کب کسی وقت کیا ہوجائے کچھ نہیں معلوم: حفیظ نعمانی

دس دن پہلے جب ہم نے شری ملائم سنگھ کی چھوٹی بیگم اور ان کے راج کمار کا ذکر کیا تھا تو یہ معلوم نہیں تھا کہ محترمہ کا اسم گرامی کیا ہے، لیکن ہم نے صرف اس اشارہ پر کہ جب شیو پال اور اکھلیش میں پہلی جھڑپ ہوئی تھی تو چھوٹی بیگم کے فرزند شیوپال کی حمایت میں تھے۔ پوری کہانی بتائی تھی۔ دو دن پہلے ٹی وی پر ان کو دکھا بھی دیا گیا۔ ان کا نام سادھنا بھی بتا دیا گیا اور اب یہ بات بھی سامنے آگئی کہ اکھلیش بابو کی بیوی ڈمپل ایم پی سے ان کی تلخ کلامی بھی ہوچکی ہے اور اصل مسئلہ وہی ہے کہ میرے بیٹے کی کرسی کہاں ہے؟ملائم سنگھ نے گذشتہ ساڑھے چار سال میں صبح و شام اٹھتے بیٹھتے اور ہر موقع پر یہ کہا ہے کہ عوام نے مجھے ووٹ دئے تھے۔ میں نے اکھلیش کو وزیر اعلیٰ بنایا۔

اس بات کو بے ضرورت وہ جب کہتے تھے تو کوئی نہیں سمجھتا تھا کہ ایک باپ نے اپنی زندگی میں اگر اپنے بڑے بیٹے کو جانشین بنادیا تو یہ کوئی انہونی نہیں ہے۔ لیکن یہ بات سب کو عجیب سی لگتی تھی کہ وہ سال میں دو تین بار اکھلیش کو بھرے ہال میں نا اہل بھی کہتے رہتے تھے۔ بالکل ایسے جیسے کوئی باپ اپنی گاڑی چلانے کے لیے بڑے بیٹے کو دے دے اور ہر چھ مہینے کے بعد کہے کہ تم ٹھیک سے نہیں چلا رہے ہو۔ اسے ٹھیک سے چلاؤ ورنہ میں تم سے واپس لے لوں گا۔

ملام سنگھ کو سب دیکھ رہے ہیں کہ وہ اب صحت کے اعتبار سے کمزور ہورہے ہیں ۔ ان کا چلنا اور کھڑے سے بیٹھنا ان کی کمزوری کی چغلی کھاتے ہیں۔ باہر کے لوگوں کے مقابلہ میں اندر کے لوگ اور سب سے زیادہ شریک زندگی صحت سے واقف بھی ہوتی ہے اور فکر مند بھی رہتی ہے اور اگر دوسری بیگم ہیں تو ان کی زبان پر تو ہر وقت ایک ہی جملہ رہتا ہے کہ اس کا تو یہ ہوگیا، اس کو تو یہ دے دیا، اب میرے بچوں کا کیا ہوگا؟ وہ کون شوہر ہوگا جو ان طعنوں کو ہنس کر ٹال سکتا ہو اور بڑھاپا جس میں سہاروں کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے اس کا خیال نہ کرے۔

ملائم سنگھ نے الیکشن میں اکھلیش کو اپنے ساتھ لیا تو یہ ان کی وہ کمزوری تھی جو ہر الیکشن میں سامنے آئی ہے۔ جس کی بنا پرانھوں نے ساکشی مہاراج کے بھی پاؤں چھوئے اور کلیان سنگھ سے تعلق بنایا تو وہی بار بار ان کے گھر گئے اور ان کے بیٹے کو سرکا تاج بنالیا۔ یا اب بے وجہ اور بے ضرورت امرسنگھ اور بینی پرساد ورما کو نہ صرف بلایا بلکہ انھیں راجیہ سبھا بھی بھیج دیا اور اس کی ضرورت نہیں سمجھی کہ جو وزیر اعلیٰ ہے اور جس کے کاموں کے حساب پر ہی الیکشن لڑا جائے گا اس سے بھی مشورہ کر لیں، یہاں بھی ان کی وہی ادا تھی کہ پارٹی میری ہے،عوام نے مجھے ووٹ دئے ہیں۔ حکومت میری ہے۔ میں نے اکھلیش کو دی ہے اور مختار انصاری کی پارٹی کے جو احسانات لئے اس میں بھی اکھلیش کو باہر رکھا اور جب ان احسانوں کا بدلہ دینے کا وقت آیا تو جو کچھ ہوا وہ سب نے دیکھا۔ مغل اعظم اور شہزادے کے درمیان اقتدار کی منتقلی کے بعد ملائم سنگھ کو ایک دیوار کھینچنے کی ضرورت تھی جو انھوں نے نہیں کھینچی۔ اور وہ ہر فیصلہ یہ سمجھتے ہوئے کرتے رہے کہ پارٹی بھی میری ہے اور حکومت بھی میری۔

اور اکھلیش کا یہ کہنا کہ میں نے تو اپنا نام بھی خود رکھا اور امر سنگھ کا یہ کہنا کہ وہ میرا بچہ ہے۔ وہ اگر مجھے مارے گا تو میں معلوم کروں گا کہ بیٹے ہاتھ میں چوٹ تو نہیں آئی؟ اور مزید یہ جتانا کہ میں آسٹریلیا لے گیا تاکہ تعلیم مکمل ہوجائے اور ملائم سنگھ کے دست راست اعظم خاں کا بھتیجے کے ساتھ کھڑا ہونا۔ یہ ساری باتیں وہ ہیں جس کے بعد اب پارٹی کا جو حشر ہو وہ کم ہے۔

کل رات میڈیا سے ملائم سنگھ نے یہ کہہ کر دروازہ بند کرادیا کہ میں آج نہیں بولوں گا جو کہنا ہے کل کہوں گا اور آج انھوں نے جو کہا وہ کوئی چونکا دینے والی بات نہیں ہے۔ ان کا بار بار یہ کہنا کہ میں شیو پال کو نہیں چھوڑ سکتا۔ وہ عوامی لیڈر ہیں۔ انھوں نے برے وقتوں میں میرا ساتھ دیا ہے اور امر سنگھ میرے بھائی ہیں۔ انھوں نے مجھے جیل جانے سے بچایا ہے اور وہ بار بار میرے کام آئے ہیں اور مختار انصاری کی پارٹی کے ساتھ اتحاد نہیں ٹوٹے گااور مختار انصاری معزز گھرانے کے فرد ہیں یا اپنی کمزوریوں کے بجائے آپس میں لڑنا ٹھیک نہیں ہے۔

جیل جانا تین طرح کا ہوتا ہے ایک وہ جیسے سوشلسٹ پارٹی کے لیڈر اور ورکر یا ہر سیاسی لیڈر یا ہم اخبار والے ۔ دوسرے وہ جیسے بہار میں شہاب الدین اور اترپردیش میں مختار انصاری وغیرہ اور تیسرے وہ ہوتے ہیں جیسے گریٹر نوئیڈا کے یادو سنگھ۔ ملائم سنگھ نے یہ نہیں بتایا کہ کس معاملہ میں امر سنگھ نے جیل جانے سے بچایا ؟

رہا شیو پال کو کسی بھی حالت میں نہ چھوڑنا۔ اس کی وجہ وہ جو بھی بتائیں حقیقت یہ ہے کہ چھوٹے راج کمار اور چھوٹی رانی شیو پال کے ساتھ ہیں اور ملائم سنگھ اپنے کوڑے کباڑے کے ساتھ الیکشن لڑنا چاہتے ہیں تاکہ اگر اکثریت مل جائے تو پھر کہہ سکیں کہ ووٹ مجھے ملے ہیں پارٹی میری ہے اور میں جسے چاہوں وزیر اعلیٰ بناؤں۔

ملائم سنگھ اپنا سیاسی شجرہ ڈاکٹر لوہیا سے ملاتے ہیں جبکہ وہ سوشلسٹ پارٹی کے سروے سروا تھے۔ ان کی پارٹی میں ان کے بعد اشوک مہتا ،راج نرائن، رام ساگرمشرا، رام نرائن ترپاٹھی، مترسین اور بھگوتی سنگھ جیسوں کی ایک فوج تھی ۔ ۱۹۶۹ء میں چودھری چرن سنگھ کو گورنمنٹ بنانے کے لیے ووٹوں کی ضرورت تھی تو راج نرائن نے اس شرط پر حمایت دی تھی کہ ۶ بیگھا اور اس سے کم زمین والے کسانوں کا لگان معاف کرو۔ ان کی دلیل تھی کہ وہ غریب پہلے زمیندار کے غلام تھے اوراب سرکار کے غلام ہیں۔ رہی یہ بات کہ خزانہ پر بوجھ پڑے گا تو خزانہ تو ان کا ہی ہے ۔ آپ تو امین ہیں۔کسانوں کے ساتھ ملائم سنگھ کا رویہ وہ نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کل سے اب تک جو کچھ ہوا ہے اس میں اکھلیش کا یہ فیصلہ سامنا آیا ہے کہ جو ان سب کے ساتھ ہے اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ اس کے باوجود ملائم سنگھ کا یہ کہنا کہ سماج وادی پارٹی ٹوٹے گی نہیں، پیشین گوئی ہے یا خواہش ہے یا فریاد اس کا فیصلہ آنے میں زیادہ دیر نہیں ہے۔ اس لیے کہ شہزادہ سلیم کے تیوروہی ہیں جو باغی کے ہوتے ہیں

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply