھیلانے میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ اس طرح کی معلومات جس طرح مسیحیوں میں عزم و حوصلے اور حب الوطنی بھرتی ہیں اسی طرح یہ معلومات پاکستانی قوم کے سامنے آنے سے قوم میں بین المذہب اور معاشرتی ہم آہنگی بھی پیدا کرتی ہیں جس کی اس وقت ہماری قوم کو بہت ضرورت بھی ہے بلکہ مختلف مذہبی جغرافیائی ، مسلکی ، لسانی اکائیوں پر مبنی قوموں کو اس طرح کی معلومات اپنے ہر شہری تک پہنچانے کی ہر وقت ضرورت ہوتی ہے۔

اور ہمیں بطور قوم اس وقت جس طرح کے عالمی سطح پر مسائل و خطرات درپیش ہیں ہمیں تو کسی بھی قوم سے زیادہ اس طرح کے اقدام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ عموما جس طرح کے رویے پچھلے ستر سالوں میں ہماری لسانی یا جغرافیائی طور پر اپنے آپ کو اقلیتی قرار دینے والے گروہ اپناتے ہیں خدا کا شکر ہے کہ اس قوم کی مذہبی اقلیتوں نے کبھی وہ رویے نہیں اپنائے حالانکہ آئین پاکستان کی کئی شقیں غیر مسلمان دھرتی کے بچوں کے بنیادی انسانی و سیاسی حقوق سے متصادم اور ان شقوں کی بائے پروڈکٹ(ضمنی پیداواروں) امتیازی مذہبی وسماجی رویوں کو یہ غیرمسلمان پاکستانی بھگتنے کے باوجود پاکستان کے ریاستی اداروں اور سیاسی حکومتوں کی کمزوریوں کی بدولت صرف نظر کرتے ہیں۔لیکن ہر انسان کا ردعمل ہر عمل پر ایک سا نہیں ہوتا لہٰذا جو لوگ ایسے سماجی رویوں اور امتیازی قوانین کی بدولت تکلیفیں اٹھاتے ہیں اور دیار غیرہجرت کر جاتے ہیں۔ یعنی بھاگ جاتے ہیں وہ بقول میاں محمد بخش
لسے دا کی زور محمد نس جانا یا رونا
(کمزور کا کیا زور میاں بھاگ جانا یا رونا)

اسی لئے میں آپ کی توجہ میں اس باریک نقطے کی طرف دلوانا چاہتا ہوں کہ ایسے دھرتی کے بچوں کا رونا اور بھاگ جانا ریاست کے لئے بہت نقصان دہ ہوتا ہے کیونکہ بھاگ جانے والے جب دیار غیر میں روتے ہیں تو آج کے دور میں پھر عالمی طاقتیں اس مظلومیت کو (آوٹ آف پروپوشن) نسبت تناسب سے زائد بنا کر ان سے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ لہٰذا پاکستانی ریاست اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے معروضی حالات کے مطابق اپنی اقلیتیوں کو اس نقطے پر نہ پہنچائیں کہ جہاں کمزور کے پاس بھاگ جانے اور رونے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔ لہٰذا اس انتخابی نظام پر بہت بحث کی ضرورت ہے اُمید ہے آپ اسے متعلقہ فورم پر بحث مباحثوں کے لئے ضرور اپنی سفارشات کے ساتھ بھجوائیں گے مجھے امید ہے اپنے غیر مسلم شہریوں کو اچھا اور انصاف پر مبنی انتخابی نظام دے کر حکومت اور ریاست پاکستان کو کمزور کرنے والے عوامل سے بچ سکتی ہے اور دوسری کتاب ”شان سبزو سفید“میں درج قابلِ فخر معلومات کو پھیلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔اُمید ہے آپ اپنی قوم کی تعمیرکے لئے یہ بے ضرر سے کام کو انجام دینے میں ضرور دلچسپی لے کر تحریک شناخت کے رضا کاروں کا ہاتھ بٹائیں ۔گے تاکہ ہم بحیثیت قوم مل کر اوپر بیان کی گئی صورت حال سے جتنا زیادہ ہو سکے بچیں ۔
والسلام

اعظم معراج
منسلک
1.تاب” دھرتی جائے کیوں پرائے“
2.”شان سبزو سفید“
3.غیر مسلمان پاکستانیوں کے خلاف کھلا خط
4. نیگلیکٹڈ کرسچئن چلڈرن آف انڈس

تعارف:اعظم معراج پیشے کے اعتبار سے اسٹیٹ ایجنٹ ہیں ۔13 کتابوں کے مصنف ہیںِ جن میں  ، پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار۔دھرتی جائے کیوں پرائے،شناخت نامہ،اور شان سبز وسفید نمایاں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

 

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply