• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عدم برداشت کے منفی رویوں کی حوصلہ شکنی اور قوم کی تعمیر نوء۔۔عمران علی

عدم برداشت کے منفی رویوں کی حوصلہ شکنی اور قوم کی تعمیر نوء۔۔عمران علی

انسان کو پروردگار عالم نے اشرف المخلوقات کا درجہ عطاء فرمایا، اسے احسن تقویم پر پیدا کیا، انسان کو علم سے آراستہ فرمایا، اسے عقل، فہم و فراست اور ادراک سے مالا مال کردیا، مگر انسان بہت ناشکرا اور کم ظرف ثابت ہوا ہے، اور جب انسان غصے کی حالت میں ہوتا ہے تو اکثر جوش میں ہوش ہی گنوا بیٹھتا ہے، قابیل نے اپنے ہی بھائی ہابیل کا قتل کرکے کائنات میں ظلم کی داستان کے  ایسے باب کا آغاز کیا کہ وہ سلسلہ قیامت کے   روز ہی تھمے گا، لیکن یہی انسان جب ایثار اور قربانی کی داستان رقم کرنے پر آئے تو کربلا برپا کرکے تا ابد رشتوں کی تقریم کا ناقابل فراموش میعار متعین کردیتا ہے،پاکستان تو وہ ملک ہے کہ جس کے وجود کے لیے لاکھوں معصوموں نے اپنی جان کا نذرانہ اس لیے پیش کیا تھا کہ ایسا ملک معرض وجود میں آئے کہ جہاں  تمام رہنے والے تمام تر تفرقوں سے بالاتر ہو کر اپنی اپنی مرضی کے مطابق زندگیاں گزار سکیں، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عدم برداشت کے منفی رویوں نے ایسی جڑ پکڑی کہ کبھی زبان پر اختلاف، کبھی فرقے پر اختلاف اور کبھی ذات برادری پر اختلاف ،دنگے فساد اور بات خونریزی تک بھی پہنچتی رہی، رہی سہی کسر دہشت گردی کے ناسور نے پوری کردی،۔

حالیہ دنوں میں ڈاکٹروں اور وکلاء کا  آپسی تنازعہ،پوری پاکستانی  قوم کے لیے ایک لمحہء فکر یہ ثابت ہوا، کیونکہ وکالت ہو یا طب یہ دونوں ہی نہایت معتبر اور اہم ترین پیشے ہیں، وکلاء سول سوسائٹی کا اہم ترین جزو ہیں، بہت سے عوامی مسائل کو لے کر اس برادری  نے ایسی ایسی کامیاب تحریکیں چلائیں کہ آج تک ان کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ رہے ہیں، یہ بات بہت اہم ہے کہ عام آدمی کا جب کہیں کوئی  آسرا نہیں ہوتا، اور جب سرکار، ادارے اور افسران اس کی بات نہیں سنتے تو اس کا واحد سہارا قانون اور عدالت ہی ہوتی ہے، لاکھوں لوگوں نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے عدالتوں کے دروازے پر دستک دی اور عدالتوں نے انکی کافی حد تک داد رسی کی، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بھی ایک بلند پائے کے وکیل تھے آپ کے تدبر نے آپ کی وکالت کو چار چاند لگا دیے تھے، ایک ہندو مصنف ڈاکٹر سچد آنند نے اپنی کتاب “وہ جناح جسے کہ میں جانتا ہوں” میں تحریر کیا کہ، جناح عدالت میں ایک کیس کے لیے پیش ہوئے تو دوران بحث جج نے کہا کہ مسٹر جناح آپ یاد رکھیے کہ آپ ایک اعلیٰ درجے کے جج سے مخاطب ہیں تو اس پر قائد اعظم نے جواب دیا کہ جناب آپ بھی یاد رکھیں کہ آپ بھی ایک اعلیٰ پائے کے وکیل سے مخاطب ہیں، اور یہ جملے تاریخ نے محفوظ کر لیے، وکالت بہت معزز و محترم پیشہ رہا ہے اور آج تک ہے۔

دوسری طرف  میڈیکل  ایک عظیم الشان پیشہ ہے،   یہ بات طے ہے کہ اچھے برے لوگ ہر جگہ موجود ہیں نہ ہی سارے وکیل برے ہیں اور نہ سارے ڈاکٹر برے ہیں،اور کچھ لوگوں کے غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے پورے شعبے کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا، لیکن کچھ تو ہے جس کی بہت کمی ہے جس سے بہت سارے ناخوشگوار واقعات رونماء ہورہے ہیں، سارا معاملہ آکر مؤثر پیشہ ورانہ تربیت کی عدم موجودگی اور عدم برداشت کا ہے، پہلے تعلیم کا میعار بہت اعلیٰ تھا اور دونوں شعبوں میں گنے چنے لوگ آیا کرتے تھے گورنمنٹ کے لاء اور میڈیکل کالجز تھے نشستیں محدود ہوا کرتی تھیں جس کی بناء پر بہت ہی محدود لوگوں کو داخلہ ملا کرتا تھا ، مگر پھر وکالت اور میڈیکل دونوں ہی شعبوں میں پرائیویٹ سیکٹر کے ادارے ایک بڑی تعداد میں مارکیٹ میں آگئے اور پھر پیسے کی بنیاد پر داخلے ہر صاحب حیثیت کی پہنچ میں آگئے، سیٹیں حقیقتاً خریدی جانے لگیں، تو ایسے میں میعار تو دونوں شعبوں کا گرنا ہی تھا۔

جب بھی میعار پر مقدار بھاری پڑتی ہے تو اس  کا نقصان عام آدمی کی زندگی پر پڑتا ہے، یہی صورت حال کچھ روز قبل تب ہوئی جب نوجوان وکلاء اور ینگ ڈاکٹر وں کی آپس کی لڑائی کے بعد تحریری صلح کے بعد ڈاکٹر عرفان نامی ڈاکٹر کی طنزیہ ویڈیو نے معاملے کو بدترین ہوا دی جس سے عددی طاقت کے نشے میں چور نوجوان وکلاء پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر چڑھ دوڑے اور بد ترین طوفان بدتمیزی کی مثال قائم کردی، جس کا دفاع کوئی بھی ذی شعور انسان نہیں کر سکتا، مگر بات آگے کی ہے کہ کیا ان معاملات کو بہتر بنایا جائے یا پھر مستقبل میں بھی ایسے واقعات کی امید رکھی جائے، ان دونوں شعبوں کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے، دونوں شعبوں کے بڑوں کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور پنجاب بار کونسل کو اپنی اپنی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے بجائے پاکستانی قوم کے بہترین مفاد میں  اپنے اپنے ڈاکٹرز اور وکلاء کی  اصلاح احوال کریں اور اس معاملے کو کسی بہتر منطقی انجام تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں، لیکن اس سب سے بڑھ کر دونوں شعبوں میں پیشہ ورانہ ڈگری کے حصول کے لیے کم از کم 6 ماہ کی احترام آدمیت و انسانیت کی مکمل اور جامع تربیت کو لازم و ملزوم قراردیا جائے تاکہ پاکستانی قوم کو مستقبل میں اچھے ڈاکٹرز اور وکلاء میسر آ سکیں۔

اس وقت پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت اپنے عروج پر ہے، ایسے میں لکھاریوں، شاعروں، مصنفوں اور اساتذہ اور سب سے بڑھ کر میڈیا اور صحافتی اداروں کو مکمل ذمہ داری کا مظاہرہ کرناہوگا، اور ریٹنگ، بریکنگ نیوز اور سنسنی کی صحافت کے بجائے خبر کو غیر جانبدارانہ صحافت کے ساتھ پیش کر کے اپنا مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا ، اور معاشرے میں محبت، امن اور رواداری کو فروغ دینے کے لیے آگے آنا ہوگا،ہمارے روایتی میلوں ٹھیلوں، شاعری، ادب کی محافل کو ایک نئی جہت کے ساتھ قائم کرنا پڑے گا، کیونکہ عدم برداشت کے منفی رویوں کی حوصلہ شکنی سے ایک ذمہ دار قوم کی تعمیر نوء ممکن ہو سکے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”عدم برداشت کے منفی رویوں کی حوصلہ شکنی اور قوم کی تعمیر نوء۔۔عمران علی

Leave a Reply