یوپی کا بدلتا منظر نامہ اور مسلمان : رشید انصاری

یو پی کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات سے صرف چندماہ قبل یوپی کی حکمران جماعت ایس پی کے سربراہ خاندان میں پھوٹ اور گھریلو جھگڑے باہر آگئے ہیں اور گھریلو جھگڑا جب گھر کے باہر آجاتاہے تو گھر کے اندر واپس نہیں جاتاہے اور یہی ملازئم سنگھ کے گھر کے جھگڑے کا ہواہے۔ لیکن اس ذکر سے پہلے مہاراشٹرا میں فسطائیت کی طرف بڑھتے ہوئے ایک واقعہ کا ذکر ہندوستان و پاکستان کے درمیان تہذیبی روابط کے ہمدرد پاکستانی فن کاروں کی پذیرائی کرتے ہیں۔ ایسے ایک فلم ساز کرن جوہر نے پاکستانی فن کاروں کو لے کر ایک فلم بنائی۔ فلم کی تکمیل تک ہند۔پاک کی موجودہ کشیدہ صورت حال پیدا ہوگئی۔ راج ٹھاکر ے جن کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں ہے ہاں غنڈوں پر ان کا بڑا اثر ہے۔ ان کی داداگیری یا غنڈہ گردی سے حکومتیں ڈرتی ہیں چنانچہ راج ٹھاکرے نے اعلان کردیا کہ کرن جوہر کی فلم ریلیز نہیں ہونے دیں گے۔ مہاراشٹرا حکومت بجائے اس کے کہ قانون کی حکمرانی کا زور بتاتی۔ وزیر اعلیٰ مہاراشٹرا پھڈ نویس نے راج ٹھاکرے کے ساتھ میٹنگ کرکے پروڈیوسر پر دباؤ ڈالا کہ وہ فوجیوں کے امدادی فنڈ میں پانچ کروڑ کا عطیہ دے تو فلم ریلیز ہوپائے گی ورنہ نہیں۔ پروڈیوسر کو راضی ہونا پڑا۔ گویا شرمناک بلیک میلنگ یا جبر وصولی کے ایک معاملے میں آر ایس ایس کے قدیم سیوک وزیر اعلیٰ پھڈ نویس بھی ایک فریق بن کر نہ صرف غنڈہ گردی کے آگے جھک گئے بلکہ ایک فریق بن کر اپنی فسطائیت کا بھر پور مظاہرکیا۔ اس شرمناک واقعہ پر دیگر قائدین اور میڈیا کی قابل مذمت خاموشی مجرمانہ ہے۔

ملائم خاندان کے اختلافات بظاہر لاکھ ختم ہوتے نظر آرہے ہیں یا اکھلیش عنان حکومت سنبھالے رہیں یا شیوپال یادو پارٹی چلاتے رہیں لیکن دل میں پڑی دراڑیں ختم نہ ہوں گی آئینہ میں پڑا بال مٹائے نہیں مٹتا ہے۔ اسی طرح ٹوٹا دل جڑ تا نہیں ہے۔ سماج وادی کے اختلافات سے یو پی کا سیاسی منظر نامہ ہی بدل سکتا ہے۔ سماج وادی یوں بھی موجودہ حالات سے قبل بھی ناقاتبل تسخیر نہیں رہی تھی لیکن اب تو اس کا اپنا اقتدار بچانا مشکل ہے۔ پارٹی کے اختلافات کا فائدہ سب سے زیادہ بی جے پی کو ہی ہوسکتا ہے۔ انتخابات تک اگر پارٹی منقسم نہ بھی ہوتو سماج وادی پارٹی کے ووٹرس کا منقسم ہونا لازمی ہے۔ پارٹی کے امیدواروں کا انتخاب چاہے جس طرح ہو ہر امیدوار پر اکھلیس اور شیوپال یادو کے خیموں کی مہر لگی ہوگی ۔ ان حالات میں یہ سوچنا کہ اکھلیش اور شیوپال یادو کے ہمدرد کارکن اپنے حریف گروپ کے امیدوار کی کامیابی کی کوشش پورے خلوص سے بلکہ تن تن دھن سے کریں گے۔ محض خام خیالی ہے۔ وقتی طور پر لاکھ سمجھوتے ہوجائیں لیکن پہلی والی بات کا لوٹ کرآنا آسان نہیں ہے۔ سماج وادی پارٹی میں اختلافات کی وجہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ یہ امر سنگھ کی کارستانی ہے۔ امرسنگھ کی شہرت ایک فتنہ پرور شخصیت کی حیثیت سے مشہور ہے بلکہ باور کیا جاتا ہے کہ وہ دراصل آر ایس ایس کے خاص آدمی ہیں اور آر ایس ایس کی مخالف پارٹیوں میں انتشار پھیلانے کی ذمہ داری ان کو سونپی گئی ہے۔ 2004ء میں یو پی اے کو سماج وادی پارٹی سے دورکرنے میں ان کا کردار اہم رہا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے مولوی اور مولانا کہلانے والے ملائم سنگھ کو مسلمانوں سے دور کرنے میں بھی ان کا خاص رول رہا ہے۔ امرسنگھ خود سرمایہ دار ہوں نہ ہوں سرمایہ داروں اور فلمی دنیا والوں سے ان کا خاص اثر رہا ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاکر وہ سماج وادی پارٹی کو خاصہ مالی پہنچاتے رہے ہیں۔ من موہن سنگھ دور میں امریکہ سے نیو کلےئر معاہدہ کے سلسلے میں پارلیمان میں نوٹ برائے ووٹ اسکینڈل میں بھی وہ ملوث تھے۔ سماج وادی پارٹی میں کلیان سنگھ اور ساکشی مہاراج کو لانے والے بھی امرسنگھ ہی تھے۔ اعظم خاں بھی امرسنگھ کی وجہ سے بھی سماج وادی پارٹی سے دور ہوئے تھے۔ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ملائم سنگھ اپنا تدبر کھوتے جارہے ہیں اور غلط لوگوں کے غلط مشوروں پر چل کر پارٹی کا نقصان کررہے ہیں۔ امرسنگھ کی وجہ سے ملائم سنگھ سے بھاجپا کی خفیہ مفاہمت کی بات ہونے لگی ہے بلکہ ملائم سنگھ کو مولانا سے ہندتووادی امرسنگھ نے ہی بنایا ہے اور اب امر سنگھ نے باپ بیٹے کو لڑوادیا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کا وہ مضمون جس میں اکھلیش کو اورنگ زیب اور ملائم سنگھ کو شاہ جہاں کہا گیا ہے امرسنگھ ہی کی کارستانی ہے۔ ملائم سنگھ کا سلوک اکھلیش کے ساتھ انتہائی نازیبا اور ناروا ہے۔ 24؍اکتوبر کو پارٹی اجلاس میں ملائم سنگھ نے جس بری طرح اکھلیش کی توہین کی ہے اس کو جس خندہ پیشانی سے اکھلیش نے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے برداشت کیا ہے وہ لائق تحسین ہی نہیں بلکہ کسی بھی نوجوان کیلئے قابل تقلید ہے۔ ملائم سنگھ کی تخریب کاری میں امرسنگھ کے علاوہ ملائم سنگھ کی دوسری بیگم کا بھی رول نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ملائم سنگھ کی زوجہ دوم اکھلیش کی جگہ اپنی اولاد کو دیکھنا چاہتی ہیں اسی لئے یہ ڈرامہ بازی ہورہی ہے یا اکھلیش کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔

اکھلیش کے خلاف جو سازشیں ہورہی ہیں اس کو دیکھتے ہوئے اکھلیش ملائم کے مقابلے میں زیادہ بہتر بلکہ پسندیدہ بن کر ابھرے ہیں۔ مظفر نگر کے فسادات اور یو پی کے دوسرے مسلم کش فسادات کے بعد اکھلیش حکومت پر مسلم دشمنی کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ جس کی تردید ناممکن ہے لیکن اس کی وجہ اکھلیش کی مسلمانوں سے دشمنی نہیں بلکہ کسی حدتک ناہلی، ناتجربہ کاری اور حکومت پر مکمل گرفت نہ رکھنا ہے۔ اکھلیش نے کئی بار کہا ہے کہ میں آدھا وزیر اعلیٰ ہوں۔ اکھلیش کی کابینہ میں مخالف اکھلیش ہی نہیں بلکہ مخالف مسلم وزرأ بھی ہیں۔ اکھلیش کا نہ ان پر اثر ہے اور نہ ہی بی جے پی کی زیر اثر پولیس افسروں اور انتظامیہ کے اعلیٰ وادنیٰ افسران پر ہے۔ ان ہی افسروں پولیس کی وجہ سے مسلم کش فسادات ہوئے اوران افسران نے مظفر نگر کا فساد نہ ہو یا کوئی دوسرا فساد ہو یا دادری کا واقعہ ہو مجرموں کے ساتھ رعایت کی اور اکھلیش کی نہ صرف ان پر گرفت کمزور ہے بلکہ ان کو بچانے والے ملائم سنگھ کے خاندان ہی کے لوگ ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اکھلیش کے خلاف موجودہ ہنگامہ آرائی اور سازش کا سبب یہی ہے کہ جب اکھلیش نے اپنے اختیارات استعمال کئے خاطی افسران پر گرفت سخت کی خاص طور پر امرسنگھ جیسے منافقوں اور مختار انصاری جیسے جرائم پیشہ افراد کی پارٹی میں داخلے کی جائز اور پارٹی کے مفادات کی خاطر مخالفت کی تو اکھلیش کو اپنے ریموٹ سے کنٹرول کرنے والوں کو احساس ہوا کہ اکھلیش ہاتھ سے نکلا جارہا ہے تو شیوپال یادو سامنے آگئے۔ اسکے علاوہ بی جے پی کی ملائم سنگھ سے خفیہ مفاہمت خود بی جے پی کو خطرے میں نظر آئی اور اکھلیش نے ترقی و فلاح و بہبود کے قابل لحاظ کام کیا جس کی وجہ سے بی جے پی کو اکھلیش سے خطرات لاحق ہونے لگے اور بی جے پی کو یہ بھی یقین ہوگیا ہے کہ اکھلیش کے ہوتے ہوئے ایس پی سے بھاجپا کو مدد نہ مل سکے گی جس طرح اکھلیش نے مختار انصاری کی مخالفت کی تھی۔ اسی طرح وہ بھاجپا سے مفاہمت اور اس کی مدد کی مخالفت کریں گے تو بڑی پریشانی ہوگی نیز مودی جی صرف وکاس وکاس کرتے رہے اور کچھ نہیں کیا جبکہ اکھلیش نے خاصی حدتک وکاس (ترقی) کی ہے ۔ بھاجپا کا یہ اندیشہ بجا ہے کہ کہیں ترقی کی وجہ سے سماج وادی پارٹی بازی نہ مارلے۔ اس لئے ایس پی میں پھوٹ ڈالنے کی سازش کی گئی اور امرسنگھ کو استعمال کیا گیا۔
جو مسلمان کسی نہ کسی وجہ سے ایس پی کے ساتھ جاسکتے تھے وہ بھی اب ایس پی کو ووٹ نہ دیں گے۔ اب مسلم اکابرین علماء، صحافیوں اور دانشوروں کا فرض ہے کہ مسلم ووٹ بینک کو منتشر نہ ہونے دیں۔ ا سد الدین اویسی اور ایم آئی ایم پرکانگریس کے زیر اثر بے ہودہ بے جواز اور من گھڑت الزامات لگانا چھوڑ کر مسلم ووٹس کو منتشر ہونے سے بچاکر بھاجپا کو کامیاب نہ ہونے دیں بلکہ جیتنے والوں کا ساتھ دے کر سیاسی فائدہ اٹھائیں۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply